نفرت کی آگ مُختلف سماجی پرتوں میں پھیلتی ہے تو پھر یہ ہرے اور سوکھے کی تمیز نہیں کرتی جو بھی اس کی لپیٹ میں آتا ہے اُس کو راکھ کر دیتی ہے۔
یہ آگ رشتوں، قدروں ، ثقافتوں اور جذباتوں کو جلاتی ہوئی پورے سماج کو گرفت میں لے کر فضا کو غموں کے گھنے دھوئیں سے بھر دیتی ہے۔
نفرت پھیلانا دراصل پست ذہنیت کا عکاس ہوتا ہے جس کے پیچھے بہت سے ایسے مُحرکات کار فرما ہوتے ہیں جن کا تعلق منفی رجحانات، جھوٹی کہانیوں، گھڑی ہوئی تاریخ اور سننے سنائے قصوں سے ہوتا ہے۔
وہ لوگ جو نفرت کرتے ہیں خود بھی اس آگ کا ایندھن بنتے ہیں۔
ہمارے لا شعور کی پرتوں میں کسی خاص مذہب، تہذیب یا قوم سے نفرت کرنے کی اکثر وجوہات جذباتیت اور کسی خاص وقت کی معروضی حالات سے نا آشنائی کا نتیجہ ہوتی ہے جس کو ہم صرف نفسیاتی اور جذباتی کیفیتوں کی کسوٹی پر پرکھتے ہیں۔
یہی نفسیاتی اور جذباتی ہیجان عقل پر پردہ ڈال دیتا ہے اور انسان پاگل پن کی انتہا کو چھونے لگتا ہے۔
پشاور کا واقعہ اس سے پہلے چنیوٹ اور اس طرح مشال کی مثالیں زیادہ پُرانی نہیں ہوئی اُس کو بھی اسی وحشت کا شکار بنایا گیا تھا۔
ایسے واقعات کی ایک لمبی داستان ہے مگر سوال یہ ہے کہ اس کو روکا کیوں نہیں جاتا؟
ظاہر ہے ایسے واقعات کو روکنے کے لیے سماجی اور ریاستی سطح پر ٹھوس اقدامات کی ضرورت ہے مگر ہمارا سماج اور ریاست دونوں بے حسی کی آخری حدوں کو چھو رہے ہیں۔
تعصب اور تفرقے کی آگ پھیلانے والے بڑے بڑے اجتماعات کرتے ہیں اور کھُلے عام لوگوں کو قتل پر اُکساتے ہیں اُن کے خلاف ایکشن لینے کی بجائے اُنہیں عزت پیسہ اور پروٹو کول دیا جاتا ہے۔
شیعہ اور سُنی کا جھگڑا ابھی ختم نہیں ہوا تھا کہ اب ایک اور سلسلہ شروع کر دیا گیا۔
یہ آگ اکا دُکا واقعات تک نہیں رُکے گی، یہ بہت تباہی مچائے گی کیونکہ اس کو بھڑکانے کے لیے بہت پیسہ اور افرادی قوت لگائی گئی ہے۔
اس ’انویسٹمنٹ‘ کو اہل اقتدار اپنے مفادات کے لیے خوب استعمال کریں گے اور عوام بھگتیں گے۔
ہم مُختلف سماجی اکائیوں میں نفرت اور تعصب پر مبنی رجحانات کی شدت کو کئی دہائیوں سے جھیل رہے ہیں جن میں لاکھوں لوگ مارے جا چُکے ہیں۔
بدقسمتی سے ایسے رجحانات کو پنپنے میں زیادہ وقت نہیں لگتا مگر ان کو ختم کرنے میں طویل وقت درکار ہوتا ہے کیونکہ تعصب اور نفرت کا شکار ہونے والے اکثر افراد نفیساتی پیچیدگیوں کے ساتھ ساتھ غضب کے جذباتی بھی ہوتے ہیں۔
ایسے لوگ عام طور پر عقل اور دلیل سے چیزوں کو پرکھنے کی زحمت نہیں کرتے یا یوں کہیے کہ اُن کی سرشت میں ہی نہیں ہوتا کہ وہ جذبات سے ہٹ کر عقل کی پیروی کرتے ہوئے اصل حقائق کا ادراک کر یں۔
ہماے ہاں ’غازیوں‘ کی کمی نہیں ہے، انہیں ہیرو بنانے کی ابتدا کسی اور نے نہیں بلکہ ریاست نے کی تھی۔
معصوم بچوں کے نصاب میں لکھا گیا کہ کسی خاص مذہب کے ماننے والے مکار اور ڈرپوک ہوتے ہیں، اس دھرتی پر حملہ آوروں کو بطور ہیرو پیش کیا گیا، محروم قوموں کی تہذیب و ثقافت کو پسماندہ قرار دیا گیا اور زبان کی بُنیاد پر احساس برتری کو پروان چڑھایا گیا۔
یہی نصاب پڑھ کر آنے والے اور ’غازیوں‘ کو ہیرو سمجھنے والے اب اہل اقتدار ہیں۔
انصاف کے اعلی منصب پر فائز ایک مشہور جج صاحب نے فرمایا تھا کہ تقسیم ہند سے پہلے موجودہ پاکستان میں ایک مُسلمان قوم رہتی تھی دوسری کا میں نام بھی نہیں لینا چاہتا ۔۔!!!
کوئی مہذب ملک ہوتا تو شاید جج صاحب اگلے دن فارغ ہو جاتے کہ کوئی جج متعصب نہیں ہو سکتا مگر یہاں تو آوے کا آوا ہی چٹ ہے۔۔۔
اس منفی سوچ نے اجتماعی خوشیوں، انسانی میل ملاپ اور ضروری ذہنی ہم آھنگی کو پروان نہیں چڑھنے دیا۔
ہمارے ناقابل برداشت رہنما سڑے ہوئے نظریات کی ترویج کررہے ہیں۔ معاشرہ ظلم، تشدد، نفرت و انتقام سے لبریز اور افراد ایک دوسرے سے بر سر پیکار ہیں۔ ایک دوسرے کو مورد الزام ٹھہرایا جا رہا ہے۔ الفاظ کی جنگ کے بعد قتل و غارت گری کا بازار سجا ہوا ہے۔
یہ سب نفرت اور تعصب کے نتائج ہیں۔
وردی کو کھال اور ڈھال سمجھنے والوں نے نفرت کو بطور کارگر ہتھیار کے اپنایا اور ’نورانی چہروں‘، کالے کوٹ اور قلم دوات والوں نے اس میں شراکت داری کا کردار خوب نبھایا ہے۔
نا انصافی پر مبنی اور متشدد معاشروں میں جذبات کا ہیجان فطری رد عمل ہوتا ہے جو بالاخر ذہنی لاچارگی کو جنم دیتا ہے۔
اس ذہنی لاچارگی کے مرض میں مبتلا لوگ اور اہل اقتدار اپنے اپنے مورچوں سے اہل عقل کے خلاف دشنام درازی سے لے کر کثیر الاقسام تشدد میں ملوث ہیں۔ ان کے نزدیک عقل اور دلیل کی بات کرنے والا ایجنٹ، کافر، بد تہذیب اور بے غیرت ہے۔
ایسے ماحول میں زندہ رہنا سب سے اہم ترجیح ہوتا ہے اور اس ترجیح کے باعث بات کرنے کا عمل سُست تر ہوتا جاتا ہے جو ایسی معاشرتی گُھٹن کو جنم دیتا ہے جس میں سانس لینا دُشوار سے دُشوار تر ہو جاتا ہے۔
میرے شہروں، قصبوں اور گلیوں میں ایسی گُھٹن کے باعث تہذیب سسک سسک کے مر رہی ہے، دانشور اپنی ذات کے قبرستان میں دفن ہوتے جا رہے ہیں، سچےآرٹسٹ اور فنکار کہیں اور بھاگنا چاہتے ہیں، تخلیق کار اپنی تخلیق کو سینے سے لگائے موہوم سی اُمید میں جئے جا رہے ہیں، کلاسیکل محبت کی کہانیاں بھی غائب ہو چُکی ہیں، جنگل، دریا اور پرندے بھی انسانوں سے بچھڑ رہے ہیں۔
نفرت کا دور یونہی چلتا رہا تو وہ دن دور نہیں جب انسان (پیچھے مُڑے بغیر) سچ مُچ پتھر کا ہو جائے گا اور دُنیا کی باگ ڈور مصنوعی دانش اور روبوٹ سنبھال لیں گے۔ شاید یہی آج کے انسان کا مُستقبل ہے۔ روبوٹ کم از کم مسلک، فرقے، مذہب اور نسل کی بُنیاد پر قتل وغارت تو نہیں کریں گے۔
فی الحال قوم کو ایک نیا ’غازی‘ مبارک ہو۔
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر