دسمبر 19, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

کاغذی تحریکیں اور ریاست کا مستقبل۔۔۔زلفی

جب لوگوں کو اُن کے بُنیادی حقوق اور سماجی انصاف تک رسائی نہیں ملتی تو بے چینی اور ریاست سے بیگانگی کے جذبات کا اُبھرنا ایک فطری بات ہے۔
یہ بات طے ہے کہ اپنے شہریوں کے حقوق کے تناظر میں پاکستان ایک غیر ذمہ دار اور لا پروا ریاست ہے۔یہاں عام آدمی لاچار اور بے یارو مددگار ہے۔ستر سال کی اس ریاست نے عام لوگوں کی زندگی میں ہمیشہ مُشکلات اور مسائل کو ہی جنم دیا ہے۔آگے بڑھنے سے پہلے ذرا ریاست تشکیل دینے کے مقاصد کی تھوڑی سی تشریح کرتا چلوں تاکہ ’محب وطن‘ بھی اس مضمون سے استفادہ کر سکیں!
ریاست کی تشکیل ایک وسیع ایجنڈے کے تحت ہوتی ہے اور اس کا تصور وقت کے ساتھ ارتقائی عمل سے گزرتا ہے۔ ریاست جغرافیائی سرحدوں کی لکیروں میں قید اپنے اندر حیاتیاتی تنوع کو سموئے ہوتی ہے۔حیاتیاتی تنوع اور سرحد کی لکیروں کو قائم رکھنے کے لیے کسی حکمت عملی کی ضرورت رہتی ہے۔اس حکمت عملی کے تحت ہر ریاست اپنی پالیسی اور آئین بناتی ہے تاکہ ملک کے وجود کو برقرار رکھا جا سکے۔
معروضی حالات کو مد نظر رکھ کر آئین تشکیل دینے کے بعد اس پر عمل درآمد کرنے کے لیے ریاستی ادارے اپنا اپنا کام کرتے ہیں۔جیسے آئین میں لکھا ہے کہ فوج کا کام ریاست کی سرحدوں کی حفاظت کرنا ہے۔اسی طرح عدالت کا کام ہر شہری کو یکساں طور پر بروقت انصاف مہیا کرنا ہے۔انصاف ایک وسیع اصطلاح ہے اس کو بھی سمجھنا ضروری ہے۔انصاف محض سزاؤں کا نام نہیں سماجی انصاف کی اہمیت عدالتی انصاف سے کم نہیں۔
پولیس کا کام لوگوں کو تحفظ اور اُن کی جان و مال کی حفاظت کرنا ہے۔یہ سب باتیں اُس مُعاہدے کا حصہ ہیں جو ریاست اور شہری کی بیچ میں آئین اور قانون کی شکل میں طے ہوا ہوا ہے۔یہ تمام ادارے آئین کے مطابق کام کرتے ہیں یا نہیں اس کا ادراک تھوڑی سی سیاسی سوجھ بوجھ رکھنے والا شخص آسانی سے کر سکتا ہے۔
مگر ہوا یوں کہ ملک کو اندر سے ہی کچھ ریاستی عناصر اور خاندانوں نے اس کی پیدائش سے ہی یرغمال بنا رکھا ہے۔ وہ اپنے انفرادی مفادات کے تحفظ کے لیے کُچھ بھی کرنے کو تیار رہتے ہیں۔جرنیل چاہتا ہے کہ ریاست اُس کی لونڈی بن کر رہے، جج چاہتا ہے کہ انصاف کے نام پر وہ ریاست کے اجتماعی کردار کو محدود کرے، مذہبی پیشوا چاہتا ہے کہ وہ ریاست کو خُدا کے نام پر اپنا غلام بنا کر رکھے اور حُکمران سیاسی خانوادے کا سر براہ چاہتا ہے کہ ریاست کی چابی اُس کے ہاتھ میں رہے ۔۔۔
اس کشمکش کا انجام عام لوگوں کو بے شُمار مسائل کی صورت میں بُھگتنا پڑتا ہے کیونکہ اس طرح ریاست اپنی اصل ذمہ داریاں نبھانے کے قابل نہیں رہتی۔
یرغمال شُدہ ریاست میں زندگی کے بُنیادی حقوق کی دستیابی ایک خواب بن کر رہ جاتا ہے۔جب لوگوں کو اُن کے بُنیادی حقوق اور سماجی انصاف تک رسائی نہیں ملتی تو بے چینی اور ریاست سے بیگانگی کے جذبات کا اُبھرنا ایک فطری بات ہے۔
ریاست پر قابض عناصر اس بے گانگی اور بے چینی کو طاقت اور خوف کے بل پر دبانے کی کوشش کرتے ہیں جس کی وجہ سے اداروں کی توجہ بُنیادی حقوق سے ہٹ کر کہیں اور مبذول ہو جاتی ہے۔ مقتدر اور قابض طبقہ لوگوں کی توجہ ہٹانے کے لیے سنسنی خیزی جیسے ہتھکنڈے بھی استعمال کرتا ہے۔
ہمارے ہاں ڈمی پارٹیاں بنانا، سٹیریو ٹائپ سیاسی قیادت کو انقلابی بنا کے پیش کرنا، دھونس دھمکی اور قتل و غارت کا بازار گرم کرنا، لوگوں کو ماورائے قانون گُم کر دینا اور مذہبی بُنیادوں پر لوگوں کو تقسیم کرنا ایسے ہتھکنڈے ہیں جو ریاستی قابضین ہم عام لوگوں کے خلاف پچھلے ستر سال سے آزما رہے ہیں اور عوام بار بار اس خونی کھیل میں ایندھن بنتے چلے آ رہے ہیں۔
جدید دور میں ظلم و جبر کی بُنیاد پر لوگوں کو زیادہ دیر دبایا نہیں جا سکتا اور نہ ہی سماجی انصاف کے بغیر کوئی ریاست چلائی جا سکتی ہے۔ سو اب ہماری ریاست اُس نہج پر پہنچ چُکی ہے جہاں پر روایتی ہتھکنڈے ناکام ہو رہے ہیں۔لوگ بول رہے ہیں، لڑ رہے ہیں اور لوگ ریاست کے لگے الزاموں کو اپنے کاندھے پر اُٹھا کے چلنا سیکھ رہے ہیں۔عوام کی آواز کو دبانا ریاستی قبضہ گیروں کے دن بدن مُشکل ہوتا جا رہا ہے جس کی وجہ سے کُچھ قابضین کے گھروں کے اندر بھی اختلافات سر اُٹھا رہے ہیں۔
اس کی تازہ مثال تخت لاہور اور تخت پشور کی لڑائی کی شکل میں نظر آ رہی ہے۔ایک طرف پشتون اُٹھ کھڑے ہوئے ہیں تو دوسری طرف پنجابی اشرافیہ کے نُمائندے اپنے آقاوں سے اُلجھ رہے ہیں۔
اینٹی اسٹیبلشمنٹ کے نعرے بھی سُننے کو مل رہے ہیں اور قانون و آئین کی بالا دستی کی بھی ہوا چل پڑی ہے۔
اس ساری کشمکش میں ستر سال سے پستی مظلوم اور اقتدار کی راہ داریوں سے الگ تھلگ چھوٹی قومیتوں کے لوگ حیران تماشائی سے زیادہ کُچھ نہیں۔کیونکہ وہ روزمرہ زندگی کے تجربوں اور ماضی کی تلخ یادوں کی وجہ سے ہر قدم پھونک پھونک کر رکھ رہے ہیں۔ بلوچ، سرائیکی، سندھی، ہزارہ اور دوسری چھوٹی اقوام کے لوگ کسی حد تک اس سارے قضئے سے لا تعلق سے نظر آتے ہیں۔
دیکھنا یہ ہے کہ مقتدر طبقے کے اندر کا تضاد محکوموں کے ساتھ اور کیا سلوک کرتا ہے اور آنے والے دنوں میں پشتون تحفظ موومنٹ کے مقابلے میں پنجابی تحفظ موومنٹ، فوج تحفظ ومومنٹ، پاکستان تحفظ موومنٹ، قومی سلامتی تحفظ مومنٹ اور مذہبی ٹھیکیداری تحفظ موومنٹ جیسی کتنی تنظیمیں بنیں گی اور لوگوں کو مزید کتنا تقسیم کیا جائے گا۔
یہ واضح ہے کہ حقیقی اور فرضی تحریکوں کی بہتات سےاندرونی تصادم اور بڑھے گا اور ریاست دن بدن مزید کمزور ہوگی جس کا ملبہ عوام اور عوامی سیاسی پارٹیوں کو بھُگتنا پڑے گا جیسا کہ ہم چند سال پہلے ’وکلاء تحریک‘ کی شکل میں دیکھ چُکے ہیں۔

About The Author