نومبر 15, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

بوڑھے والدین اور پاکستان ۔۔۔گلزار احمد

ایک سرائیکی بھائی نے پہلا روزہ رکھا اور شام کو بتایا ۔۔گئیے نمانڑے روزڑے باقی رہ گئیے نو تے وی یعنی صرف 29 روزے بقایا ہیں

1947ء میں پاکستان بنا تو انگریزوں کے زمانے میں جن علاقوں میں تعلیمی ترقی ہو ئی تھی وہ ہندوستان کے حصے میں چلے گیے۔ ہماری طرف 85% آبادی ان پڑھ تھی۔بلوچستان کا حال سب سے برا تھا جہاں مردوں کی تعلیم کا تناسب دوسرے صوبوں سے کم تھا اور دیہات کی خواتین میں تو تعلیم بالکل نہ ہونے کے برابر تھی۔تعلیم کے بغیر ترقی ممکن نہ تھی تو فوری طور پر 1947ء میں قومی تعلیمی کانفرنس منعقد کی گئی۔اس کانفرنس میں قائداعظم محمد علی جناح کا ایک پیغام بھی سنایا گیا جس کا خلاصہ یہ تھا کہ جدید دنیا تعلیمی میدان میں تیزی سے آگے بڑھ رہی ہے اور ہمیں بھی تعلیم کے میدان میں نئی نسل کو تیار کرنا پڑے گا تاکہ وہ جدید دنیا کے ساتھ چل سکے۔

اس کانفرنس میں کمیٹیاں بنائی گئیں جو پرایمری۔سیکنڈری اور تعلیم بالغاں سے متعلق تھیں۔اس وقت کی کمیٹی نے ایک دلچسپ بات کہی کہ جس رفتار سے ہم اب تعلیم کے میدان میں آگے بڑھ رہے ہیں اس رفتار سے قوم کو تعلیم یافتہ بنانے میں 140 سال لگیں گے۔میں سوچتا ہوں اس وقت کے لوگ کتنے سچے اور کھرے تھے۔

73 سال گزارنے کے بعد بھی جب دنیا چاند پر پہنچ گئی ہم 140 سال والا ٹارگٹ حاصل کرنے پر مکمل فرمانبرداری سے عمل پیرا ہیں۔ اب 100% تعلیمی ٹارگٹ حا صل کرنے کے لیے رہ کتنا وقت گیا ھے بس صرف 67 سال بقایا ہیں اور ہم منزل پر پہنچے کے پہنچے۔۔

ایک سرائیکی بھائی نے پہلا روزہ رکھا اور شام کو بتایا ۔۔گئیے نمانڑے روزڑے باقی رہ گئیے نو تے وی یعنی صرف 29 روزے بقایا ہیں ایک تو مکمل ہو چکا۔۔۔ تو یارو ہم سو فیصد تعلیم یافتہ قوم کا ٹارگٹ جلد 2087ء میں مکمل کرنے والے ہیں فکر کی کوئی بات نہیں۔1947ء کی تعلیمی کانفرنس میں اگلے دس سال کے لیے تیز تر تعلیمی مقام حاصل کرنے کے لیے ٹارگٹ مقرر کیے گیے ۔ان احداف میں بچوں کی تعلیم میں بڑھوتری کے ساتھ ساتھ دیہات میں تعلیم بالغاں کے مراکز بناۓ گیے اور کہا گیا ان مراکز سے ہر سال 28 لاکھ افراد پڑھنا لکھنا سیکھ جائیں گے۔ اب آپ اس پروگرام کی کامیابی کی کہانی سنیے۔ جب دس سال گزر گئے حساب لگایا گیا تو پتہ چلا خواندگی کی شرح جو 16.4 % تھی اب کم ہو کے 16.3 % رہ گئی یعنی دس سالوں ۔

میں ہم نے تعلیم کے میدان میں 0.1% کمی کر لی۔ اب اس وقت کے لوگوں نے بھی ہمارے زمانے کی انکوائیری کمیٹیوں کی طرح کوئی رپورٹ پیش کر کے جان چھڑائی ہو گی۔آج تک ہمارے ملک میں کئی انکوائیری کمیشن عدالتی کمیشن بناۓ گیے لیکن اگر کوئی صحیح رپورٹ بن گئی تو اسے قومی مفاد میں شائع نہیں کیا گیا اور اگر من پسند فیصلے کروا لیے۔۔تو گل دی بلاں نل ۔۔۔میں ڈال دی گئی۔اسی پچاس ساٹھ کی دھائی کا ذکر ہے کہ بلدیات کے یونین کونسل کے کارندوں کو محکمہ زراعت سے ملکر زرعی زمین کھود کے مٹی کے نمونے دیکھنے اور ٹسٹ کرنے کا کہا گیا۔یار لوگوں نے کھدائی شروع کی اور دھڑا دھڑا رپورٹیں جانے لگیں۔جب کل ملا کے ان رپورٹوں کی کھدائی کا رقبہ نکالا گیا تو وہ مغربی پاکستان کے رقبے سے بھی زیادہ نکل آیا۔ آجکل جب کرپشن کا گراف بنایا جاتا ہے تو محکمہ تعلیم ٹاپ کے محکموں میں نکل آتا ہے۔ جب قوم کے معمار تبادلوں۔ترقی۔تعنیاتی۔امتحانات۔تنخواہ کے حصول کے لیے سفارش اور رشوت کا شکار ہوں تو ہمارے سامنے پڑھی لکھی نسل کہاں سے آے گی؟ آج ہمارے ارد گرد جواں اولاد بڑھاپے کا سھارا نہیں بن رہی بلکہ ہمارے ہر گھر میں بے ہنر ۔بے روزگار ۔ ڈگری یافتہ اداس نسلیں کھڑی ہیں جن کی شادیاں اور ان کے بال بچوں کے پرورش کے اخراجات بھی الٹا بوڑھے والدین ادا کر رہے ہیں۔

About The Author