یونیورسٹیوں اورعام حالات میں بھی لڑکیوں کو حراساں کرنے کے واقعات بڑھتے جا رہے ہیں ۔ ایسے میں یونیورسٹیاں اپنے ادارے کی ساکھ بچانے کے خاطر کوئی قدم نہیں اٹھاتیں۔ لہذا مجرمان کو سزا نہیں مل پاتی ۔ اور اس صورتحال میں وہ خواتین جو اپنے ساتھ ہونے والی جنسی ہراسگی کے واقعات کو رپورٹ کرتی ہیں یا اپنے ہی گھر والوں سے مدد طلب کرتی ہیں، ان میں سے اکثر کا تعلیمی سفر وہیں رک جاتا ہے۔ یہی بات ان خواتین کے لئے بھی صائب ہے جو دفاتر میں کام کرتی ہیں۔ اکثر کو ایسے واقعات رپورٹ کرنے پر اہل خانہ کی جانب سے دباؤ کی وجہ سے نوکریاں چھوڑنی پڑتی ہیں۔
ایسی خواتین جن کا تعلق پسماندہ علاقوں سے ہو ان پر معاشرتی دباؤ اور پابندیاں زیادہ سے زیادہ ہوتی ہیں ایسے میں انکے ساتھ جنسی ہراسگی کے واقعات ان کے لئے دوگنی قیمت کا باعث بنتی ہیں۔
ایسا ہی مبینہ واقعہ مبینہ طور پر یونیورسٹی آف میانوالی کے زولوجی ڈیپارٹمنٹ کی 16 طالبات کا ہے جن کا الزام ہے کہ وہ ایک پروفیسر کے ہاتھوں جنسی ہراسگی کا شکار ہو چکی ہیں۔ اس حوالےسے ایک ٹویٹ بھی سامنے آئی ہے جس میں لکھا گیا ہے کہ ہم یونیورسٹی آف میانوالی کی 16 طالبات زوالوجی کے ایک پروفیسر کے ہاتھوں جنسی هراسگی کا شکار ہو چکی ہیں ۔ اس کے ساتھ ہی مطالبہ کیا گیا ہے کہ کوئی ہے جو ہمارا ساتھ دے ؟
ایک اور ٹویٹ میں کہا گیا کہ میں دنیا سے پوچھنا چاہتی ہوں کہ کیا جب ہم خودکشیاں کر لیں گی تب ہمارے حق میں آواز اٹھے گی؟ کیا ہم زندوں کا کوئی حق نہیں؟ یونیورسٹی آف میانوالی کے زوالوجی کے ایک پروفیسر نے ہماری کلاس کی ایک نہیں 16 طلبات کو جنسی ہراس کیا۔ ہمارا ایک سیمسٹر ذہنی کوفت میں خراب کیا۔
موقف جاننے کے لئے یونیورسٹی آف میانوالی کی انتظامیہ سے رابطہ کیا گیا تو یونیورسٹی کے ڈپٹی رجسڑارنے بتایا کہ معاملے پر سکریٹری ہائیر ایجوکیشن نے تحقیقاتی کمیٹی تشکیل دے دی ہے۔ اب جو بھی تحقیقات ہوں گی وہی کمیٹی اس سے آگاہ کرے گی۔
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر