نومبر 22, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

نایاب سیاسی نسل کے سیاستدان کی جدائی! ۔۔۔ اشفاق لغاری

بزنجو نے اپنی اس شکست کا الزام جنرل فیض پر لگایا تھا۔ ایسی بات کرنے پر حاصل بزنجو کے خلاف گجرانوالا میں ایک پرچا بھی کٹوایا گیا۔

وطن عزیز میں نایاب ہوتے ہوئے سیاسی نسل کا ایک مثبت حوالا میر حاصل بزنجو خضدار سے تقریباً 60 کلومیٹر دور اپنے آبائی گاؤں نال میں اپنی دھرتی ماں کی گود میں ہمیشہ کے لیے سو گیا۔ ماضی قریب میں ایوانوں کے اندر جو نظریے، اصول، اور کمزور طبقات کی سیاست کرنے والی دو چار بڑی آوازیں رہی ہیں میر حاصل بزنجو کا شمار ان میں ہوتا ہے۔ حاصل بزنجو نان سویلین طاقتوں سے عوامی طاقت اور سیاسی مہارت سے لڑنا پسند کرتے تھے۔

1980ء کے زمانے کے کراچی یونیورسٹی کی طلبا سیاست کے دو مقبول نام میاں رضا ربانی اور میر حاصل بزنجو کی ایوان بالا سے آواز ملک میں بڑی سنجیدگی سے سنی جاتی رہی ہے۔ ان میں سے ایک آواز سے ملک کے سوچنے والے ذہن محروم ہو گئے ہیں۔ میر حاصل کا سیاست میں چناؤ بڑا مشکل تھا۔ وہ بلوچستان میں پاکستان اور پاکستان میں بلوچستان کی سیاست کرتے تھے۔ پاکستانی ان کو بلوچ سیاستدان کے طعنے مارتے تھے اور بلوچ ان کو پاکستانی سیاستدان کہہ کر پکارتے تھے۔

بزنجو نے بلوچستان کی سیاست پنجاب والی طرف سے کھڑا ہو کر کی۔ حکومتی اتحادوں میں وہ نواز لیگ کے قریب رہے۔ میر حاصل بزنجو اپنے والد مدبر سیاستدان میر غوث بخش بزنجو کی طرح مشکل باتیں بھی ہنستے مسکراتے کر لیا کرتے تھے۔ والد کی طرح حاصل کا بھی ایمان تھا کہ ریاستی مسائل کا حل صرف سیاست میں ہی ممکن ہے۔ میر حاصل کے والد غوث بخش بزنجو ملک کا پہلا عوامی آئین (1973) بنانے والی آئینی کمیٹی کے سرگرم رکن تھے۔ 1973 کے عوامی آئین میں سے ”ضیائیت کا زہر“ نکالنے کے لیے جب پیپلز پارٹی نے اٹھارہویں آئینی ترمیم پر کام کیا تو اس ترمیم کے لیے میر حاصل بزنجو نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔

اٹھارہویں آئینی ترمیم کے لیے میر حاصل کے کردار کو ان کے طالب علمی کے زمانے کے دوست میاں رضا ربانی بھیگی آنکھوں سے تین روز پہلے سینیٹ میں سراہ رہے تھے۔ حاصل صاحب اپنے سیاسی موقف اور ملنگ طبعیت کی وجہ سے جتنا بلوچستان کے سیاستدانوں، دانشوروں، ادیبوں اور شعرا کے لیے اپنے تھے، اتنے ہی سندھ اور پنجاب کے سیاستدانوں، دانشوروں، ادیبوں اور شعرا کو بھی پیارے تھے۔ کراچی لٹریچر فیسٹول ہو، آرٹس کونسل کراچی کی کوئی سیاسی یا ادبی مجلس ہو یا لاہور میں فیض میلہ، بلوچستان سے آپ کو وہاں حاصل بزنجو کی آواز ضرور سنائی دیتی تھی۔ مگر اب ایسا نہیں ہوگا۔

باقی بلوچوں کی طرح حاصل بزنجو کی بھی حس مزاح بہت تیز تھی۔ جو باتیں پنڈی والے پیاروں کو پسند نہیں وہ باتیں عوامی تقریبات میں حاصل بزنجو ہنسی مذاق میں کر جاتے تھے۔ جب پیپلز پارٹی نے اعتزاز احسن کو ملکی صدارت کے لیے بطور امیدوار کھڑا کیا تو نواز لیگ نے اعتزاز احسن کو ووٹ دینے سے صاف انکار کر دیا اور اپنا امیدوار راجا ظفرالحق کھڑا کر دیا۔ نواز لیگ کے اس فیصلے پر صحافیوں نے جب حاصل بزنجو سے نواز لیگ کی طرف سے اعتزاز احسن کی مخالفت کا سبب پوچھا تو، حاصل بزنجو نے ہنستے ہوئے جواب دیا، اعتزاز پاناما کیس میں نواز شریف کے خلاف بیانات زیادہ دیتے تھے اس لیے نواز لیگ نے ان کی مخالفت کی۔ اعتزاز، حاصل اور ان کے بڑے بھائی بزن بزنجو کے قریبی دوست رہے ہیں۔

گزشتہ سال ملکی سیاست میں حاصل بزنجو کا سال تھا۔ مشترکہ حزب اختلاف نے جب موجودہ سینیٹ چیئرمین صادق سنجرانی کے خلاف عدم اعتماد لانے کا فیصلہ کیا اور سینیٹ میں اپنی اکثریت ظاہر کی تو حزب اختلاف کی جماعتوں کا سینیٹ چیئرمین کے لیے حاصل بزنجو مشترکہ امیدوار تھا۔ جب چیئرمین سینیٹ کے لیے خفیہ ووٹنگ ہوئی تو حاصل بزنجو وہ الیکشن تقریباً 14 ووٹوں سے ہار گئے۔ حاصل کی وہ شکست دراصل ملک کے ایوان بالا میں ہارس ٹریڈنگ کا ایک جدید نمونہ تھا۔

بزنجو نے اپنی اس شکست کا الزام جنرل فیض پر لگایا تھا۔ ایسی بات کرنے پر حاصل بزنجو کے خلاف گجرانوالا میں ایک پرچا بھی کٹوایا گیا۔ ان دنوں حاصل بزنجو بڑے دباؤ میں تھے۔ جب ان کو پرچے کا پتا چلا تو انہوں نے اعتزاز احسن کو مفت میں وکالت کرنے کے لیے تیار رہنے کی گزارش کی۔ اس سب کچھ کے باوجود حاصل بزنجو نے کہا میں کینسر کا مریض ہوں اگر حکمران مجھے جیل بھیجنا چاہتے ہیں تو ضرور بھیجیں، میں تیار ہوں اس ملک کے جیل میرے لیے نئے نہیں ہیں۔

سینیٹ الیکشن سے ایک دن پہلے اور ایک دن بعد اسلام آباد میں بزنجو صاحب سے فقیر کی ملاقات ہوئی تھی۔ پہلے دن وہ بڑے پرامید اور پرجوش نظر آ رہے تھے مگر الیکشن کے بعد دوسرے دن ان کے چہرے پر گہری خاموشی عیاں تھی۔ سینیٹ الیکشن کے دوسرے دن زیبسٹ اسلام آباد کے آڈیٹوریم میں مختاراں مائی اور ان کے کیس کے وکیل اعتزاز احسن کو خراج پیش کرنے کے لیے مہر گڑھ، اسلام آباد کی ڈاکٹر فوزیہ سعید، ملیحہ حسین، ڈاکٹر کامران اور ان کے ساتھیوں کی جانب سے ایک پر وقار تقریب کا اہتمام کیا گیا تھا۔

اس تقریب میں الیکشن جیتنے کی صورت میں حاصل بزنجو کو سینیٹ چیئرمین کی حیثیت سے شریک ہونا تھا، وہ تقریب میں شریک ضرور ہوئے مگر سینیٹ الیکشن ہرائے جانے کی صورت میں۔ مذکورہ تقریب میں فرحت اللہ بابر، اعتزاز احسن اور مجاہد بریلوی حاصل بزنجو کو اپنے سینیٹ چیئرمین کہہ کر مخاطب ہو رہے تھے اور بزنجو کی ہنسی رکنے کا نام نہیں لے رہی تھی۔ جنرل فیض کا نام لینے کے بعد حاصل بزنجو پہلی بار کسی عوامی تقریب میں شریک ہوئے تھے۔ میڈیا والے حاصل بزنجو سے مزید خبریں نکلوانے کے لیے ان کو ڈھونڈتے پھر رہے تھے مگر اس تقریب میں حاصل نے میڈیا والوں کو خالی ہاتھوں لوٹا دیا۔ کوئی ایسی بات نہیں کی جو خبر بن سکے۔ وہ تقریب میں اعتزاز احسن سے اپنے اور بڑے بھائی بزن بزنجو کے یارانے یاد کرنے لگا۔ حاصل بزنجو نے کہا یہاں سب کہہ رہے ہیں اعتزاز بڑا اصول پسند اور ایماندار ہے مگر میرے بڑے بھائی کو تو برسوں سے ان کی ایک تصویر نہیں دے رہا، کہاں ہے ایماندار؟ اس طرح حسب روایت وہ محفل لوٹنے میں کامیاب ہوا مگر مستی والے موڈ میں۔

آزادی، جمہوریت، امن، اور آئین کے تحفظ کے لیے سیاسی جنگ لڑنے والے میر حاصل بزنجو نال میں اپنے والد کے برابر میں والد کی لائبریری اور دوستوں کے ساتھ سیاسی محفلیں جمانے والی جگہ دفن کیے گئے ہیں۔ ان کی باتوں، جدوجہد اور کردار کو زمانوں تک یاد رکھا جائے گا۔

About The Author