ہم تاریخ کو اجاگر کرنے کے خاطر لکھتے ہیں اگر کسی بھی مکتبہ فکر یا اس میں لکھے گءے الفاظوں کے چناؤسے کسی کی دل آزارہ ہو تو ہم اس کیلءے معذرت خوان ہیں ہمارا مطلب کسی بھی درہم، فرقے ، قوم کے خلاف لکہنا نہیں بلکہ اصل حقاءق کو سچاءی کے ساتھ دنیا کے سامنے لانا ہے،تاریخ میں ایسے بھی واقعات ہوئے ہیں جن کو ہمارے تاریخدانوں نے چھپانے کی کوشش کی گءی ہے، سچ کو جھوٹ اور جھوٹ کو سچ لکھنے کی کوشش کی گءی ہے، اور ایک جھوٹ کو چھپانے کیلئے انہوں نے دس اور جھوٹ لکھنےپڑگئے تھے،، جیسا کے عنایت شاہ لنگا ہ کے مطعلق لکھا گیا ہے، اور اس ایک جھوٹ کو چھپانے کے خاطر دس اور جھوٹ لکھنا پر گیا تھا،آدم شاہ،کلہوڑا دور حکومت، لنگاہ دور حکومت، قاضی قادن ، دولھ دریا خان ،اور عنایت شاہ لنگاہ کے تحریک کو زبردستی ہاری تحریک بنانا اور عباسی خاندان کو ظالم جابر پیش کرنا اہم ہے، اور اگر سندھ کی تاریخ کا جاءزہ لیا جاءے تو بہت سے لوگوں کے تاریخ کے ساتھ خد سندھ کی تاریخ کو بھی مسخ کیا گیا ہے،سندھ کے تاریخ کو باہر کا کسی پٹھان ، پنجابی، یا اسٹیبلشمینٹ نے نہیں بلکہ سندھ کے سچے سپوتوں نے اپنی ہی تاریخ کا بیڑا غرق کیا تھا، آج بھی سندھ ادبی بورڈ ان ہی خاندانوں کے چنگل میں قید ہے، جہاں جھوٹ اور منافقتی کے علاوہ کچھ بھی نہیں،،، جن کے خد کے نہ قوم، قبیلے اور دین درہم کا پتہ ہے ، وہ لوگ اب لوگوں کی تاریخ لکھیں گے جن کے خد کا نسل کا پتہ ہی نہیں،عباسی خاندان کی 600 سالہتاریخ کو ایسے ختم کیا گیا جیسے یہاں پر حکومت نہیں تھا،،،،،
شاہ عنایت لنگاہ کے مہدوی ہونے کا اعلان کیا تھا اور وہ مہدوییت کا پرچار کر رہا تھا جس کو ہمارے دانشوروں نے کو ہاری تحریک بنا پیش کیا، خود ہی لکھتے ہیں کے صدو لنگاہ ان کے بڑے تھے، شاید صدو لنگاہ سے پہلے ہندو تھے، مانجھی صاحب نے ان کا شجرہ حضرت امام حسین ؑ کے ساتھ ملا دیا ہے، ملتان پر کبھی لنگا حکومت تھی ہی نہیں وہ تو عباسی خاندان کی حکومت رہی ہے 1400 سے لیکر 1520 بابر کے آنے تک عباسی خاندان کا کہٰن بھی ذکر نہیں جن کو کبھی لنگاہ تو کبھی ارغون تو کبھی ترخان، تو کبھی بیگڑو تو کبھی کیا، ، شاہ عنایت لنگاہ نے گجرات کے ایک ہندو راجہ کی بیٹی سے شادی کی تھی ،سندھ میں شاہ عنایت شہید نے مہدویت کا اعلان کیا تھا تو اسی دور بلوچستان میں ملک مراد گچکی نے بھی مہدویت کا اعلان کیا ہوگا، کیونکہ دونوں کے تعلیمات میں یکسانیت پاءی جاتی ہے ، تاریخ میں میران محمد جونپوری کو مہدویت کے بانی کہا جاتا ہے، میرے مطابق یہ غلط ہے کوءی میران محمد جونپوری نہیں تھا،میر میران میر خان عموما میر غیاث الدین کو کہا جاتا ہے وہی میر میران میر خان غیاث الدین محمد عباسی جس کو آدم شاہ کا نام دے کر تاریخ کو ہمیشہ کیلءے بند کیا گیا اور ان پر بھی مہدویت کا ٹپہ لگا گیا تھا، ، اصل کہانی بلوچستان کے زگرہ فرقوں کے کتابوں سے عیاں ہوتی ہے،
اس کا جواب علی احمد بروہی نے اپنی کتاب میں مقبروں کے پتھروں پر تاریخ سندھ بلوچستان کے زکریوں کے متعلق لکھتا ہے ، اگر بلوچستان کے زگریون کی بات کرے تو ان کا کہنا ہے کے ان کا داعی مبلغ مکران اور کیچ میں بلوچستان میں محمد اتاکی یا محمد اٹکی کے نام سے جانا جاتا ہے، اٹک کے پاس ہی بایزید پیر روحان المعروف پیر روشن جس نے روشناءی تحریک کی بنیاد رکھی تھی جس نے بنی ہونے کا دعوی کیا تھا۔1572 میں ان کا انتقال ہوا تھا،جب کے اس وقت عنایت شاہ کی عمر ۱۸ سال کے ہونگے۔روشناءی جو اسلام کے تعلیمات سے منعرف ہین قرآن اور نماز کو نہیں مانتے ہیں صرف ذکر پر انحصار کرتے ہیں،ان کا کلمہ بھی الگ ہے بلوچ قباءل کے صفحہ 418 میں لکھتا ہے کہ بلوچستان میں زگری عقاءد کو فروغ دینے میں عبداللہ نیاز ی کا بڑا عمل دخل ہے،اور جب کے میاں عبداللہ کو مہدویت کا پیروکار دکھایا جاتا ہے اور علی احمد بروہی صاحب نے کل کر اس بات کی وضاحت کی کے زگری اصل میں روشناءی تحریک کے بانی پیر روشن سے متاثر تھےتو اس کا مطلب عبداللہ نیازی رووشناءی تحریک کے داعی تھے جس نے سندھ اور بلوچستان میں زگری فرقے کو فروغ دینے میں اہم ادا کردار ادا کیا تھا، ایک بات پھر تو واضع ہوجاتی ہے کے مہدویت ایک افسانہ ہیں ان کے کردار اور ان کا دور ، اور عبداللہ نیازی کا موت 1591 میں انتقال کرتا ہے، تو کیا شاہ عنایت لنگاہ کا پیر روحان یا عبداللہ نیازی سے متاثر ہو کر روشناءی تحریک کی پرچار کی تھی یا پھر انہوں نے مہدی ہونے کا اعلا کیا تھا، عنایت شاہ لنگاہ کی پہلی منزل جہاں پر انہوں نے اپنی جماعت کو متعد کیاتھا تو وہ شکارپو کے قریب مہدیجا تھا جس کو آج کل مدءجی کہا جاتا ہے،تو بات واضح ہوجاتی ہے کے عنایت شاہ لنگاہ نےروشنائی تحریک سے متاثر ہوکر مہدویت کا اعلان کیا تھا، اور ان کے متعقد لوگوں کے ملکیتوں پر قبضہ کرنا ، لوٹ مار عام سمجی جاتی تھی، اور عباسی خاندان کے دارالخلافہ کے اردگرد گریلا حملے بھی کیا جانے لگے تھے ، مہدویت کے لوگ لوگوں پر زبردستی کرنے لگے تھے اور حکموت کے معاملات میں دخل دینا شروع کیا تھا اور سندھ کے دارالخلافہ شکارپور پر قبضہ کرنے کے ارادے سے بہت سے کوششیں کی تھی جو بیکار رہیں، اور حکمران بھی غافل نہ تھے تو ان کے خلاف دہلی سے حکم نامہ آیا جس سے وقت حکومت متحرک ہوکر ان کے خلاف مجبورا اقدامات اٹھانے پڑے تھے، کیونکہ تحریک روز بروز زور پکڑتی جا رہی تھی اور مہدویت میں داخل لوگ حکومت کے خلاف اپنی حکومت چلانا شروع ہوچکی تھی،یہ تحریک کوءی ھاری تحریک نہیں تھا بلکہ عنایت شاہ لنگاہ نے مہدوی ہونے کا اعلان کیا تھا اور وہ بھی شکارپور میں لکی کے پاس مہدی ہونے کا اعلان کیا تھا جب مہدی کا اعلان کیا تھا تو لوگ ان کے پاس آنے لگے تھے جن میں مسلمان ہندو دونوں بیعت کرتے تھے ، شاہ عنایت لنگاہ بنیادی طور پر شکارپور کے تھے نہ کے ملتان سبی،
وہ سندھ کے رہنے والے تھے اور شکارپور جو اس قوت دارالخلافہ تھا سندھ کا ، دارالخلافہ میں ہر وقت حکومت کے خلاف مذہبی اور قومیت کے مناسبت سےتحریکیں چلتی رہتی تھی ، اس وقت شاہ عنایت لنگا ہ نے ایک تحریک کی شروعات کی تھی جو مذبہی بنیادوں پر تھا، عنایت شاہ لنگا نے مہدوی ہونے کا اعلان کیا تھا اور وہ بھی اس وقت کے عباسی خاندان کے حکومت کے دور میں جن کا تعلق سرور کونین حضرت محمد ﷺ کے چچا حضرت عباس ؓ کے خاندان سے تھیں محمد یار خان عباسی ( یار محمد عباسی)جو ایک عالم دین بھی تھا تو ان کے خلاف حکومتی سطح پر اس تحریک کو کچلنے پر دہلی حکومت کو بروقت اطلاع دی ، اور جب حکومت وقت نے ان کے خلاف اقدامات اٹھانے پر مجبور ہوگءے تو مہدویت تحریک کے لوگ جنگی حکمت عملی کا مظاہرا کرتے ہوءے اپنا جگھ تیدیل کیا وہ شکارپور سے لاڑکانہ اور دادو کے پہاڑوں کے چلے گئے تھے،
جہاں یہ لوگ حکومت کے عملداروں پر وقت فوقتا گوریلاحملے کیا کرتے تھے اور جب دہلی اور سندھ کے عباسی خاندان اور سندھ کے کچھ لوگ جن میں حمل جت ، نور محمد پلیجو، عبدالواسع، اور بہت سے حکمتی عملدار مل کر اس فتنے کا ختم کرنے کا سوچا تو مہدوی تحریک کے لوگوں نے اپنی جگھ تبدل کرتے ہوءے دریا سندھ پار کر کے موجود میران پور پہنچ گءے جو ان کا آخری محرکہ اور جگھ تھا، جہاں پر عموما 24000 کےتقریبا مہدویت کے لوگ اپنی جانوں سے ہاتھ دوہنے پڑے تھےاور حکومتی عملداروں کا بھی بہت سے نقصان ہوا تھا، جن لوگوں نے اس فتنے کو ختم کیا اور اسلام کی خدمت کی آج ان کے خلاف نازیبا کلمات استعمال کیا جاتے ہیں ان کے تاریخ کو ختم کیا گیا اور جو مہدی ہونے کا اعلان کیا وہ ٓج شاہ شہید بنا ہوا ہے، اگر دیکا جاءےشاہ عنایت کے اولادوں کا تو بڑے بیٹے خلیل اللہ لنگاہ ایران میں فوت ہوا جو مجرد تھا، دوسرے بیٹے عزت اللہ لنگاہ گند پیر المعروف جھوک دھنی تھے جن کا ایک بیٹا اور بیٹی جو بچپن میں انتقال کر گئے تھے، تیسرا سلام اللہ نگاہ جن کو تر دھنی کہا جاتا ہے، جس کے متعلق مشہور ہے کےاس بادشاہ کے ہڈیاں جھوک میں اور آواز تجل میں، مطلب مزار تجل میں، ان کا کوءی اولاد نہیں ، اور بھٹ بھی اسی کے مزار کا نام تھا جو تجل میں ہیں جس کو شاہ عبداللطیف بھٹائی کے نا سے جوڑا گیا، سلام اللہ تر دھنی کے بیٹی کی نکاح زاہد کلاں کے ساتھ نکاح ہوا تھا جو لنگاہ خاندان کے افراد تھے، حاصل مطلب کے شاہ عنایت لنگاہ کا خاندان ختم ہوا اور اس کی بیٹی سے ان کا خاندان شروع ہوا آج جو خاندان ہے وہ اسی کی بیٹی کے نسل سے ہے، اگر دیکھا جاءے تو جو القاب لنگاہ خاندان کے افرادوں نے استعمال کءے ہیں وہ آج کل پیر پگارا خاندان کے لوگ استعما ل کر رہے ہیں، لنگا ہ خاندان کے افرادوں کے القاب جھوک دھنی،تر دھنی، بنگلہ دھنی،نورانی ، ھادی سائیں، ستاری جو خاندان لنگاہ سے شروع ہوا وہ رند تک چلا آرہا ہے، اورا گر بات کی جائے پاگارا خاندان کی تو سندھ میں ان کی ایک بڑی جمیعت ہے جس کو حر کہا جاتا ہے جس نے انگریزوں کی خلاف آزادی کی جنگ لڑی تھی انگریزوں نے پیر صبغت اللہ پگارا کو شہید کیا تھا جن کا قبر آج تک کسی کو نہیں معلوم،،،،،اگر اس خاندان کی القاب کی بات کی جائے تو وہ لنگا خاندان کے القاب استعمال کرتے ہیں اس میں کیا راز پوشیدہ ہے وہ خد سندھ کے جھوٹے دانشور ہی بتا سکتے ہیں، جیسے تخت دھنی، معافی دھنی،روزی دھنی، انصاف دھنی۔ چٹ دھنی، پگ دھنی۔کوٹ دھنی،تجر دھنی،
شاہ عنایت لنگاہ نے مہدویت کا اعلان کیا تھا اور بلوچستان کے مہدویت سے ان کے سارے رسومات ملتے ہیں، کوءی ھاری تحریک نہیں تھا، میران محمد جونپوری ایک افسانہ کے سواءے کچھ بھی نہیں ، ان منافق لوگوں کا کام تھا عباسی خاندان کے لوگوں پر بہتان بازی کے علاوہ کچھ بھی نہیں تھا، عنایت شاہ لنگاہ نے مہدی ہونے کا اعلان کرتے ہیں تو بجائے خد کو مسلمان کہلواءیں اور حضور کریم ﷺ کے بارگاہ میں سرخرو ح ہونے کیلیے کوشاں ہو اور ان کے اس دعوے کو رد کر کے اور اس کی اس تحریک کو سامنے اجاگر کریں پر ہم لوگ مہدی ہونے والے کا حامی اور اسلام سے منحرف نظر آتے ہیں جن خاندانوں نے اسلام اور اس کیلءے اپنی جانوں کا نظرانہ پیش کیا وہ قاتل غاضب لٹیرے بن گءے واہ رے مسلمان تیرا انصاف۔ آج بھی وہی امام شاہی ست پنت کا دور چل رہا ہے جہاں صرف اسلام میں داخل ہونا کام ہے باقی اپنے پرانے مذہب کے رسومات ادا کرستے ہیں وہی عنایت شاہ لنگا ہ کی بھی تعلیمات ہیں، سارے رسومات ہندوں کے ہیں، عباسی خاندان کے درگاہوں پر کہون سی خاندان قابض ہیں یہ اندازہ آپ ان درگاہوں پر قابض لوگوں کے دینی رسومات سے اندازہ لگا سکتے ہیں، یہ لوگ نام کے مسلمان ہیں ساری رسومات ہندوں کی ہیں، اورسچ کو سمانے لانے والوں کو پاگل کہا جاتا ہے، پانچ جماعت پاس سندھ کا علام بن جاتا ہے اور عالم دین ان کیلئےجاہل، پیر عبدالواسع کے خاندان کو کبھی بلھڑی والے مطلب باندر والے تو کسی کو بھٹاءی مطلب تجل کے درگاہ والوں کا مرید تو کبھی قاضی قادن اقوام الدین اور میر میران میر خان غیاث الدین کو مہدویت کا حامی تو کبھی شاہ عبداللطیف کو مہدویت کے حامی دکھاتے ہیں، اگر شاہ جو رسالو ہو یا سچل کے کلام سب سندھ ادبی بورڈ کا کمال ہی نظر آتا ہے، کتاب لکھنا ہو تو سندھ ادبی بورڈ کے منافق جھوٹھ دانشور جو نا کے پینل پر ہیں اس سے بڑا اور جھوٹا ہو نہیں سکتا ،، سب کتابیں خد لکھوءی ہیں اور نام دوسروں کا، ایک کتاب میں ایک نسل دکھایا جاتا ہے تو اس میں وہ خاندان تم ہوجاتا ہے تو دوسرے میں اسی خاندان کے لوگوں کے کسی اور نام سے جانا جاتا ہے، خد ہی لکھتے ہیں تاریخ معصومی میں کے ہمارے پاس کوءی دستاویزی ثبوت نہیں ہے ہم نے سنی سناءی باتوں پر تاریخ لکھی ہیں جو بعد میں موصوف خد ہی لکھ دیتا ہے، مطلب خد سے پوچھ رہا ہوتا ہے کہ کیا میں لکھوں تو کد ہی جواب دیتا ہے کے لکھو، ان سے بڑے پاگل کہوں ہو سکتے ہہیں، خدارا سندھ اور سندھ کے سچے سپوتوں کے خاطر سندھ کی تاریخ کو مذہب، فرقہ قومیت سے بالاتر ہو کر سندھ کی تاریخ لکھیں، ہم نے لکھنا شروع کیا تو لوگوں نے ہمارے آرٹیکل ہی بند کروا دیے ،،جو سمجھ سے بالاتر ہے ، کیا یہ لوگ ایک بچے سے ڈر گئے ،،، یا پر اپنی منافقتی سے،،،
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر