نومبر 15, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

ناقابل اشاعت: عمران خان، خدشے، اندیشے اور حقیقت۔۔۔ عمار مسعود

ایک دلیل یہ بھی دی جا رہی ہے کہ مقتدر حلقے پارلیمنٹ میں سے ہی کوئی تبدیلی چاہتے ہیں مگر اس پر عمران خان راضی نہیں ہیں۔

گزشتہ چند ہفتوں سے اسلام آباد کے صحافتی اور سیاسی حلقوں میں ایک عجیب بحث زور پکڑ چکی ہے۔ جس کے مطابق پاکستان کے طاقتور حلقوں کا جی اب عمران خان سے بھر چکا ہے۔ وہ اس معاشی بدحالی سے نالاں ہو چکے ہیں اور اس حکومت سے نجات چاہتے ہیں مگر طاقتور لوگوں کو اندیشہ ہے کہ اگر عمران خان کی حکومت کو رخصت کیا گیا تو خان صاحب سخت ردعمل دکھائیں گے اور پشتون بیلٹ کے لوگوں سے مل کر مزاحمت کی آواز اٹھائیں گے۔ یہی اندیشے خان صاحب کی حکومت کی اب تک بقا کا سبب ہیں۔

اس بحث کی گونج اخباری کالموں سے لے کر اسلام آباد کے ڈرائنگ روموں میں ”ہوانا“ کے سگار سلگاتی شخصیات سے ہوتی ہوئی حکومت کے رات گئے ”محفل“ سجانے والے وزرا کے حجروں تک پہنچی۔ سب کے ذہنوں میں خان صاحب کے ردعمل کا اندیشہ ایک بہت بڑی دلیل بن چکا ہے۔ میں بہت احترام سے اپنے تمام فاضل دوستوں سے نہ صرف اختلاف کروں گا بلکہ اس مفروضے کو گمراہ کن اور مجذوب کی بڑ قرار دوں گا۔ میرے اس استدلال کے بنیادی نقاط یہ ہیں۔

کسی بھی سیاسی جماعت کا سب سے بڑا اثاثہ اس کے کارکن ہوتے ہیں۔ خان صاحب نے گزشتہ دو سال میں وہ سب کچھ کیا جو ان کے کارکنوں کی سوچ سے متصادم تھا اب دل برداشتہ کارکنوں پر نہ کرپشن کا نعرہ کارگر ہے نہ مذہبی کارڈ ان پر اثر دکھا رہا ہے۔ نہ سمندر پار پاکستانی اب حق میں رہے ہیں نہ ملک کے طول عرض میں تبدیلی کا نعرہ گونج رہا ہے۔ تحریک انصاف کے کارکنان پر شدید مایوسی کی گرد چھائی ہوئی ہے۔ پی ٹی آئی کے یہ مخلص کارکنان ایک دفعہ تو دھوکہ کھا سکتے ہیں مگر دوسری دفعہ ”نئے پاکستان“ کا فریب ان کو نہیں دیا جا سکتا۔ یاد رکھیں جب مزاحمت کی گاڑی اقتدار میں آ کر سمجھوتہ ایکسپریس بن جائے تو ہاتھ میں تاسف کے سوا کچھ نہیں رہ جاتا۔ کارکن نہ ہوں تو قیادت مذاق بن جاتی ہے۔ تہمت کہلاتی ہے۔ تمسخر اڑواتی ہے۔

خان صاحب اپنے تمام تر مخلص ساتھیوں اور پی ٹی آئی کی اصل قیادت کو اپنے آپ سے دور کر چکے ہیں۔ ان کے پاس اب ہوس اقتدار کے سوا اب کوئی نعرہ نہیں بچا۔ خان صاحب سے کسی بھی قسم کی مزاحمت کی توقع اس لیے عبث ہے کہ اب نہ ان کے پاس پی ٹی ائی کے کارکنان بچے ہیں نہ پارٹی قیادت میں کوئی بڑا نام ان کے ساتھ ہے۔ تنہا لوگ اکیلے بیٹھ کر اپنی غلطیوں پر ماتم تو کر سکتے ہیں مزاحمت کی تحریک نہیں چلا سکتے۔ ثبوت کے طور پر خان صاحب اس وقت ملک کے کسی بھی صوبے میں اپنے زور بازو پر کوئی جلسہ تو کر کر دیکھ لیں، ایک جلسے میں حکومت کی ساری کارکردگی، سب دھونس دھاندلی، سارا کروفر، واضح ہو جائے گا۔

یہ مفروضہ کہ کہیں اقتدار سے رخصت کے بعد خان صاحب پشتون بیلٹ کے لوگوں کو ساتھ ملا کر کوئی بڑی مصیبت نہ کھڑی کر دیں اس لئے غلط ہے کہ پٹھان دوستی اور دشمنی میں بہت کھرے لوگ ہوتے ہیں۔ وہ اپنے ساتھ احسان کرنے والوں کو ہمیشہ یاد رکھتے ہیں اور اپنے ساتھ دھوکہ کرنے والے کو بھی کبھی نہیں بھولتے۔ اس بات کی گواہ کے پی کے کی تاریخ بھی ہے۔ جو کچھ عمران خان نے ہمارے پشتون بھائیوں کی مزاحمت کے ساتھ کیا ہے، جو دھوکہ ان کو دیا ہے اس کے بعد کے پی کے وزرا اپنے حلقوں میں داخل نہیں ہو سکتے تو یہ توقع کرنا کہ وہ لوگ اب ایک دفعہ پھر عمران خان کے جھانسے میں آ کر کسی مزاحمت کی تحریک کی سربراہی ان کو سونپ دیں گے سوائے حماقت کے کچھ نہیں ہے۔

ایک دلیل یہ بھی دی جا رہی ہے کہ مقتدر حلقے پارلیمنٹ میں سے ہی کوئی تبدیلی چاہتے ہیں مگر اس پر عمران خان راضی نہیں ہیں۔ یہ دلیل اس لئے بودی ہے کہ ہمارے سامنے اس ملک کی ساری تاریخ ہے کیا آج تک کسی بھی برسراقتدار حکمران کی منشا سے اپنے ہاں کبھی کوئی تبدیلی آئی ہے؟ کتنی آئینی جمہوری اور منتخب حکومتیں بس یونہی چلتا کر دی گئیں۔ کتنے منتخب وزرا اعظم بس الزامات کی بنا پر برخواست کر دیے گئے۔ کسی کے ردعمل کے بارے میں کبھی نہیں سوچا گیا۔ خان صاحب کو تو مبینہ طور پر سلیکٹ کیا گیا ہے یہاں الیکٹڈ لوگوں کا کبھی زور نہیں چلا تو کیا ایک سیلیکٹڈ کے خدشات کو اتنی توجہ دی جائے گی؟ اتنا غور و فکر کیا جائے گا؟

یہ بھی کہا گیا کہ اس وقت ملک معاشی بحران سے گزر رہا ہے اور خزانہ خالی ہے اس لئے ملک نئے انتخابات کا بوجھ نہیں اٹھا سکتا۔ یہ بات اس لئے غلط ہے کہ تاریخ گواہ ہے دنیا کے چند ایک جمہوریت پسند ممالک میں عین حالت جنگ میں بھی انتخابات ہوئے ہیں۔ یہ اس لئے ہوا کہ جمہوریت میں اگر عوام اپنی قیادت سے خوش نہیں ہیں تو انہیں ہر حال میں اپنی پسند کی قیادت کو منتخب کرنے کا حق ہے۔ اخراجات کی مد میں سب سے اہم خرچہ انتخابات کا ہے۔ کیونکہ یہ ملک کے عوام کو ان کی پسند کی قیادت لوٹاتا ہے۔ خالی خزانے کی دلیلیں دینے والے اس بات کو سمجھیں کہ جمہوریت میں، موجودہ حالات میں، انتخابات کا پرچہ اختیاری نہیں لازمی ہے۔

میرے ناقص خیال میں یہ خدشہ بالکل بے معنی ہے کہ خان صاحب کا اقتدار ختم ہونے کے بعد ان کا ردعمل کیا ہو گا؟ بلکہ بسا اوقات ان لایعنی بحثوں سے یوں لگتا ہے کہ یہ اندیشہ نما مفروضہ طاقتور حلقوں کے ذہنوں میں تخلیق کیا جا رہا ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ طاقتور حلقوں کو اس وقت چار بنیادی خدشات ہیں۔ ان کو خوف ہے مریم نواز کے جلسوں سے۔ ان کو خوف ہے مولانا فضل الرحمن کے آخری اور حتمی دھرنے سے۔ ان کو خوف ہے نواز شریف کی واپسی سے اور ان کو خوف ہے بدحال عوام کے غیض و غصب سے۔

آج کل ماحول ایسا ہے کہ مکمل بات نہیں کی جا سکتی۔ لکھنے والے ادھوری باتوں اور علامتوں کا سہارا لے کر مدعا بیان کر رہے ہیں۔ طاقتور لوگوں سے ایک ادھوری گزارش پر بات ختم کرتا ہوں۔ پاکستانی قوم عجیب قوم ہے۔ آپ بڑی سے بڑی غلطی کر کے اگر اپنی غلطی پر معافی مانگ لیں، اپنے کیے پر ندامت کا اظہار کر لیں تو یہ قوم بڑی فراخدلی سے آپ کو معاف کر دیتی ہے۔ لیکن اگر آپ اپنی غلطی پر مصر رہیں اور اس کو دوہرانے کی کوشش کریں تو یہی قوم تاریخ میں آپ کو بدترین ناموں سے پکارتی ہے۔ بس طاقتور حلقوں سے یہی عرض کرنا تھا۔ باقی رہے نام اللہ کا ۔

About The Author