مئی 12, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

ڈیرہ کی قدیم ثقافت ۔۔۔گلزار احمد

ڈیرہ پھلاں دا سہرا اس لیے کہلاتا ہے کہ اس شھر کے اندر اور اردگرد رنگارنگ پھولوں کے باغات تھے جن کی مہک دل کو لبھاتی رہتی ۔

ڈیرہ کی رنگین چنگیریں اور پچھیاں ۔۔۔
ماضی میں ڈیرہ اسماعیل خان دستکاروں کا مرکز رہا ہے اور یہاں کی بنی ہوئی چیزیں پوری دنیا میں مشھور ہیں۔ ڈیرہ میں کھجور کے باغات بھی ہیں اس لیے کجھور کے پتوں سے خوبصورت چنگیریں اور پچھیاں یعنی ہاٹ پاٹ نہایت عمدگی سے بنائی جاتی ہیں ۔ یہ چنگیریں اور پچھیاں ماضی میں تجارتی قافلوں کے ذریعے ڈیرہ اسماعیل خان سے افغانستان۔ایران اور انڈیا کے مختلف شھروں میں پہنچائی جاتیں اور اچھی قیمت پر فروخت ہوتی تھیں۔
صنعتی ترقی نے دستکاروں کی مصنوعات کو بہت نقصان پہنچایا اور حکومت کی بے توجہی کی وجہ سے گھریو دستکاری کی صنعت زوال کا شکار ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت اس کی طرف توجہ دے تاکہ دستکاروں کا یہ ہنر برقرار رہے اور ہم اپنے ماضی کے ورثے سے محروم نہ ہو جائیں۔

شیر دریا اور مٹکے ۔۔
ڈیرہ اسماعیل خان اور دریا خان کے درمیان دریائے سندھ کا پاٹ چودہ میل چوڑا اور اس میں درجنوں چھوٹے دیہات آباد ہیں اور یہ کچے کا علاقہ کہلاتا ہے۔ ماضی میں جب دریا میں سیلاب آتا یہ لوگ بمع مال مویشی کنارے پر آ جاتے اور سردیوں میں دریا سکڑ جاتا تو فصلیں اور مویشیوں کا چارہ کاشت کرتے اور مزے سے رہتے کیونکہ مال مویشی کھلی فزا اور خود رو گھاس میں خوب پرورش پاتے ہیں۔ ایک دفعہ ہمارے دوست امان اللہ خان علی زئی اپنے عزیزوں کو ملنے کچے گیے تو دیکھا گھر میں مٹی کے بڑے بڑے مٹکے بڑی تعداد میں رکھے ہیں۔ جب وجہ پوچھی تو انہوں نے بتایا کہ ہم کپڑے لتے۔قیمتی سامان ان مٹکوں میں رکھ کر ان کا منہ بند کے کسی بڑے درخت وغیرہ سے باندھ رکھتے ہیں جب اچانک شیر دریا بپھر جائے تو ہم تیر کر جان بچا کے مویشیوں سمیت کناروں پر چلے جاتے ہیں اور اپنا قیمتی سامان کپڑے برتن وغیرہ نہیں لے جا سکتے۔تو یہ مٹکے تیرت رہتے ہیں اور ہمارا سامان محفوظ رہتا ہے اور واپسی پر ہمیں مل جاتا ہے۔ صحیح کہا کسی نے ضرورت ایجاد کی ماں ہے۔

ڈیرہ پھلاں دا سہرا اس لیے کہلاتا ہے کہ اس شھر کے اندر اور اردگرد رنگارنگ پھولوں کے باغات تھے جن کی مہک دل کو لبھاتی رہتی ۔ مگر ہماری نئی نسل نے ڈیرہ کو سیمنٹ کا تپتا ہوا میدان دیکھا جہاں چنگچیوں کا بے ہنگم شور اور دھواں پھیلا ہوا ہے۔ نالیاں گند سے اٹی ہوئی ہیں اور گلی گلی تعفن پھیلا ہے۔ ڈیرہ شھر کے اردگرد صاف وشفاف پانی کی نہر تھی جس کے ٹھنڈے پانی میں لوگ نہاتے اور گرمی سے نجات پاتے۔ دریا جو آلودہ کر دیا گیا کا پانی نہایت صاف اور پاکیزہ تھا جس کو لوگ بُک بھر کے پیتے تھے اور دھاونی مناتے۔ ماضی کے سب سے عالیشان باغ تجارت گنج جہاں چمن, پھل دار درخت, شفاف پانی کی نہر, تین منزلہ شاندار اور خوبصورت فوارہ تھا۔ اس باغ میں ڈیرے وال ٹولیوں کے شکل میں چہل قدمی کرتے تھے۔ بے ہنگم ترقی کی دوڑ میں باغ ختم, چمن ختم, پھل دار درخت ختم, شفاف پانی کی نہر گندگی سے اٹے ہوئے نالے میں تبدیل اور آنکھوں کو ٹھنڈک پہنچانے والے فوارے کی آخری ہچکیاں لیتی ہوئی باقیات موجود ہے۔ صفائی میونسپل کمیٹی سے واسا کو دی گئی کہ حالات بہتر ہونگے مگر وہ بدتر ہو گیے۔ تجارت گنج باغ کی کون پروا کرے گا ۔حکام بالا اس پر مارکیٹیں۔پلازے بنانے کی سوچ رہے ہونگے کہ ٹیکسوں کی آمدنی کو جہنم کی طرح وسیع کیا جائے کیونکہ حکومت کی جانب سے IMF کی ہدایات کی روشنی میں حل من مزید کی صدا بلند ہوتی رہتی ہے عوام کو سھولیات کوہ سلیمان سے اتر کر جن بھوت فراہم کرینگے۔

%d bloggers like this: