یہ کہانی اس چرواہے کی ہے جس نے اپنی 70 سالہ زندگی ریوڑ ہانکتے گزاری۔ اس دوران اس نے کئی اتار چڑھاؤ بھی دیکھے۔ اپنے ریوڑ کی حفاظت کے لئے روایتی اور غیر روایتی طریقوں سے اُس کا دفاع بھی کیا اور ضرورت پڑنے پر ریوڑ کو دوسرے بیوپاریوں سے منڈیوں میں بیچتا بھی رہا تاکہ اُس کا کنبہ اچھی زندگی گُزار سکے۔
پچھلے دنوں مجھے اس چرواہے سے ملنے کا اتفاق ہوا تو وہ مجھے اپنے باڑے میں لے گیا اور اپنے مویشیوں سے شرف ملاقات بخشا۔ اس کے باڑے میں بھانت بھانت کے مویشی تھے اور وہ اُن کو دیکھ کر اترا رہا تھا۔ میں نے عرض کی آپ نے اپنی 70 سالہ زندگی میں ان مویشیوں کو ہانکتے اور سنبھالتے کیا سیکھا اور کون سی مشکلات کا سامنا کیا؟ اس نے اپنی مونچھوں کو تاؤ دیتے ہوئے پُر اعتماد انداز میں کہا ہر جانور کو سنبھالنا اور ہانکنا اپنے آپ میں ایک سائنس ہے۔ شروع شروع میں جب یہ ریوڑ میرے پُرکھوں نے میرے حوالے کیا تو نا تجربہ کاری اور بالی عمریا کی وجہ سے اس وقت اسے سدھانا ذرا مُشکل تھا۔ جبکہ ریوڑ بھی مختلف چرواہوں کی نگرانی میں لمبا سفر کر کے سستانے کے موڈ میں تھا۔ پھر آہستہ آہستہ اس کو میں نے اپنی نگرانی میں سدھانا شروع کیا تو یہ میرے اشاروں کو سمجھنے کے قابل ہوا اور میری آوازوں پے کان دھرنے لگا۔ اس دوران ہماری بے تکلفی ذرا بڑھی تو ہماری بات چیت نے ایک مذاکرے کی شکل اختیار کر لی۔ جو من و عن آپ کی خدمت میں پیش ہے۔
میں : ما بدولت سب سے زیادہ پیار آپ کو کونسے جانوروں سے ہے؟
چرواہا: (جادوئی ملاکہ کو گھماتے ہوئے سخن ور ہوا) یہ جو بھیڑیں ہیں نا ان سے مجھے بہت پیار ہے، ہر مشکل میں یہ میرے کام آتی ہیں۔ اپنی ضروریات کی بیشتر چیزیں میں انہی کی بدولت پوری کرتا ہوں۔
میں: ان بھیڑوں کی حالت تو خستہ ہے پھر یہ آپ کی ضروریات کو کیسے پورا کرتی ہیں؟
چرواہا: (زور دار قہقہہ ۔۔۔ ذرا توقف کے بعد وہ یوں گویا ہوئے) میاں تم کیا جانو یہ بھیڑیں بڑی سخت جان ہوتی ہیں اور بہت خاموش طبع بھی۔ ان کی کھال اتارو، بال اتارو یہ اف تک نہیں کرتیں۔ کھانے کو جو بھی مل جائے گزارہ کر لیتی ہیں اور پھر جُگالی کر کے اس پر قناعت کرتی ہیں۔ ان کے کاروبار سے میرے خاندان اور کاروبار کو وسعت ملتی ہے۔ (اس اثنا میں وہ اپنے پہلو میں بیٹھی گھنے اور گھنگریالے بالوں والی بھیڑوں کی زلفوں میں ہاتھ پھیرتے ہوئے کہنے لگا میری سب سے پیاری بھیڑیں۔)
میں: یہ اتنے موٹے موٹے بھینسے کاہے کو رکھے ہیں؟
چرواہا: (ترچھی نظروں سے دیکھتے ہوئے وہ زیر لب مسکرایا اور کہا) یہ رات آٹھ بجے سے لے کر بارہ بجے تک باڑے کے دوسرے جانوروں کی حفاظت کرتے ہیں تا کہ کوئی “گھس بیٹھیا” ان کے دل و دماغ میں خوف پیدا نہ کر سکے۔
میں: صاحب ان کو ذرا باندھ کر رکھیے یہ نہ ہو کہ یہ منھ زور ہم پہ حملہ کر دیں؟
چرواہا: منھ زوروں کو ہم خاموش کر دیتے ہیں اس بات سے یہ سب بھینسے آگاہ ہیں اور اپنے مالک کے وفادار ہیں ویسے بھی لڑتا تو بھوکا ہے یہ تو خوب پیٹ بھر کر کھاتے ہیں۔
میں: اس ریوڑ میں کوئی حصہ دار بھی ہے یا آپ ہی اس کے اکلوتے وارث ہیں؟
چرواہا: کبھی کبھی کچھ لالچی اور کرپٹ لوگ جھوٹے دعوے کرتے رہتے ہیں مگر ان کا یہ دعوٰی کبھی سچ ثابت نہیں ہوا۔ وہ ہمیشہ انصاف کے ہاتھوں رسوا ہوئے یہ نتھو خیرے میرے مال پہ کبھی قبضہ نہیں جما پائیں گے یہ ان کی بھول ہے۔ (وہ کافی جذباتی انداز میں بولے) یہ میرا مال ہے صرف میرا۔
میں: یہ نتھو اور خیرا کون ہیں؟
چرواہا: (چھڑی کو زمین پہ مارتے ہوئے گرج دار آواز میں مجھے گھورتے ہوئے بولا) ‘ہیں نہیں۔۔۔ تھے’۔ دونوں مر گئے ایک کو پھائی لگی اور دوسرا بھی مارا گیا تھا۔
میں: اچھا سائیں خونخوار جانوروں سے آپ اپنے باڑے کی حفاظت کس طرح کرتے ہیں؟
چرواہا: چالاک لومڑ اور گیدڑ کیلئے ہم نے ‘تزویراتی گہرائی’ نامی گہرا کنواں کھود رکھا ہے وہ اس میں گر کر جان سے جاتا ہے، بھیڑیئے کو پھانسنے کیلئے ہم نے ‘قیامت کی نظر ‘ رکھنے والے خچر پال رکھے ہیں اور سفید ہاتھی کو اپنے باڑے سے دور رکھنے کے لئے بڑے بڑے ‘پھل دار’ جنگل اُگا دیے ہیں تاکہ وہ ادھر خوش رہے اور اپنا پیٹ بھرتا رہے۔
میں: ملک صاحب آپ کے ہنر کے چرچے تو پوری دنیا میں ہیں، آپ یہ بتائیں اپنے ریوڑ کو صحیح راستے پر ہانکنے کے لئے کون کون سے ‘طراہ’ یا اشارے دیتے ہیں؟
چرواہا: اپنے ہاتھوں پر لگے بھیڑوں کے مکھن کی لُبریکنٹ سے مونچھوں کو تاؤ دیا اور بولا آج کل تو انگلی کے اشارے سے ہانکتا ہوں۔ ادھر میری انگلی اُٹھی ادھر ریوڑ کی سمت بدل گئی۔ کبھی کبھار اپنی چھڑی سے بھی ہانکتا ہوں۔ کوئی اکھڑ جانور زیادہ تنگ کرے تو میرے پاس ٹرینڈ کتے ہیں وہ ان کو ہانک کے راہ راست پر لے آتے ہیں۔
میں: کوئی ایسا واقعہ جس کی وجہ سے آپ کے مال کو خطرہ لاحق ہوا ہو اور آپ کا ریوڑ تتر بتر ہو گیا ہو اور بڑی مشکل سے آپ نے اسے سنبھالا ہو؟
چرواہا: لگ بھگ 45 سال پہلے دسمبر کی ایک سرد اور گھپ اندھیری رات کو میری بہت سی بھیڑیں ادھر ادھر ہو گئیں تھیں، پھر 8 سال بعد اپریل کی ایک صبح بھی میرے ریوڑ پر بھاری گُزری تھی اور اس واقعے کے 28 سال بعد پھر دسمبر لوٹا تو میرا ریوڑ تتر بتر ہوتے ہوتے بچ گیا تھا۔
میں: اب آپ کیا سمجھتے ہیں آپ کا ریوڑ ہمیشہ ہمیشہ کے لئے محفوظ ہو گیا؟
چرواہا: ہاں کوئی وبا یا متعدی بیماری نہ پھیلے تو میرا ریوڑ محفوظ ہاتھوں میں ہے۔
میں: میری معلومات کے مطابق آپ نے اپنے ریوڑ کو ہر قسم کے حفاظتی ٹیکے تو لگوا لئے ہیں اور بدلتے موسموں کے ساتھ ان کی بروقت ویکسینیشن بھی ہوتی رہتی ہے۔ پھر بھی متعدی بیماری یا وبا کا آپ کو خطرہ کیوں لاحق ہے؟
چرواہا: یار تم سمجھتے نہیں نئی نئی بیماریاں بھی تو پھوٹتی رہتی ہیں۔ جراثیموں کی قوت مدافعت بھی تو وقت کے ساتھ ساتھ بڑھتی جا رہی ہے۔
میں: آخری سوال اور وہ بھی شاید آخری بار وہ یہ کہ سنا ہے اب آپ اپنے مویشیوں کو کسی سستی منڈی میں اونے پونے بیچنا چاہتے ہیں؟
چرواہا: ہاں آپ کی بات کسی حد تک درست ہے آج کل مارکیٹ میں مندہ چل رہا ہے اور ان کو پالنے کے اخراجات بھی بڑھ گئے ہیں وقت کی نبض کو سمجھتے ہوئے میں ان کو بیچ کے کوئی اور منافع بخش کاروبار کرنا چاہتا ہوں تاکہ میرے بال بچے خوشحال اور ٹھاٹھ باٹھ کی زندگی گُزار سکیں۔
اس گھاگھ چرواہے سے اپنا مکالمہ مکمل کرنے کے بعد جب میں واپس لوٹ رہا تھا تو میرے کانوں میں بھینسوں کے گلے میں لٹکتی گھنٹیوں اور ٹلوں کی آواز آنے لگی۔ میں دل میں سوچ رہا تھا کہ یہ ‘گھنڈ’ اور ‘ٹل’ ان کے بکتے ہی اتار لئے جائیں گے یا یہ بھی نئے مالک کو بیچ دئے جائیں گے!
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر