پچھلے دوبرسوں سے تحریک انصاف کی حکومت کے دوران ملنے والے سول ایوارڈز پر تنقید کرتا رہا ہوں، چار دن پہلے صدر پاکستان نے اس سال کے لئے 184 شخصیات کومختلف شعبوں میں اعلیٰ خدمات پر سول ایوارڈز دینے کا اعلان کیا ہے۔ پچھلے سال ملنے والی ایوارڈز کی فہرست نہایت مایوس کن تھی۔تب آرٹ اینڈ کلچر کے شعبوں میں سولہ ایوارڈ دئیے گئے تھے جبکہ صرف دو ادیبوں کو ایوارڈ ملے، دونوں مرحوم یعنی ابن صفی اور فہمیدہ ریاض۔ صحافت کے حوالے سے پچھلے سال ایک ایسے شخص کو ایوارڈ دیا گیا جس کا صحافت سے دور دور کا تعلق نہیں تھا۔
باقی فہرست بھی مایوس کن تھی۔ اس سے ایک سال پہلے صورتحال مزید دگرگوں تھی۔ اس بار فہرست دیکھنے کے بعد یہ اعتراف کرنا پڑے گا کہ پچھلے دونوں برسوں کی نسبت زیادہ بہترانتخاب کیا گیا اور چند ایک خامیوں کے باوجوقدرے تسلی بخش کارکردگی رہی۔ اس سال نشان امتیاز میں صادقین، شاکر علی، ڈاکٹر جمیل جالبی، احمد فراز ، عابدہ پروین وغیرہ کا انتخاب کیا گیا۔ سب دیوقامت لوگ ہیں۔ صادقین اور شاکر علی کو اگرپہلے ایوارڈ نہیں ملا تھا تو انہیں نشان جیسا ممتاز ایوارڈ دے کر اچھا کیا گیا، تاہم معاملہ قرض چکانے کا تھا توعبدالرحمن چغتائی کو بھی شامل کر لیتے۔
زیادہ بہتر ہوجاتا۔ علم وادب کے حوالے سے جن لوگوں کو ایوارڈ ملا، ان میں سے چند ایک کو برسوں پہلے مل جانا چاہیے تھا۔ ڈاکٹر اسلم انصاری ہر لحاظ سے مستحق ہیں۔ان کے ساتھ سرمد صہبائی اور غلام باغ جیسے ناول کے مصنف مرزا اطہر بیگ کو پرائیڈ آف پرفارمنس دیا گیا۔
یہ تینوں لوگ زیادہ بڑے اعزاز کے مستحق تھے، مگر پرائیڈ آف پرفارمنس واحد اعزاز ہے جس کے ساتھ معقول مالی رقم دی جاتی ہے، اس لئے یہ غنیمت ہے۔مولانا طارق جمیل ، پروفیسر حمیداللہ شاہ ہاشمی(اقبال کے فارسی کلام کا ترجمہ ، شرح کرنے والے سکالر) ، ڈاکٹر یار محمد مغموم ، رحمت اللہ درد مرحوم،ڈاکٹر اباسین یوسفزئی ، سندھی افسانہ نگار خاتون مہتاب محبوب کو بھی ایوارڈ ملے ہیں۔ قرآن پاک کا شنا زبان میں ترجمہ کرنے والے شاہ مرزا کا انتخاب بھی کیا گیا۔ سندھی ادیب تاج محمد جوئیو کو بھی ایوارڈ کے لئے چنا گیا، مگر بدقسمتی سے اعلان سے چند دن پہلے ان کا بیٹا سارنگ جوئیو مسنگ پرسنز میں آ گیا تھا، انہوںنے احتجاجاً ایوارڈ لینے سے انکار کر دیا۔ یہ فطری رویہ تھا۔
سارنگ جوئیو اب گھر آ چکے ہیں، تاہم تاج جوئیو کا کہنا ہے کہ میں نے اپنے بیٹے کی وجہ سے انکار نہیں کیا تھا، بلکہ احتجاج کی نوعیت کئی اور فیکٹرز پر بھی تھی۔وہ درست کہتے ہوں گے، مگر کئی برسوں سے یہ روایت ہے کہ جسے ایوارڈ دینا ہو، اس سے پہلے رابطہ کر کے پوچھ لیا جاتا ہے۔ تاج جوئیو اگر پہلے سے ایوارڈ نہ لینے کا ذہن بنا چکے تھے تو رابطہ کرنے پر انہوں نے یہ لازمی بتایا ہوتا، یوں انہیں ایوارڈ ملنے کا اعلان ہی نہیں ہونا تھا۔ سندھ، کے پی اور بلوچستان، گلگت بلتستان سے ادیبوں کا انتخاب خوش آئند ہے،آزاد کشمیر میں بھی سماجی خدمات انجام دینے والوں کو منتخب کیا گیا۔
دو چیزیں البتہ کھٹک رہی ہیں ۔کراچی کے کسی زندہ ادیب کو ایوارڈ نہیں ملا، حالانکہ کئی ممتاز نام موجود ہیں۔ نصیر ترابی، سلیم کوثر،شاہدہ حسن وغیرہ۔احفاظ الرحمن اور آصف فرخی جیسے لوگ کچھ عرصہ قبل ہی دنیا سے رخصت ہوئے، ان کا بھی حق بنتا تھا بلکہ عنایت علی خان جیسے شاعر کو زندگی میں ایوارڈ نہیں ملا تو اب مرنے کے بعد ہی دے دیتے۔ ممکن ہے ایسا اس لئے نہ ہوا ہو کہ فہرست مکمل ہوچکی تھی،مگر اس میں ردوبدل ہوتا رہتا ہے۔دوسری بڑی کوتاہی سرائیکی علم وادب کے حوالے سے کام کرنے والی شخصیات کو نظرانداز کرنا ہے۔
پچھلے کئی برسوں میں دیکھا کہ سندھی، پشتو، بلوچی ، پشتو زبانوں میں تخلیقی، تحقیقی، علمی کام کرنے والوں کو لازمی جگہ ملتی ہے، پنجابی ادبیوں کا بھی نمبر لگ جاتا ہے۔ سرائیکی شاعر ادیب اور محقق ہمیشہ محروم رہتے ہیں۔ سرائیکی زبان کے ممتاز ترین شعرا میں جناب رفعت عباس، ڈاکٹر آشو لال، عزیز شاہد، عاشق بزدار وغیرہ موجود ہیں، انہیں ہمیشہ نظرانداز کیا جاتا ہے۔سرائیکی شاعری کے حوالے سے کئی اور نام موجود ہیں، بعض ایسے جو زیادہ مشہور نہیں مگر عوامی سطح پر بہت مقبول ہیں۔ سرائیکی ڈوہڑے کے حوالے سے نمایاں کام کرنے والے استاد احمد خان طارق مرحوم، جبکہ علمی ، ادبی حوالوں سے گراں قدر تحقیقی کام کرنے والے محقق جناب شوکت مغل چند ماہ قبل انتقال کر گئے، انہیں بھی کوئی بڑا اعزاز ملنا چاہیے ۔ سرائیکی، اردو اور پنجابی میں ٹی وی ڈرامے، افسانے لکھنے والی معروف مصنفہ مسرت کلانچوی کو پرائیڈ آف پرفارمنس ملنا چاہیے، اس سے سرائیکی کی خواتین تخلیق کاروں کی بھی حوصلہ افزائی ہوگی۔
اسی طرح درجنوں ایسے سرائیکی فوک گلوکار، موسیقار ہیں جنہیں ایوارڈ ملنا چاہیے۔ لولی گانے والے لیجنڈری گلوکارفقیرا بھگت تو کب کے چلے گئے، ان کا بیٹا موہن بھگت ہر اعتبار سے پرائیڈ آف پرفارمنس کا مستحق ہے۔ احمد پورشرقیہ سے تعلق رکھنے والے فن کاروں کی دو جوڑیاں ریڈیو پاکستان کے توسط سے مشہور ہوئیں۔ مستانہ پروانہ جنہوں نے بیسیوں شاہکار گیت گائے، اب ان میں سے ایک بھائی ہی زندہ ہے۔ اسی طرح حسینہ ممتاز بھی دو خواتین گلوکارائوں کی جوڑی تھی، اب نجانے حیات ہیں یا نہیں۔ افسوس کہ انہیں غیر معمولی ٹیلنٹ اور شاندار گائیگی کے باوجود کبھی سول ایوارڈز کے لئے زیرغور نہیں لایا گیا۔
میں سوچ رہا تھا کہ اگر سرائیکی صوبہ بن گیا ہوتا یا جنوبی پنجاب صوبہ ہی بن جاتا تو یقینی طور پر ان مقامی فنکاروں، ادیبوں، سکالروں کے نام کمیٹی کو بھیجے جاتے اور کسی نہ کسی کو ایوارڈ مل ہی جاتا۔ کے پی سے پشتون شاعروں کو ایوارڈ مل رہے ہیں، اچھی بات ہے، مگر انہیں ڈی آئی خان کے سرائیکی شاعروں اور فنکاروں کی بھی عزت افزائی کرانی چاہیے۔ مخمور قلندری جیسا باکمال شاعر وہاں موجود ہے، صدارتی ایوارڈ تو کیا، کبھی صوبائی سطح پر بھی ان کی قدردانی نہیں ہوئی۔ اس بار کچھ ایسے لوگوں کو ایوارڈز دئیے گئے جن کے ساتھ حق تلفی ہوتی رہی۔ فاروق قیصر(انکل سرگم)کو ستارہ امتیاز ملنے کی دلی خوشی ہوئی۔ ان کا پتلی تماشا دیکھتے ہماری دو نسلیںبڑی ہوئیں۔
اسی طرح عبدالقادر کا حق بنتا تھا، ان کی پاکستانی کرکٹ کے لئے بڑی خدمات ہیں۔ رتھ لیوس کی خدمات کون بھلا سکتا ہے؟ اس بار بہت سے انجینئرز، فارماسسٹ،ماہرین تعلیم کو بھی ایوارڈز ملے۔ ماہرین کی پزیرائی ہراعتبار سے خوش آئند ہے۔ سماجی خدمت کے حوالے سے بعض قابل تحسین فیصلے ہوئے۔ ڈاکٹر آصف محمود جاہ کو پہلے بھی ایوارڈ مل چکا ہے، اس بار انہیں ہلال امتیاز دیا گیا۔
ڈاکٹر صاحب ایک حادثے کے نتیجے میں آج کل بستر پر ہیں، اللہ انہیں صحت کاملہ عطا فرمائے، ان کی سماجی خدمات قابل ستائش ہیں۔ غزالی ٹرسٹ سکولز کے عامر محمود جعفری کو ایوارڈ ملنا قابل تعریف ہے۔عامر محمود ون مین آرمی ہیں، ہر وقت سماجی خدمت کے لئے مستعداور فعال۔ انہیں تمغہ امتیاز دیا گیا، اگر پرائیڈ آف پرفارمنس ملتا تو زیادہ اچھا ہوتا۔ فیصل ایدھی اورپیر سید لخت حسنین کو ایوارڈ ملنا قابل تعریف ہے۔ کون ہے جو ان کی تنظیموں کی خدمات کا معترف نہیں۔ ہر سال مقبول فکشن نگاروں کو نظرانداز کر دیا جاتا ہے، شائد آئندہ بھی ایسا ہوتا رہے۔
اس کی وجہ مخصوص ادبی تعصبات ہیں۔ ادبی حلقے ڈائجسٹوں میں لکھنے والوں کو ادیب تو کیا انسان ہی نہیں سمجھتے۔ محی الدین نواب اور علیم الحق حقی کے لاکھوں قارئین ہیں، ان کی تحریریں کسی بھی بڑے ادبی کام کے مقابلے میں رکھی جا سکتی ہیں۔ طاہر جاوید مغل نے کئی شاندار ناول لکھے ۔ پینتیس برسوں سے وہ تخلیق میں جتے ہیں۔تاوان، دیوی، للکار، پرواز، انگارے وغیرہ بڑے مقبول ناول ہیں۔ احمد اقبال صاحب آج کل نہیں لکھ رہے، مگر تین چالیس سال تواتر سے لکھا۔ الیاس سیتا پوری جیسا لکھنے والا دنیا سے چلا گیا، کبھی ان کا انٹرویو تک کسی اخبار میں نہیں دیکھا۔ یہی ایم اے راحت کے ساتھ ہوا۔۔کئی سو جاسوسی ناول لکھنے والے مظہر کلیم دنیا سے رخصت ہوگئے ، انہیںایوارڈ نہیں ملا۔ خواتین ڈائجسٹوں میں لکھنے والی کئی بہت عمدہ لکھاری ایسی ہیں جنہیں ایوارڈ ملنا چاہیے۔
عنیزہ سید، رفعت سراج، نگہت عبداللہ وغیرہ۔ عمیرہ احمد نے اپنے ناولوں سے بلا مبالغہ لاکھوں پڑھنے والوں پر اثر ڈالا۔ہماری لبرل، سیکولر لابی نجانے کیوں عمیرہ احمد اور نمرہ احمد سے متنفر ہے۔ شائد اس کی وجہ ان کے ناولوں میںکردار اللہ اور اس کے آخری رسول ﷺ کا محبت سے نام لیتے ہیں، ان کے ناولوں سے قاری کے ذہن میں قرآن فہمی کی اہمیت راسخ ہوتی ہے۔ عمیرہ احمد کا ناول ’’پیر کامل‘‘،’’ آب حیات‘‘ اور نمرہ احمد کا’’ جنت کے پتے‘‘اور ’’ نمل‘‘وغیرہ ان کے سب سے بڑے ’’جرائم‘‘ ہیں۔ سول ایوارڈز پر غور کرنے والی کمیٹی کو ان مقبول فکشن نگاروں کو بھی اپنی فہرست میں شامل کرنا چاہیے۔ اس برس صحافت کو بالکل ہی نظرانداز کیا گیا۔آخر کیوں ؟ پچھلے دونوں برسوں میں بھی یہ زیادتی ہوئی۔
بہت سے ممتاز اخبارنویسوں اور نامور کالم نگاروں کوہر لحاظ سے مستحق ہونے کے باوجود ابھی تک ایوارڈ نہیں ملا۔ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ اس شعبے میں سے کم از کم چار پانچ لوگوں کا انتخاب کیا جاتا تاکہ تلافی ہوسکے ۔ اس کے بجائے ایک بھی ایوارڈ نہیں دیا ۔ صحافت کو ریاست کا چوتھا ستون کہا جاتا ہے، کالم پڑھنے والوں کی تعداد میں بے پناہ اضافہ ہوا ہے۔ جب ایوارڈ دینے کا وقت آئے تو اس اہم ترین شعبہ کا بلیک آئوٹ۔ایوارڈ کمیٹی کو اس امر کی وضاحت پیش کرنی چاہیے۔
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر