بندے گم کرنے کا یہ کیسا عجیب کھیل ہے، تماشائی ہکا بکا ہیں کہ بھلا جادوگر کہاں سے آئےکہاں لے گئے۔ پل بھر میں غائب ہونے والے بھی نہیں جانتے کہ اس چھو منتر سے پہلے کانوں کےقریب چُٹکی کس نے بجائی تھی۔
انسان کی آنکھ، سی سی ٹی وی کیمرے کی آنکھ اور آسمان سے اترتے موت کے فرشتے سب ہی عینی شاہد ہوتے ہیں کہ یہ لاپتہ کیا جانے والا کون تھا لیکن لاپتہ کرنے والے نجانے کونسی سلیمانی ٹوپی پہننے ہوئے ہوتے ہیں کہ سب کو نظر آتے ہیں پھر بھی کوئی دیکھنے کی تاب نہیں رکھتا۔ ہے نا عجیب کھیل۔ وقت کے عالم فاضل سرا پکڑ پا رہے ہیں نہ حکومت کے سیانوں سے کوئی جواب بن پڑ رہا ہے۔ یوں لگتا ہے جیسے ساحر نے اپنے سحر کے زور پر زبانیں قید کر لی ہیں۔ اتنا کوئی سخت طلسم ہوش ربا ہے کہ گم ہونے والا بندہ واپس آ بھی جائے تو زبان گنگ ہوتی ہے، آنکھیں متحیر اور جسم لرزاں۔
پاکستان میں طلسماتی طور پر لاپتہ ہونے والے افراد کا معاملہ ہمارے آئین، قانون، عدلیہ، ریاست، نظام، جمہوریت اور آزادی جیسے دعووں کو سوالات کے کٹہرے میں لاکھڑا کرتا ہے۔ جو کوئی ریاستی رٹ کو چیلنج کرے تو اس کا علاج قانون دیتا ہے، کوئی مملکت خداداد کو زک پہنچائے توسزا سنانے کے لیے عدالتیں بیٹھی ہیں، کوئی علیحدگی کی سیاسی بات کرے تو اتحاد و اتفاق کے لیے میز کرسی ہے لیکن جادو کے زور سے ایک پھونک میں پورا انسان ہی گمشدہ ہو جائے یہ ماورائے عدالت ہے، ماورائے عقل ہے۔
پوری دنیا گھوم لیں اکثر ریاستوں کے لیے سب سے بڑا درد سر ان کے کچھ مقامی عناصر ہیں، جنہیں ریاست سے اپنے حقوق سلب کرنے کا شکوہ ہے۔ ان عناصر کی بڑی ڈیمانڈ ہوتی ہے کیونکہ اس ملک کی ناک میں دم کرنے کے لیے عالمی اور علاقائی کھلاڑی ان میں اپنے آڑی ڈھونڈتے ہیں۔ مقامی مافیا تو ان کے کندھے استعمال کرتا ہی ہے عالمی سطح پر ان کی اصل تحریک ہائی جیک ہوجانا بین الاقوامی سیاست میں اب عام سی بات ہے۔
اپنے حقوق مانگنے والی ان تحریکوں میں سب بکاؤ، شدت پسند یا علیحدگی پسند نہیں ہوتے، انمیں کئی حق پرست ہوتے ہیں، بہت سے شعور و ضمیر کے مارے اور کچھ سر پھرے۔ یہ حقوق کے نعروں سے ہوتے ہوئے کب علیحدگی یا بغاوت کی جنگ کی طرف دھکیل دیے جاتے ہیں یہ عمل ہم کئی دہائیوں سے دیکھ رہے ہیں۔ اب تک تو بزور ملٹری طاقت ایسے عناصر کو کچلنا ممکن تھا لیکن اب سوشل میڈیا کے دور میں توپوں سے تحریکیں اُڑا دینا ممکن نہیں۔
عمران خان تو کہتے تھے میری حکومت ہو اور ایجنسی کوئی شخص لاپتہ کر دے تو یا میں نہیں یا وہ ایجنسی نہیں، میں استعفیٰ دے دوں گا۔ ان کی حکومت سنبھالتے ہی بلوچستان کے بعد سندھ میں بھی لاپتہ افراد کا مسئلہ ایک بار پھر سر اٹھانے لگا ہے۔ دبا تو یہ کبھی بھی نہیں تھا لیکن پچھلے کچھ ماہ میں ایسی شدت آئی ہے کہ سب لاپتہ کے پتے پوچھ رہے ہیں۔
ایک جانب ترقی کے گیت ہیں تو دوسری طرف اپنے گمشدہ باپ کو ڈھونڈتی بچی کے نوحے ہیں۔ ایک جانب اقتدار، اقتدار اور صرف اقتدار کے طلبگار سیاسی لیڈر ہزاروں کے مجمع میں ‘ ہل من مزید ‘ کے نعرے لگاتے ہیں دوسری جانب اپنے کھوئے لعل ڈھونڈنے والی مائیں ہیں، جنہیں صرف درجن دو درجن سماجی کارکنوں کا تعاون ہی دستیاب ہے۔ ملکی سطح پر لاپتہ افراد کا مسئلہ جس توجہ کا حقدار تھا وہ نہیں مل سکی۔ عمران خان ملکی ترقی کے لیے پراجیکٹ کی ڈھیر لگائے دے رہے ہیں۔ اچھی بات ہے۔ ملک ڈیجیٹل دور میں داخل ہو گیا۔ یہ بھی اچھی کہی۔ سی پیک کا منصوبہ فراٹے بھر رہا ہے، یہ تو اور بھی خوب تر ہے۔ لیکن انسانی زندگی سے بڑھ کر کوئی ترقی کیا معنی رکھتی ہے؟ کوئی کروڑوں کا منصوبہ کسی کے بچے کی زندگی کے آگے ہیچ ہے۔ ریاستی رٹ کے غرور کے نام پر جس دل میں پاکستان سے نفرت کا بیج بو دیا گیا ہو اسے ترقیاتی منصوبے اکھاڑ نہیں سکتے۔
پھر کیوں نہیں ہنگامی بنیادوں پر یہ لاپتہ، لاپتہ بلوچ ، لاپتہ سندھی قوم پرست، لاپتہ سماجی کارکن جیسے مسائل پر سرجوڑ کر بیٹھا جاتا؟ یہ اپوزیشن میں بیٹھے وقت کے ارسطو کیوں نہیں لاپتہ افراد پر کوئی آل پارٹیز کانفرنس بلاتے؟ کیوں نہیں قانون سازی کی جاتی، اداروں کوپابند بنایا جاتا، کیوں نہیں نام نہاد سیاست دان انسانی حقوق کے اس دیرینہ مسئلے پر مقتدرحلقوں سے ڈیل کرتے؟
ہم جیسے جنہیں ورثے میں پاکستان سے عشق ملا ہے، انہیں لاپتہ افراد کے اس پیچیدہ معاملے میں بس ایک ہی غم ہے کہ جو سرکاری گاڑی میں گھسیٹ کر ڈالا جاتا ہے وہ پاکستانی ہے، جوسرکاری گولی سے مرتا ہے وہ بھی پاکستانی ہے اور جو فوجی وطن کی خاطر ڈیوٹی دیتے ہوئے جان سے جائے سو ہے وہ بھی پاکستانی۔ کیا جن میں اختلاف کچلنے کی طاقت ہے وہ ایک بار معاملے سلجھانے کی بصیرت کو موقع دیں تو نتائج مختلف نہ ہوں گے؟ کیا ہماری تمام ترتوانائیاں اس ایک مسئلے کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے حل کرنے پر لگ جائیں تو کوئی مثبت نتائج نہیں آئیں گے؟ جیتا جاگتا انسان گمشدہ کرنے کی اس دیومالائی داستان کا کوئی تو انجام ہو گا؟ کسی نے توسوچا ہو گا کہ لاپتہ کرنے کا یہ طلسمی کھیل اب ختم کریں، کہیں تو جادوگر کے پاٹ ختم ہوں گے، پٹاری میں رکھی میجک ڈسٹ اپنا اثر کھودے گی اور جادو کی چھڑی پر ہاتھ کی گرفت کمزور ہو گی۔ جو بندے گم ہو گئے وہ جادو کا اثر زائل ہوتے ہی اپنے پیاروں سے مل پائیں گے، لاپتہ اپنے پتوں پر واپس پہنچ جائیں گے۔
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر