مئی 20, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

گرفتارِ بوبکر و علی ہشیار باش۔۔عامر حسینی

ہر مسلک اور فرقے میں بین المسالک ہم آہنگی کے دُشمن موجود ہیں جن کی روزی روٹی تقسیم کرنے اور لڑانے سے چلتی ہے-

مجھ سمیت کئی اور لوگ بار بار اس خدشے کا اظہار کرتے آئے ہیں کہ پاکستان میں جمہوریت، پارلیمنٹ اور عوامی سیاسی جماعتوں کو بے دست و پا کرنے کا ایجنڈا لیکر چلنے والی قوتیں اپنے ایجنڈے کی راہ میں کھڑی روکاوٹوں کو دور کرنے کے لیے پاکستانی سیاست کو ہمیشہ تاریک دور میں دھکیلنے والے سب سے خوفناک ھتیار یعنی فرقہ واریت اور مذھبی منافرت کو استعمال کرنے کا منصوبہ بنا چُکی ہیں-

اس مرتبہ فرقہ واریت اور مذھبی منافرت کے لیے شیعہ-سُنی لڑائی کی تیاری کی جارہی ہے جو شاید پورے مُلک میں ایسی آگ لگادے گی جسے بجھانا کسی کے بس کی بات نہیں ہوگی –

میں نے اپنی فیس بُک پوسٹوں میں اشرف جلالی پر مقدمہ درج ہونے اور اُس کی گرفتاری کے سامنے آتے ہی یہ خدشہ ظاہر کیا تھا کہ اب اس معاملے کو غلط طور پر شیعہ-سُنی لڑائی بنائی جائے گا-

میں نے سُنی اور شیعہ دونوں اطراف کے اُن علماء اور ذاکرین کو پریس کانفرنسوں اور عدالت کے باہر کسی وکیل کے چیمبر میں بیٹھ کر مناظروں جیسی باتیں کرنے اور سوشل میڈیا پر جذباتی فضا بنانے سے احتراز برتنے پر زور دیا تھا اور کہا تھا کہ عدالت میں طرفین کے وکلاء کو اس کیس سے نمٹنے دیں-

لیکن اشرف جلالی کی عدالت میں پہلی پیشی کے موقعہ پر شیعہ ذاکرین اور کئی ایک غیر معروف شیعہ مولوی بڑی تعداد میں عدالت پہنچے اور وہاں جاکر انہوں نے احاطہ عدالت میں اور ایک وکیل صاحب کے چیمبر میں مناظرہ بازی جیسی صورت حال پیدا کردی اور یہ عدالت سے باہر اپنی ایک عدالت لگانے کے مترادف بات تھی- اگر کوئی مولوی یا ذاکر سمجھتا ہے کہ اشرف جلالی کے خلاف اُس کے پاس آئینی و قانونی دلائل ہیں تو وہ اس کیس میں فریق بننے کی عدالت عالیہ کو درخواست دے ناکہ وہ عدالت سے باہر اپنے جوہر آزماتا پھرے-

فضا بہت مکدر ہوچکی ہے- اسٹبلشمنٹ اور اُن کے پالے ہوئے، دھاندلی کی پیداوار سیاسی جماعتیں اور اُن کی سیاسی یتیم قیادتیں پنجاب کے سیاسی اکھاڑے میں فرقہ وارانہ منافرت کا زھر گھولنا چاہتی ہیں- وہ پنجاب تحفظ بنیاد اسلام مجوزہ قانون لیکر اس لیے ہی آئے ہیں کہ پنجاب میں مختلف فرقوں اور مسالک کے درمیان عدم تحفظ کی ایسی فضا پیدا ہو کہ جوتیوں میں دال بٹے-

پنجاب میں فرقہ پرستی کا زھر گھولنے کا کام نہ تو اہلسنت کے اعتدال پسند اور مقبول علماء و مشائخ کرسکتے ہیں، نہ ہی یہ کام معروف شیعہ علماء کرسکتے ہیں، یہ کام تو اُن سے لیا جاسکتا ہے جو کسی بھی وجہ سے اپنے اپنے مسالک کے مذھبی ووٹرز کا اعتماد کھوبیٹھے ہوں اور اُن کو روز بروز سیاسی میدان میں شکستگی کا سامنا کرنا پڑ رہا ہو- دوسرے لفظوں میں ہم کہہ سکتے ہیں کہ پنجاب کی سیاست میں پاور کے کھیل میں جن کے بُرج اُلٹے پڑے ہیں وہ اسلام خطرے میں ہے، سُنی خطرے میں ہے، ناموس خطرے میں ہے، تحفظ درکار ہے کی دھائی دے رہے ہیں-

پاکستان میں بالعموم اور پنجاب میں بالخصوص کالعدم سپاہ صحابہ پاکستان /اھلسنت والجماعت اپنے قیام سے لیکر اب تک یہ کوشش کرتی آئی ہے کہ پاکستان کی قومی و صوبائی اسمبلیوں سے ایسا کوئی قانون بنے جو سیدھا جاکر شیعہ مسلمانوں کی مذھبی آزادی کو سلب کرلے اور پھر شیعہ مسلمانوں کو پارلیمنٹ غیر مسلم اقلیت قرار دے ڈالے-

اس تنظیم کی کوشش رہی ہے کہ اس مقصد کے لیے یہ پاکستان بھر میں شیعہ-سُنی کے درمیان ایسی معاندانہ فضا پیدا کرے جس سے شیعہ-سُنی خانہ جنگی ہو اور پاکستان دوسرا عراق بنے یا دوسرا شام بن جائے اور پاکستان کے تمام سُنی فرقے و مسالک مل کر شیعہ کے خلاف صف آرا ہوجائیں-

یہ تنظیم اچھے سے سمجھتی ہے کہ اس کے مذموم مقاصد کی راہ میں سب سے بڑی روکاوٹ سُنی اعتدال پسند مذھبی علماء و مشائخ ہیں – اس تنظیم کو بہت غصہ اور شدید نفرت ہوتی ہے جب جمعیت علمائے اسلام-ف، جمعیت اھلحدیث پاکستان – میر ساجد گروپ، جمعیت علمائے پاکستان – نورانی(اب ابوالخیر) گروپ جاکر شیعہ مذھبی سیاسی جماعتوں کے ساتھ مل کر ملی یک جہتی کونسل جیسی باڈی بنالیتی ہیں- اس تنظیم کو بہت غصہ آتا ہے جب سُنی (بریلوی، دیوبندی،اھلحدیث) کی مدارس کی تنظیمات جاکر شیعہ مدارس کی چھاتہ تنظیم سے ملکر اتحاد تنظیمات المدارس بنالیتی ہیں- اس تنظیم کی تکفیری ذھنیت کو سپورٹ کرنے والوں کو اُس وقت آگ لگتی ہے جب مولانا طارق جمیل، ڈاکٹر طاہر القادری اور شہنشاہ نقوی باہم ملتے ہیں اور جاکر مساجد و امامبارگاہوں میں دروس محبت دیتے ہیں-

ہر مسلک اور فرقے میں بین المسالک ہم آہنگی کے دُشمن موجود ہیں جن کی روزی روٹی تقسیم کرنے اور لڑانے سے چلتی ہے-

ڈاکٹر طاہر القادری کے خلاف شروع دن سے بریلوی فرقہ پرست اور اپنی غیر مقبولیت سے خوفزدہ مولویوں کا جمگھٹا لگا ہوا ہے-اُن کو ڈاکٹر طاہر القادری پر سب سے بڑا اعتراض یہ ہے کہ وہ سُنی و شیعہ کو باہم اتفاق اور بھائی چارے سے رہنے کی تلقین کیوں کرتا ہے، وہ دیوبندی، اھلحدیث، شیعہ کی دعوت پر اُن کی مساجد و امام بارگاہوں میں کیوں چلا جاتا ہے- وہ ایک دوسرے کے پیچھے نماز پڑھنے کو حرام قرار کیوں نہیں دیتا؟ وہ دیوبندی، اھلحدیث، شیعہ کو کافر کیوں نہیں کہتا؟ اسی لیے بار بار اُس پر گمراہی و ضلالت کے فتوے لگتے ہیں-

بریلوی فرقہ پرست ہوں یا دیوبندی فرقہ پرست یا غیرمقلد فرقہ پرست، اُن کو ایسے سُنی علماء و مفکرین اور پیر و مشایخ ایک آنکھ نہیں بھاتے جو شیعہ مسلمانوں سے اپنے اختلافات کو بنیاد بناکر سُنی اور شیعہ مسلمانوں کے درمیان اھل. بیت اطہار علیھم السلام کے حوالے سے پائے جانے والے مشترکات کی نفی نہیں کرتے یا وہ شیعہ مسلمانوں کی نسل کُشی، اُن کو کمتر بنائے جانے کے پروسس کا ساتھ نہیں دیتے-

ایسے سُنی علماء، مشائخ اور دانشور تو تکفیری ذھنیت کو ایک آنکھ نہیں بھاتے جو محرم و میلاد سمیت برصغیر کی مشترکہ روادار صوفیانہ مسلم ثقافت کا پرچار کرتے ہوں-

آج پنجاب میں پھر سے وہ فضا پیدا کرنے کی کوشش کی جارہی ہے جو 1929ء اور 1930ء میں پہلے یوپی کے شہر لکھنؤ میں پیدا کی گئی، وہاں پر محرم شروع ہونے سے پہلے مجلس احرار سمیت فرقہ پرستوں نے صحابہ کرام رضوان اللہ اجمعین کی ناموس کا نام لیکر شیعہ-سُنی فساد کی بنیاد رکھی اور یہ فساد یوپی سے سی پی، بہار اور وہاں سے ہوتا ہوا بنگال اور پھر پنجاب پہنچ گیا-

اس فساد اور فرقہ وارانہ تناؤ پر میں نے اپنی مرتب کردہ کتاب ” پاکستان میں شیعہ نسل کُشی: افواہ یا حقیقت” میں ڈاکٹر مشیر الحسن مرحوم کا شاندار تحقیقی مقالہ کا اردو ترجمہ شامل کیا ہے- ڈاکٹر مشیر الحسن نے اس مقالے میں محرم کو مشترکہ سُنی-شیعہ ثقافتی تیوہار قرار دیتے ہوئے کہا کہ اسے متنازعہ فرقہ پرست اور تکفیری ذھنیت نے بنایا-

آج اشرف جلالی ہوں یا خادم رضوی، قاری زوار بہادر ہو یا عبدالرؤف فاروقی، محمد احمد لدھیانوی ہو یا اورنگ زیب فاروقی، معاویہ اعظم ہو یا مسرور جھنگوی اور تو اور چاہے یہ لیاقت بلوچ (اپنے بانی امیر سید مودودی اور اُن کے ساتھی غلام علی کے برعکس) ہو یا فرید پراچہ یہ سب وہی کردار ادا کررہے ہیں جو 1929ء میں مولانا مظہر شمسی، ظفر الملک، شکور لکھنؤی اور کئی ایک احراری ملاؤں نے یوپی، سی پی، پنجاب میں ادا کیا تھا- اور اُس زمانے میں جناح، نہرو، گاندھی جیسے لیڈروں کو بے بس بناڈالا تھا-

چوہدری پرویز اللہی سمیت پنجاب کے جو سیاست دان اس فرقہ وارانہ آگ سے ہاتھ سیکنے میں لگے ہوئے ہیں اور جس طرح سے وہ مبینہ خفیہ و "نامعلوم” کے اشارے پر آزادی تقریر و تحریر کو ناممکن بنانا چاہتے ہیں وہ تاریخ میں ممتاز دولتانہ جیسے سیاست دانوں کا انجام بھی دیکھ لیں….

باز آجائیں، یہ منافرت پہلے ہی ہماری ریاست کے سویلین اور فوجی اداروں میں اپنا راستا بناچُکی ہے اور اس سے ہماری ریاست کی بنیادیں ہل جائیں گی-

میں سمجھتا ہوں کہ اس معاملے پر ہر زمہ دار شہری کو آواز بُلند کرنے کی ضرورت ہے- ہر فرقہ پرست، منافرت انگیز آواز کو مسترد کردیں –

%d bloggers like this: