پارلیمانی نظام کا اصل مقصد کوئی ’’درمیانی راہ‘‘ نکالنا ہی ہوتا ہے۔ ہم لوگ مگر خود کو ’’اصول پرست‘‘ ثابت کرنے کے زعم میں مبتلا رہتے ہیں۔ اسی باعث ’’درمیانی راہ‘‘ کو حقارت سے ’’مک مکا‘‘ پکارتے رہتے ہیں۔ پنجابی محاورے والی ہاتھ سے لگائیں گرہیں مگر اس تناظر میں بسا اوقات دانتوں سے کھولنا پڑتی ہیں۔ ہماری دو بڑی اپوزیشن جماعتیں- مسلم لیگ (نون) اور پیپلز پارٹی- ان دنوں ایسی ہی مشقت کا سامنا کررہی ہیں۔ پیر کے روز ہوئے سینٹ کے اجلاس میں یہ مشقت بلکہ پیپلز پارٹی کے لئے کافی ندامت کا سبب بھی ہوئی۔ جولائی 2018کے انتخابات کے بعد اپوزیشن کی دونوں بڑی جماعتیں عمران حکومت کو Selected پکارنا شروع ہوگئیں۔ مذکورہ اصطلاح کے ذریعے عوام کو تاثر یہ دیا جاتا ہے کہ اس وقت جن لوگوں کی حکومت ہے انہیں عوام نے ’’منتخب‘‘ نہیں کیا۔ نام نہاد ’’مقتدر حلقوں‘‘ نے گویا ہم پر مسلط کیا۔ کسی ’’مسلط شدہ‘‘ حکومت کو عوامی تحاریک کی بدولت ہی ناکام بنایا جاسکتا ہے۔ مسلم لیگ (نون) اور پیپلز پارٹی مگر ایسی کوئی تحریک چلانے کو ہرگز تیار نہیں۔ جواز یہ تراشا جاتا ہے کہ عوامی تحاریک وطنِ عزیز میں بارہا ’’سسٹم‘‘ یعنی جمہوری نظام کی بساط لپیٹنے کی راہ بناتی رہی ہیں۔اس ضمن میں اکثر جنرل ضیاء کے طویل مارشل لاء کا ذکر ہوتا ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت کے تحت ہوئے 1977کے انتخاب میں مبینہ دھاندلیوں کے خلاف چلائی تحریک نظر بظاہر وہ مارشل لاء لگوانے میں مدد گار ثابت ہوئی تھی۔ جنرل ضیاء کے لگائے مارشل لاء کا حوالہ دیتے ہوئے ہمارے سیاست دان مگر یہ حقیقت فراموش کردیتے ہیں کہ جولائی 1977میں پہلی اور آخری بار ہمارے ملک میں ’’جمہوری نظام‘‘ کا خاتمہ نہیں ہوا تھا۔ اس تاریخ کے 20سے زائد برس گزرجانے کے بعد اکتوبر1999بھی تو آیا تھا۔ اس دن کی راہ کسی ’’عوامی تحریک‘‘ نے نہیں بنائی تھی۔ نواز شریف ان دنوں بلکہ بہت ہی ’’ہیوی مینڈیٹ‘‘ کے ساتھ طاقت ور ترین وزیر اعظم شمار ہوتے تھے۔ انہوں نے نجانے کیوں طیش میں آکر جنرل مشرف کو ان کے منصب سے ہٹانے کا اعلان کردیا۔ یہ فیصلہ ’’منظور ‘‘ نہ ہوا اور نواز شریف صاحب کو اقتدار سے رخصت ہونا پڑا۔ بہرحال بات کو مختصر کرتے ہوئے تسلیم کرلیتے ہیں کہ اپوزیشن کی دونوں بڑی جماعتیں ’’جمہوری نظام‘‘ کے وسیع تر مفاد میں عمران حکومت کے خلاف عوامی تحریک چلانے سے گریز کررہی ہیں۔ یہ گریز مگر انہیں پارلیمان میں جاندار اپوزیشن کا کردار ادا کرنے سے ہرگز نہیں روکتا۔ اس حقیقت کو نگاہ میں رکھتے ہوئے ان کا یہ رویہ مگر حیران کن ہے۔ 342کے ایوان میں 135کی بھاری بھر کم تعداد کی حامل ہونے کے باوجود یہ دونوں جماعتیں قومی اسمبلی میں جاندار مزاحمت کبھی دکھا نہیں پائی ہیں۔ سینٹ میں اپوزیشن جماعتیں بے پناہ اکثریت کی حامل ہیں۔ یہ ’’اکثریت‘‘ بھی ان کے کام نہیں آئی۔اسے ذہن میں رکھتے ہوئے صادق سنجرانی کو چیئرمین سینٹ کے منصب سے ہٹانے کے لئے تحریک عدم اعتماد بھی پیش ہوئی تھی۔ گنتی کی حقیقت اگرچہ اس معاملے میں کارآمد ثابت نہ ہوئی۔ اکیلے میں بیلٹ پیپر پر مہر لگاتے ہوئے 15کے قریب اپوزیشن اراکین کے ’’ضمیر جاگ گئے‘‘۔ سنجرانی صاحب اپنے عہدے پر لہٰذا براجمان رہے۔ آج تک یہ دونوں جماعتیں اپنی صفوں میں موجود ’’باضمیر‘‘ اراکین کی نشان دہی بھی نہیں کر پائی ہیں۔’’گنتی‘‘ پر مبنی حقائق کو نگاہ میں رکھیں تو عمران حکومت کے لئے بجٹ منظور کروالینا تو ممکن ہے۔ عمومی قانون سازی مگر اس کے بس سے باہر ہے۔ قومی اسمبلی سے منظور ہوا ہر قانون سینٹ سے ’’نامنظور‘‘ ہوسکتا ہے۔ ایسی صورت میں پارلیمان کے دونوں ایوانوں کامشترکہ اجلاس بلانا ضروری ہوجاتا ہے۔ وہاں بھی ’’گنتی‘‘ کی منطق عمران حکومت کو اکثریت فراہم نہیں کرتی۔ اپوزیشن کو بلکہ 8اراکین کی بنیاد پر برتری میسر نظر آتی ہے۔
’’گنتی‘‘ پر مبنی حقیقت واقعتا کارفرما ہوتی تو عمران حکومت کو ایک سوچی سمجھی حکمت عملی کے تحت اپوزیشن جماعتوں کے ساتھ Working Relations استوار کرنا پڑتے ۔ وزیر اعظم عمران خان صاحب مگر اپوزیشن رہ نمائوں کو ’’چور اور لٹیرے‘‘ پکارتے رہے ہیں۔ تحریک انصاف کے متحرک کارکنوں اور وفادار ووٹروں کی بے پناہ اکثریت بھی اس سوچ کی حامل ہے۔ ہمارے ٹی وی سکرینوں پر تقریباََ روزانہ کی بنیاد پر مختلف قدآور اپوزیشن رہ نمائوں کے ’’جعلی اکائونٹس‘‘ اور ٹی ٹی ‘‘ کے ذریعے ہوئی ’’منی لانڈرنگ‘ کا شوربرپا رہتا ہے۔ اپوزیشن کے کئی رہ نما نیب کی جانب سے بنائے مقدمات کا سامنا بھی کررہے ہیں۔سیاست کو ’’کرپشن سے پاک‘‘ کرنے کے عزم کے ساتھ اقتدار میں آئی تحریک انصاف ’’چوروں اور لٹیروں‘‘ سے قانون سازی کی خاطر کوئی ’’مک مکا‘‘ کرتی نظر آنا نہیں چاہتی۔ شاید اسے یہ ڈھونگ رچانے کی ضرورت ہی نہیں ہے۔ اہم ترین قانون سازی کے ضمن میں عمران حکومت کو جب بھی اپوزیشن کا تعاون درکار ہوا تو اپوزیشن کی دونوں بڑی جماعتوں نے ’’ذمہ داری‘‘ کا مظاہرہ کرتے ہوئے بآسانی فراہم کردیا۔ اس حوالے سے نازک ترین مرحلہ گزشتہ برس نمودار ہوا تھا۔ آصف سعید کھوسہ صاحب نے چیف جسٹس کا عہدہ چھوڑنے سے قبل حکم صادر فرمایا کہ سروسز چیفس کی مدت ملازمت میں توسیع کو ’’باقاعدہ‘‘ بنانے کے لئے قانون بنائے جائیں۔ اپوزیشن کے علاوہ سیاسی مبصرین کی اکثریت بھی یہ طے کر بیٹھی کہ مذکورہ فیصلے نے عمران حکومت کو ’’گرداب‘‘ میں پھینک دیا ہے۔ اسی باعث ’’اِن ہائوس تبدیلی‘‘ والی بدگمانیاں بھی فروغ پائیں۔ ’’وقتِ قیام‘‘ مگر جب آیا تو دونوں بڑی جماعتوں نے بارہ منٹ کی تاریخی عجلت میں مطلوبہ قانون منظور کروانے میں حکومت کو معاونت فراہم کی۔ یہ قانون منظور ہوجانے کے بعد عمران خان صاحب نے اپوزیشن کا ’’شکریہ‘‘ ادا کرنا بھی گوارہ نہ کیا۔ مذکورہ قانون کی منظوری کے بعد بلکہ قومی اسمبلی کے ایوان سے ایک ’’فاتح‘‘ کی طرح رخصت ہوئے ۔ جب یہ قانون سینٹ سے منظوری کے لئے پیش ہوا تو اس ایوان میں جانا بھی انہوں نے لازمی تصور نہ کیا۔ ان کی عدم موجودگی میں بھاری اکثریت کی حامل ہونے کے باوجود اپوزیشن جماعتوں نے سینٹ میں بھی عمران حکومت کے تیار کردہ قانون کو منظور کرنے میں 12منٹ ہی لگائے۔ عمران حکومت کے ساتھ قانون سازی کے ضمن میں ’’ذمہ دار‘‘رویہ اختیار اور برقرار رکھنے کے باوجود اپوزیشن کی دونوں بڑی جماعتیں کمال ڈھٹائی سے موجودہ حکومت کو Selectedپ کارنے سے باز نہیں رہتیں۔ بذاتِ خود پارلیمان کے دونوں ایوانوں میں ’’بکری‘‘ ہوئی نظر آتی ہیں۔ اپنے کارکنوں سے مگر تقاضہ ہوتا ہے کہ وہ ’’حقیقی جمہوریت‘‘ کے قیام کے لئے پولیس کی لاٹھیوں کی زد میں آئیں۔ آنسو گیس کا سامنا کریں۔ گزشتہ تین ہفتوں سے عمران حکومت کو ایک بار پھر اہم ترین قانون سازی کے لئے اپوزیشن کا تعاون درکار تھا۔ حکومت کا اصرار تھا کہ پاکستان کو فنانشل ایکشن ٹاسک فورس(FATF)کی گرے لسٹ سے باہر نکلوانے کے لئے چند نئے قوانین متعارف کروانا ہوں گے۔ اس حوالے سے اپوزیشن سے مذاکرات کاآغاز ہوا۔ ابھی یہ مذاکرات جاری تھے تو شاہ محمود قریشی صاحب ’’اچانک‘‘ قومی اسمبلی میں نمودار ہوئے۔ وہاں پہنچتے ہی انہوں نے مائیک سنبھالا۔ انتہائی حقارت سے یہ کہانی بیان کرتے رہے کہ پاکستان کی معاشی بقاء کے لئے لازمی تصور ہوتی قانون سازی میں حکومت کی مدد کرنے کے بدلے اپوزیشن جماعتیں نیب قوانین میں نرمی کی طلب گار ہیں۔عمران حکومت سے گویا NROمانگا جارہا ہے۔ شاہ صاحب کو نہایت رعونت سے اپوزیشن کو لہذا یاد دلانا پڑا کہ ’’کرپشن کا خاتمہ‘‘ عمران خان صاحب کی سیاست کا ’’کلیدی‘‘ نکتہ ہے۔ وہ اس ضمن میں کسی ’’سودے بازی‘‘ کو تیار نہیں ہوں گے۔ مسلم لیگ (نون) اور پیپلز پارٹی کو اپنے رہ نمائوں کی ’’کرپشن‘‘ کے حوالے سے مقدمات سے بچانے کے لئے بے چین دکھانے کے بعد وزیر خارجہ ایوان سے باہر چلے گئے۔ان کی دھواں دھار اور اپوزیشن کی دو بڑی جماعتوں کی ساکھ کو تباہ کرتی تقریر کے باوجود فروغ نسیم صاحب نے ان ہی جماعتوں کی معاونت سے FATFکو مطلوبہ قوانین بآسانی منظور کروالئے۔ اب انہیں سینٹ سے پاس ہونا ہے۔اپنی ساکھ کو برقرار رکھنے کے لئے اپوزیشن کی دونوں بڑی جماعتوں کے لئے لازمی تھا کہ وہ خاموشی سے قومی اسمبلی سے منظور ہوئے قوانین کو سرجھکاکر منظور کرتے ہوئے خود کو ’’ذمہ دار‘‘ اور محب وطن‘‘ دکھاتیں۔ نجانے کیوں ان جماعتوں کے چند سینئروں نے خواہ مخواہ کی ’’اَڑی‘‘ دکھانے کا فیصلہ کیا۔ ان کی بچگانہ چالاکیوں نے پیپلز پارٹی کے رحمن ملک صاحب کو مجبور کردیا کہ وہ پیر کی شام سینٹ میں کھڑے ہوکر برملا یہ بیان کردیں کہ قانون سازی کے لئے مختص کمیٹیوں کے اجلاس میں اپوزیشن والے کئی باتوں پر آمادگی دکھانے کے بعد ایوان میں ’’مختلف‘ ‘ رویہ اپنالیتے ہیں۔ ’’گھر کے بھیدی‘‘ نے گویا حقیقت عیاں کردی۔ مجھے یا آپ کو مگر اس تناظر میں سچ اور صرف سچ تفصیلات سمیت کوئی ایک اپوزیشن رہنمابھی بتانے کو تیار نہیں ہوگا۔
بشکریہ روزنامہ نوائے وقت
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر