دسمبر 19, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

اسرائیل فلسطین تنازعہ، تاریخی پس منظر (حصہ سوئم) ۔۔۔ ملک سراج احمد

اس دوران برطانیہ نے اعلان کیا جس کو اعلان بالفور بھی کہا جاتا ہے جس کے مطابق برطانیہ صہیونی ریاست کے قیام میں ہر ممکن مدد کرے گا۔

پہلی جنگ عظیم میں سلطنت عثمانیہ نے جرمنی کا ساتھ دیا۔ اور جرمنی کی شکست کے ساتھ ہی اس کے اتحادی بھی شکست سے دوچار ہوئے جس میں دیگر ممالک کے ساتھ ساتھ سلطنت عثمانیہ بھی شامل تھی۔ شکست کے نتیجہ میں سلطنت عثمانیہ کی مشرق وسطیٰ کے مفتوحہ علاقوں کو فرانس اور برطانیہ کے حوالے کر دیا گیا۔ بحیرہ روم کے ساحلی علاقوں کو اٹلی کے حوالے کر دیاگیا۔ مشرق وسطیٰ کو برطانیہ اور فرانس نے سرحدوں میں تقسیم کرتے ہوئے ملک تشکیل دیے جن میں لبنان، شام اور عراق شامل ہیں جبکہ چوتھا علاقہ فلسطین کا تھا جس کے متعلق فیصلہ نا ہوسکا۔ حالانکہ اس سے قبل برطانیہ نے وعدہ کیا تھا کہ سلطنت عثمانیہ میں شامل عرب اکثریت کے علاقوں کو وہ آزاد کردے گا تاہم برطانیہ نے فرانس کے ساتھ ایک خفیہ معاہدہ سائیکس پیکاٹ کیا جس کے تحت ان دو ممالک نے عربوں کے علاقوں کو اپنے مشترکہ نظام کے تحت تقسیم کر لیا۔

1920 میں مصطفیٰ کمال کی زیرقیادت ترک انقلابیوں نے ترکی میں اتحادی افواج کے قبضے کو تسلیم کرنے سے انکار کرتے ہوئے عوامی فوج کے ذریعے یونان، اٹلی اور فرانس کی افواج کو اناطولیہ سے نکال دیا۔ ترک انقلابیوں نے استنبول کا دوبارہ قبضہ حاصل کرکے یکم نومبر 1922 کو سلطت عثمانیہ کے خاتمے کا اعلان کر دیا۔ سلطنت عثمانیہ کے خاتمے کے ساتھ ہی مسلمانوں کی مرکزیت ختم ہوگئی اور مسلمانوں کے لیے مسائل بڑھنا شروع ہوگئے خاص طور پر مشرق وسطیٰ میں بے چینی بڑھنے لگی۔

1933 میں جرمنی میں نازی پارٹٰ اقتدار میں آ گئی اور نازی نسلی طور پر یہودیوں کو کمتر سمجھتے تھے۔ اس لیے نازیوں نے یہودیوں کو قتل کرنا شروع کر دیا۔ 1941 سے 1944 کے دوران یہودیوں کو بے دریغ قتل کیا گیا۔ کم وبیش ساٹھ لاکھ یہودیوں کو مار دیا گیا۔ یورپ میں پھیلے ہوئے یہودیوں نے زندگی بچانے کے لیے برطانیہ کی طرف رخ کر لیا۔ برطانیہ میں یہودی تارکین وطن کی مسلسل آمد سے ان کے مقامی عیسائیوں سے اختلافات ہونا شروع ہوگئے۔ برطانیہ نے یہودیوں کے داخلے پرپابندی لگا دی تاہم برطانیہ میں یہودی تارکین وطن کی آمد کا سلسلہ نا رک سکا۔

اس دوران برطانیہ نے اعلان کیا جس کو اعلان بالفور بھی کہا جاتا ہے جس کے مطابق برطانیہ صہیونی ریاست کے قیام میں ہر ممکن مدد کرے گا۔ اس اعلان کے نتیجے میں یہودی تارکین وطن کی برطانیہ آمد کا سلسلہ رک گیا اور یہودیوں نے فلسطین کا رخ کر لیا۔ ابتدا میں پانچ لاکھ یہودی فلسطین پہنچے۔ اعلان بالفور بنیادی طور پر برطانوی سیکرٹری خارجہ آرتھر جیمز بالفور کا وہ خط تھا جس میں اس نے شاہ برطانیہ کی طرف سے روتھ شیلڈ کو لکھا کہ شاہ برطانیہ کی حکومت فلسطین میں ایک یہودی ریاست کے قیام کی حامی ہے اور اس مقصد کو حاصل کرنے کے لیے اپنی ہر ممکن صلاحیت کو بروئے کار لائے گی۔

فلسطین میں عربوں اور یہودیوں کے مابین بڑھتے ہوئے تنازعہ کے پیش نظر 1947 میں برطانیہ نے اقوام متحدہ کو فلسطین کے مستقبل کا فیصلہ کرنے کو کہا۔ اقوام متحدہ نے فیصلہ کیا کہ فلسطین کا مغربی علاقہ جہاں پر یہودی اکثریت ہے ایک یہودی ریاست بنا دی جائے اور مشرقی علاقہ میں عرب مسلمان ریاست قائم کی جائے جبکہ بیت المقدس اقوام متحدہ کے کنٹرول میں رہے۔ یہودیوں نے اس فیصلے کو تسلیم کر لیا۔ تاہم مشرق وسطیٰ کے عربوں نے یہودی ریاست کے قیام کو نامنظور کرتے ہوئے فلسطین پر حملہ کر دیا اور یہ عرب اسرائیل پہلی جنگ تھی جس میں عرب شکست کھا گئے اور اسرائیلیوں نے فتح کے بعد فلسطینی عربوں پر ظلم کے پہاڑ توڑ دیے۔

15 مئی 1948 تک فلسطین میں عربوں کی مزاحمت ختم ہوگئی اور 14 اور 15 مئی کی درمیانی شب 12 بجے یہودیوں نے تل ابیب میں اسرایئلی ریاست کے قیام کا اعلان کر دیا۔ عربوں نے یہودی ریاست کے قیام کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیا اور مصر، شام، اردن، لبنان اور عراق کی افواج نے اسرائیل پر حملہ کر دیا اور یہ جنگ 1949 میں اس وقت ختم ہوئی جب عرب ممالک کو اسرائیل سے الگ الگ امن معاہدے کرنے پڑے اور اسرائیل کے وجود کو تسلیم کرنا پڑا۔ 11 مئی 1949 کو اسرائیل اقوام متحدہ کا رکن بنا۔

1952 میں جمال عبدالناصر ایک فوجی انقلاب کے ذریعے مصر کے حکمران بنے۔ 1956 میں انقلاب کی چوتھی سالگرہ کے موقع پر جمال عبدالناصر نے نہر سوئیز کو قومیانے کا اعلان کر دیا۔ اس پر برطانیہ اور فرانس نے اسرائیل کو مصر پر حملہ کرنے کی ترغیب دیتے ہوئے خود بھی مصر پر حملہ کر دیا۔ تاہم آٹھ دن جاری رہنے والی اس جنگ میں برطانیہ اور فرانس کا نقصان ہوا جبکہ اسرائیل کا فائدہ یہ ہوا کہ اس نے صحرائے سینا کے ایک بہت بڑے رقبے پر قبضہ کر لیا۔

عرب اسرائیل تیسری جنگ جون 1967 میں اس وقت ہوئی جب اسرائیل نے کسی اطلاع کے بغیر مصر پر حملہ کر دیا۔ یہ جنگ چھ دن جاری رہی۔ اس فیصلہ کن جنگ میں اسرائیل نے فیصلہ کن برتری حاصل کرتے ہوئے مصری افواج کا بہت نقصان کیا۔ عرب اسرائیل کے درمیان چوتھی جنگ 6 اکتوبر 1973 کو اس وقت ہوئی جب مصر اور شام نے بیک وقت یہودیوں کے مذہبی تہوار یوم کپور پر اسرائیل حملہ کر دیا۔ یہ جنگ 20 روز جاری رہی اور اقوام متحدہ کی مداخلت پر بند ہوئی اس جنگ میں پاک فضائیہ نے شام کی طرف سے جنگ میں حصہ لیا اور اسرائیلی طیاروں کو مار گرایا۔ 6 جون 1982 کو جنگ لبنان میں اسرائیل نے جنوبی لبنان پر حملہ کر دیا۔ اس حملے کا مقصد ابوندال نامی تنظیم کے خلاف قدم اٹھانا تھا۔

گزشتہ 72 سالوں میں اسرائیل نے عربوں کے خلاف کوئی جنگ نہیں ہاری اور عرب مشرق وسطیٰ میں باوجود اکثریت کے باہمی نفاق کے سبب اسرائیل پر غالب نا آسکے۔ گونگے بہروں پر مشتمل اقوام متحدہ اور کمزور اور بزدل حکمرانوں پر مشتمل او آئی سی بھی فلسطینیوں کو ان کا جائز حق نہیں دلا سکے۔ پناہ گزین کیمپوں میں زندگی بسر کرنے پر مجبور فلسطینیوں کی حالت اتنی ہی خراب ہے جتنی کہ غزہ میں رہنے والے فلسطینیوں کی ہے۔ کوئی مسلمان ملک ایسا نہیں ہے جو یہودیوں کے مظلوم فلسطینیوں پر ہونے والے مظالم کو عملی طور پر روک سکے۔ فلسطینی بیت المقدس سے امت مسلمہ کو مدد کے لیے پکار رہے ہیں مگر ڈیرہ ارب مسلمانوں میں سے کوئی ان مظلوموں کی مدد کو تیار نہیں ہے۔

شاید اسی لیے ترکی کے سابق وزیر اعظم نجم الدین اربکان نے کہا تھا کہ ڈیڑھ ارب مسلمان ابابیلوں کے منتظر ہیں کہ وہ آکر ہماری جان چھڑائیں۔ بخدا آج اگر ابابیل آئیں تو وہ اپنے کنکر یہودیوں کو نہیں مسلمانوں کو ماریں۔

یہ بھی پڑھیں:اسرائیل فلسطین تنازعہ، تاریخی پس منظر (حصہ دوئم) ۔۔۔ ملک سراج احمد

اسرائیل فلسطین تنازعہ، تاریخی پس منظر (حصہ اول) ۔۔۔ ملک سراج احمد

About The Author