خدارا اب تو جان لیجئے کہ یوٹیوب کے ذریعے فقط دلوں کی بھڑاس نکالی جاسکتی ہے۔اپنے تئیں ریاستِ وحکومتِ پاکستان کے ’’ترجمان‘‘ ہوئے حق گو افراد اس Appکی بدولت بنائے چینلوں کے ذریعے ہماری خارجہ پالیسی طے نہیں کرسکتے۔ اس ضمن میں حتمی فیصلہ سازی ریاست کے دائمی اداروں کے پاس ہی رہتی ہے۔کوئی ایک فرد خواہ وہ کتنا ہی طاقت ور کیوں نہ ہو ان اداروں کی ترجیحات میں بنیادی تبدیلیاں لانے کی طاقت سے ہمیشہ محروم رہتا ہے۔ یوٹیوب پر ’’پٹ سیاپہ‘‘کا تماشہ لگانے والوںکے برعکس ڈونلڈ ٹرمپ امریکہ کا منتخب صدر ہے۔واشنگٹن کو اس نے Swampیعنی جوہڑ پکارا تھا۔وہ اسے صاف کرنے کے عہد کے ساتھ وائٹ ہائوس پہنچا تھا۔اس کے مخالفین مسلسل الزامات لگاتے رہے کہ روسی انٹیلی جنس کی زیر نگرانی چلائے سوشل میڈیا اکائونٹس نے اسے ہیلری کلنٹن کو ہرانے میں ماہرانہ معاونت فراہم کی تھی۔اس ضمن میں ’’تحقیقات‘‘ بھی ہوئیں۔نتیجہ مگر کچھ بھی برآمد نہ ہوا۔اس حوالے سے اپنے مخالفین کو ’’جھوٹا‘‘ اور ’’عوام دشمن‘‘ پکارنے کے باوجود ٹرمپ یوکرین سے وہ تعاون حاصل نہ کرپایا جس کا وہ بے چینی سے منتظر تھا۔ ایک کائیاں سیاستدان ہوتے ہوئے اسے گزشتہ دو برسوں سے کامل یقین تھا کہ بالآخر ڈیموکریٹ پارٹی جوبائیڈن کو اس کے مقابلے میں صدارتی امیدوار کے طورپر کھڑا کرے گی۔بائیڈن کا بیٹا یوکرین سے کاروباری روابط رکھے ہوئے تھا۔اس نے وہاں کی حکومت پر شدید دبائو ڈالا کہ اس کے خلاف کوئی ’’مالیاتی سکینڈل‘‘ دریافت کیا جائے۔ یوکرین نے اس ضمن میں گرم جوشی نہ دکھائی تو وہ اسے امریکہ کی جانب سے جدید ہتھیار فراہم نہ کرنے کی ضد میں مبتلا ہوگیا۔بائیڈن کے بیٹے کے خلاف مگر ابھی تک کوئی ’’سکینڈل‘‘ دریافت نہیں ہوا۔ یوکرین کے ساتھ امریکی تعلقات اگرچہ واشنگٹن کی ترجیحات کے مطابق ہی چلائے جارہے ہیں۔ چین اور شمالی کوریا کے صدور کے ساتھ ’’ذاتی دوستیاں‘‘ قائم کرتے ہوئے ٹرمپ نے ان دو ممالک کے ساتھ بھی ’’تاریخ‘‘ بنانے کی کوشش کی تھی۔ شمالی کوریا کا ایٹمی پروگرام مگر اب بھی اپنی جگہ موجود ہے۔چین کے ساتھ تو سردجنگ کا آغاز ہوچکا ہے۔نومبر2020میں ٹرمپ اگر وائٹ ہائوس لوٹ آیا تب بھی اس جنگ میں نرمی کے بجائے شدت ہی بڑھتی چلی جائے گی۔بائیڈن کی کامیابی بھی کوئی دوسری ’’خبر‘‘ نہیں لائے گی۔’’مکدی گل‘‘ یہ ہے کہ ریاست کی غلط یا صحیح بنیادوں پر ترجیحات ہوتی ہیں۔ریاستوں کے دائمی ادارے ہی انہیں تشکیل دیتے ہیں۔ ان میں ’’انقلابی‘‘ تبدیلیاں لانا تقریباََ ناممکن ہوا کرتا ہے۔
مذکورہ بالا حقائق کو اپنی فراست کے زعم میں نظرانداز کرتے ہوئے ہمارے کئی دوست گزشتہ چند دنوں سے کامل اعتماد کے ساتھ یہ تاثر اجاگر کررہے تھے کہ ’’کپتان کا پارہ چڑھ گیا ہے‘‘۔ کشمیر کے حوالے سے مبینہ طورپر ایک ’’برادر ملک‘‘ کی جانب سے برتی بے اعتنائی کو وہ اب برداشت کرنے کو ہرگز تیار نہیں ہے۔ شاہ محمود قریشی صاحب نے ایک ٹی وی انٹرویو کے ذریعے ہمارے ’’قومی جذبات‘‘بیان کردئیے۔ اس کے بعد نہایت اشتیاق سے ایک ’’نئے مسلم بلاک‘‘ کا ذکر شروع ہوگیا۔ ترکی کے اردوان اس ملک کے کلیدی کردار تصور ہوئے۔ ملائیشیاء کے ڈاکٹر مہاتیر محمد کی واہ واہ بھی ہوئی اگرچہ وہ ’’دیدہ ور‘‘ اب اپنے ملک کے وزیر اعظم نہیں رہے۔ ہمارے دلوں کو گرمانے کے لئے بالآخر خبر یہ بھی آئی کہ ایران اور ہمارے یار چین کے مابین ایک طویل المدتی Strategicمعاہدے پر دستخط ہوگئے ہیں۔ اس معاہدے کی بدولت بھارت کو چاہ بہار کی بندرگاہ سے ہاتھ دھونا پڑے۔ اس بندرگاہ کی تعمیر نو کے ذریعے وہ افغانستان اور وسط ایشیاء کے دیگر ممالک تک پہنچنے کے لئے جغرافیائی حقائق کو بھلاتے ہوئے ’’متبادل راستہ‘‘ بنانا چاہ رہا تھا۔ اس کا خواب خاک میں مل گیا۔ کہانی مگر ’’ابھی تو شروع ہوتی‘‘ نظر آئی۔ میرے اور آپ جیسے عالمی امور کی گہرائیوں سے قطعی نابلد افراد کو سمجھایا گیا کہ ایران اب اپنا تیل انتہائی سستے داموں چین کو بیچا کرے گا۔ چین کو اس تیل کی قیمت امریکی ڈالروں میں ادا کرنے کی ضرورت نہیں ہوگی۔کسی ’’بارٹر‘‘جیسے نظام کی بدولت وہ اس کی قیمت میں اضافی سرمایہ ڈالتے ہوئے بلکہ ایران میں انفراسٹرکچر کے حوالے سے بے تحاشہ Megaمنصوبوں کی تکمیل میں مصروف ہوجائے گا۔ اپنے وطن کی ہمیشہ خیر مانگتے ہوئے عامیوں کو یہ کہانی بہت پسند آئی۔ ہم ’’کھڑاک تے ہن ہونگے‘‘ والی خوش گمانی سے لطف اندوز ہونا شروع ہوگئے۔
1975سے اپنی ساری عمر صحافت کی نذر کرنے کے بعد گزشتہ چند برسوں سے بتدریج میں اپنی اصل اوقات دریافت کرنا شروع ہوگیاتھا۔ بالآخر بات یہ سمجھ آئی کہ ’’علموں بس کریں او یار‘‘۔ کونے میں بیٹھ کر دہی کھانے کی عادت اپنالی۔ ہر شخص کے پاس مگر ’’ضمیر‘‘ نامی ایک شے بھی ہوتی ہے ۔ چند معاملات پر خاموشی کو یہ مجرمانہ گردانتی ہے۔ اس کے ہاتھوں پریشان ہوا اس ہفتے کے آغاز میں ’’بے اعتنائی‘‘ کے حوالے سے برپا شور کی بابت چند سوالات اٹھانے کو مجبور ہوگیا۔ دل مطمئن ہے کہ پیر کے دن سے Damage Controlکی کاوشیں شروع ہوگئیں۔ رب سے فریادہے کہ وہ بارآور ثابت ہوں۔
2002سے وطن عزیز میں ٹی وی صحافت کو حیران کن فروغ ملا ہے۔ اس فروغ نے مجھ جیسے ’’فرسودہ‘‘ صحافیوں کو بالآخر ’’بکائو میڈیا‘‘ ثابت کیا۔ ’’نظام کہنہ‘‘کے خاتمے کے بعد پاکستان میں کئی باتیں اکثر ’’تاریخ میں پہلی بار ‘‘ ہوتی نظر آنا شروع ہوگئیں۔ تلخ حقیقت مگر یہ ہے کہ تاریخ میں ’’پہلی بار‘‘ والے واقعات شاذ ہی ہوا کرتے ہیں۔ تاریخ نامی شے عموماََ خود کو دہراتی ہی نظر آتی ہے۔ حال ہی میں جس ’’نئے مسلم بلاک‘‘ کا ذکر شدومد سے شروع ہوا ہے اس کے بارے میں ’’تاریخی‘‘ تناظر میں غور کریں تو ’’علاقائی تعاون برائے ترقی‘‘ (RCD)نامی ایک ادارے کو بھی یاد رکھنا ہوگا۔اس کا اہتمام 1960کی دہائی میں ہوا تھا۔ پاکستان،ایران اور ترکی اس کے رکن ممالک تھے۔ اتفاق سے یہ تینوں ملک امریکہ کی سربراہی میں بنائے “CENTO”نامی اتحاد کے رکن بھی تھے۔ آبادی کے اعتبار سے پاکستان RCDکا سب سے بڑا ملک تھا۔ ہمارے وسائل مگر محدود تھے۔ ایران تیل کی دولت سے مالا مال تھا۔ اس کے شہنشاہ کو ماضی کی Persian Empireکی بحالی کا جنو ن بھی لاحق تھا۔ امریکہ نے کمال مکاری سے اس کے جنون کو سراہا اور بتدریج اسے ہمار ے خطے کا ’’تھانے دار‘‘ تسلیم کرناشروع کردیا۔ ’’تھانے داری‘‘ کا رتبہ حاصل کرنے کے بعد شہنشاہ ایران نے تھوڑی ’’خودمختاری‘‘ بھی دکھانا شروع کردی۔ دنیا ان دنوں امریکہ اور سوویت یونین کے مابین سردجنگ کی وجہ سے دوکیمپوں میں بٹی ہوئی تھی۔ شہنشاہ ایران نے مگر سوویت یونین کو اپنے ہاں جدید ترین سٹیل مل قائم کرنے کو مائل کیا۔فرانس جو امریکہ کے مقابلے میں اپنی ’’منفرد شناخت‘‘ اجاگر کرنے کا عادی تھاایران کو جدید طیارے اور ’’بجلی کی پیداوار‘‘ کے لئے ایٹمی ٹیکنالوجی بھی فراہم کرنا شروع ہوگیا۔ 1970کی دہائی شروع ہوتے ہی شہنشاہ دل وجان سے ماضی کی Persian Empireکا احیاء کرنے میں کامیاب ہوتا نظر آیا۔ اس ضمن میں پہلی بار تھانے داری والی دھونس اگرچہ اس نے پاکستان جی ہاں پاکستان پر جمانے کی کوشش کی۔
1971کی جنگ کے بعد پاکستان بہت ہی مشکل حالات میں تھا۔ مشرقی پاکستان کھودینے کے بعد والے پاکستان میں ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت قائم ہوئی۔بلوچستان میں 1970میں ہوئے انتخابات کی بدولت ان دنوں کی نیشنل عوامی پارٹی (NAP)کو صوبائی حکومت دینا پڑی۔ شہنشاہ مگر ’’جمہوری اصولوں‘‘ کا احترام کرنے کو تیار نہ ہوا۔ان دنوں بہت بااثرشمار ہوئے امریکی جریدے Timesکو انٹرویو دیتے ہوئے بلکہ ’’تڑی‘‘ لگائی کہ اگر پاکستان ’’بلوچستان علیحدگی پسندوں‘‘پر قابونہ پاسکاتو وہ یہ فریضہ سرانجام دینے کے لئے اپنی فوج کو استعمال کرنے کو مجبور ہوجائے گا۔ پاکستان کے پاس اس وقت شہنشاہ کو ’’منہ توڑ جواب‘‘ دینے کی قوت میسر نہیں تھی۔ نیپ حکومت کو بلکہ برطرف کرنے کو مجبور ہوا۔ نہایت خاموشی سے مگر بھٹو حکومت نے عرب ممالک سے تعلقات بڑھانا شروع کردئیے۔ متحدہ عرب امارات کے شیخ زید سے گہرے تعلقات استوار کئے۔ سعودی عرب کے شاہ فیصل سے ذاتی قربت بڑھائی۔ اسی دوستی اور قربت نے لاکھوں پاکستانیوں کو ان ممالک میں روزگار فراہم کیا۔ ہمارے ہاں ان کی ترسیلاتِ زر کی بدولت رونق لگنا شروع ہوگئی۔ لاہور میں ہوئی اسلامی سربراہی کانفرنس نے فروری 1974میں اس دوستی کو مزید توانا بنادیا۔ شہنشاہ طیش میں آکر بھارت اور سردار دائود کے افغانستان سے دوستی بڑھانا شروع ہوگیا۔ 1975میں لیکن اسے ادراک ہوا کہ پاکستان کو اب Bullyنہیں کیا جاسکتا۔ اس کی بہن شہزادی اشرف پہلوی تعلقات میں گرم جوشی بحال کرنے بلکہ پاکستان آئی۔ سعودی عرب سے ہمارے مراسم مگر گہرے ترین ہی ہوتے رہے۔ ان تعلقات کا اثر جاننا ہو تو 1977میں بھٹو حکومت کے خلاف چلائی تحریک کا ریکارڈ دیکھئے۔ وہاں آپ کو ایک ’’برادر ملک‘‘ کے سفیر کا اہم ترین کردار بھی نظر آئے گا۔ان کی بدولت ہی حکومت اور اپوزیشن میں مذاکرات شروع ہوئے تھے۔ بات اگرچہ بن نہیں پائی تھی۔ ’’تاریخ‘‘ عرض فقط یہ کرنا ہے ’’تاریخ‘‘ ہی رہتی ہے۔ اس سے مفر ممکن نہیں۔
بشکریہ روزنامہ نوائے وقت
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر