اس الیکشن میں میں خود بھی بطور صحافی امیدوار ہوں اس لیے آپ کہہ سکتے ہیں کہ میں پریس کلب کی سیاست میں فریق ہوں۔ یہی وجہ ہے یہاں میں کوئی غیرجانبدار تجزیے دینے کی بجائے آ پ کے سامنے اپنا نقطہ نظر رکھ رہا ہوں۔
پریس کلب کے یہ انتخابات تقریباً آٹھ ماہ کی تاخیر سے ہونے جا رہے ہیں۔ کلب کے آئین کے مطابق الیکشن دسمبر میں ہونے تھے مگر پھر روایتی طور پر برسر اقتدار دو مخالف گروپ جنہوں نے گذشتہ الیکشن میں صدر اور سیکریٹری کے عہدوں پر کامیابی پائی تھی ان کی باہمی چپقلش اس تاخیر کا باعث بنی، اس کے بعد باقی کسر کورونا کی وبا نے نکال دی۔
یوں تو کلب کے موجودہ صدر اور سیکریٹری کافی معاملات پر اختلاف رکھتے ہیں، لیکن ایک بات پر دونوں متفق رہے اور وہ یہ کہ کلب کے محض ستائیس سو ممبران کی ای ووٹنگ نہیں کرائی جا سکتی۔ کورونا وبا کے باعث ای ووٹنگ بہترین حل تھا مگر ایسا نہ کرنے کی جو ‘تکنیکی‘ وجوہات بتائی گئی وہ اکیسویں صدی کے اس دور میں مضحکہ خیز محسوس ہوئیں۔
ای ووٹنگ نہ کرانے کی جو ‘سیاسی‘ وجوہات تھی وہ بتائی نہ گئیں کیونکہ وہ سب پہلے سے جانتے ہیں۔ ای ووٹنگ سے نہ صرف روایتی ڈبل ووٹنگ، ووٹوں کی گنتی میں دھاندلی اور دوسرے طریقوں کی انتخابی دھاندلی ناممکن ہوتی بلکہ ووٹ ڈالنے والے ان حقیقی صحافیوں کی تعداد بھی بڑھ جاتی جو پولنگ والے دن بھی پریس کلب نہیں آتے اور یوں غیر صحافی عناصر لسٹ میں اکثریت کے باعث ہر بار پرانے چہروں کو سامنے لانے میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔
اب کی بار روایتی چہرے اور غیر صحافی عناصر کئی گروپوں میں تقسیم ہوگئے ہیں۔ ایسے میں اگر اصلی صحافی بڑی تعداد میں ووٹ ڈالنے آ گئے تو پریس کلب میں نئی قیادت اور نئی سوچ آنے کا قوی امکان ہے-
نیشنل پریس کلب کے الیکشن ایک ایسے دور میں ہو رہے ہیں جس کو آزادی رائے اور صحافت کے لئیے بد ترین دور قرار دیا جا رہا ہے۔ لیکن بدقسمتی سے اس الیکشن مہم میں اس سیاہ دور کا کوئی خاص ذکر نہیں۔ وہی روایتی پلاٹوں اور رہائشی سکیموں کے کھوکھلے وعدوں کا ایک مقابلہ ہے جو دونوں گروپ کئی سال اقتدار میں رہ کر بھی پورے نہیں کر پائے۔
صحافت اور ہمارے پریس کلبوں کی عزت پیروں تلے روندی جا رہی ہے لیکن انتخابی تقریروں میں پلاٹوں کے وعدوں سے لگتا ہے جیسے کچھ ہوا ہی نہیں۔
پچھلے سال نیشنل پریس کلب میں دو منتخب اراکین پارلیمنٹ کی پریس کلب میں نیوز کانفرنس پر پابندی لگا کر ہماری روایتی قیادت نے خود آزادی اظہار کے اصولوں کو پامال کیا۔ اور اس سال کراچی پریس کلب میں سیکیورٹی فورسز کے زبردستی داخلے نے رہی سہی کسر نکال دی۔ اس سب کے باوجود روایتی چہرے، پرانی تقریروں اور ہتھکنڈوں کے ساتھ نیشنل پریس کلب کے الیکشن میں پھر کھڑے ہیں۔
قصور ہم جیسے ‘پروفیشنل‘ کہلائے جانے والے ان صحافیوں کی اکثریت کا بھی ہے جو سارا سال صحافت کی حالت زار کا رونا تو روتے ہیں مگر ووٹ ڈالنے کے لیے پریس کلب نہیں جاتے۔ یوں ہم پریس کلب اور صحافت کو غیر صحافی عناصر کے رحم و کرم پر چھوڑ دیتے ہیں۔ اب کی بار کچھ باتیں اچھی ہوئیں، الیکشن بینروں اور میڈیا کے دفاتر میں جلوس کی صورت میں مہم پر پابندی رہی۔ لیکن ان نئے اصولوں کی خلاف ورزی بھی نظر آئی۔ دیکھنا یہ ہے کہ اب پولنگ والے دن حالات کیا ہوتے ہیں۔
آج آزادی رائے اور میڈیا کے معاشی بحران کی جو صورت حال ہے اس کی وجہ ملکی سطح پر جمہوریت اور سیاستدانوں کو درپیش غیر جمہوری قوتوں کے ہتھکنڈے بھی ہیں۔ خدشہ ہے کہ پورے ملک کی طرح اب شاید نیشنل پریس کلب میں بھی یہ آخری الیکشن ہوں۔
ان حالات میں اس بات کا امکان ہے کہ غیر جمہوری قوتیں اپنے آئندہ کے منصوبوں کو عملی جامہ پہنانے کے لیے نیشنل پریس کلب اسلام آباد کو ان پرانے مقتدر گروپوں کے پاس ہی دیکھنا چاہیں گی جو دباؤ میں آ کر کسی بھی سیاسی یا جمہوری تحریک کا موثر حصہ نہ بن سکیں- یہ اور بات ہے کہ اپوزیشن جماعتیں خود بھی کسی ایسی تحریک کا آغاز کرنے میں ناکام ہیں۔
میرے اپنے اغوا اور تشدد کے واقعے پر قومی اور عالمی سطح پر آنے والے رد عمل کے باوجود موجودہ حکومت کی مجرمانہ خاموشی اور چند لوگوں کی طرف سے اس کو ‘مبینہ اغوا‘ کا نام دینے کی کوشش آنے والے حالات کا پتہ دی رہی ہے۔ ہماری زندگی کے ہر شعبے میں موجود جمہوریت مخالف قوتوں کے چیلے ایک آخری حملے کے لیے تیار بیٹھے ہیں۔
حکومت، پارلیمنٹ اور انصاف کے اداروں کی بے بسی آئے روز عیاں ہوتی جا رہی ہے۔ سپریم کورٹ دس منٹ میں اغوا کے شواہد مٹ جانے کے خدشے کا اظہار کر کے پولیس کو ایک ماہ کی مہلت عطا کرتی ہے۔ پارلیمنٹ کا اسپیکر قومی اسمبلی کی اس کمیٹی کا اجلاس اپنے خصوصی اختیارات کے تحت منسوخ کر دیتا ہے کہ جس میں آئی جی پولیس اور مجھے طلب کیا گیا تھا-
اب بطور شہری میں خود کو بدستور مغوی نہ سمجھوں تو کیا سمجھوں؟ کیا غیر مشروط معافی کے علاوہ کوئی راستہ نہیں؟ ان حالات سے پولیس کا ایک تفتیشی اور اس سے بالا حکام کیا مطلب لیں گے؟
ایسے میں پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹ کی طرف سے واقعے کی از خود تحقیقات و تفتیش کی نگرانی کا فیصلہ قابل ستائش ہے۔ اللہ کے فضل وکرم اور لوگوں کی دعاؤں سے یوں تو میں آزاد ہوں اور میری قوم بھی آزاد ہے۔ نیشنل پریس کلب اسلام آباد کے الیکشن صرف صحافت ہی نہیں بلکہ ہماری قوم کے جمہوری مستقبل سے متعلق بھی ایک واضح اشارہ ہوں گے۔ اس حوالے سے سترہ اگست کو کلب کے الیکشن کی تاریخ بھی بہت معنی خیز ہے۔ 32 سال پہلے 17 اگست 1988 کو فوجی آمر جنرل ضیا الحق کا دور جہاز کے ایک حادثے کے ساتھ ختم ہو گیا تھا۔ اور اب یہ ہم صحافی ووٹروں پر منحصر ہے کہ ہم اس روز اپنے ووٹ کے ذریعے 17 اگست کی تاریخ کو دہرائیں گے یا یوم آزادی کی تاریخ کو؟
ویسے بھی آج کل غنیم کا پیغام پھیلانے والے کوئی اور نہیں انقلابی شاعر احمد فراز کے اپنے چشم و چراغ ہیں: ”اس گھر کو آگ لگ گئی گھر کے چراغ سے۔‘‘
بشکریہ ڈی ڈبلیو اردو
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر