آج صبح ہمارے گاٶں کے چاچے نِکو مرحوم کا بھتیجا عید مبارک کرنے آیا تو مجھے گاٶں کی اچیاں لمیاں ٹاہلیاں بہت یاد آئیں۔ ماہ رمضان کے شروع ہوتے ہی چاچا نکو ہمارے لیے سپیشل مونج لے کر پینگ کا رسا بنانا شروع کرتا۔
وہ مونج کو پتھر پر رکھ کر لکڑی کی مُنگلی سے کوٹتا حتی کہ وہ دھاگے دھاگے بن جاتی۔پھر بازار سے دو تین رنگ خرید کر اس منج کو ڈبو دیتا رنگ چڑھانے کے بعد سوکھنے کے لیے رکھ دیتا۔ اس طرح اب یہ رسا بٹنے کے تیار ہوتی۔ عید سے ایک ہفتہ پہلے وہ ہمارے گھر رنگ برنگا رسا دے جاتا اور اچھا انعام پاتا۔ہم ٹاہلیوں پر جھولا ڈالتے اور چاند رات سے جھولنا شروع کرتے۔
دو لڑکے پینگ کے سامنے دس فٹ رسی لے کر کھڑے ہوتے اورآہستہ آہستہ پینگ کو پیچھے کی طرف دھکیلتے اور جوں جوں جھولا اٹھتا جاتا لڑکے مزید زور لگاتے اور ہم ٹاہلی کی ٹہنیوں کو چھونے لگتے۔ جب جھولا بہت اونچا ہوتا تو بعض لڑکوں کی چیخیں نکلنے لگتیں اور نیچے والے لڑکے خوب ہستے اور آوازے کستے۔
گاٶں کی لڑکیاں اور عورتیں رات کو جھولا جھولتیں اور خوب شور اٹھتا اور مزید لڑکیاں شور سن کر آجاتیں۔
پھر ہم نے ترقی کی سارے درخت کاٹ کے عمارتیں بنا لیں۔ آج عید کا پہلا دن ہے اور تین بجے درجہ حرارت 44c ہے۔کوئی درختوں کا تازہ ٹھنڈا ہوا کا جھونکا نہیں کوئی تُوتاں دی چھاں نہیں۔ گاٶں کے کاریگر بے کار ہو گیے۔ پہلے یہ پینگ کا رسا لے کر کشاں کشاں ہمارے گھر آتے اور خوشی خوشی اپنا انعام یا معاوضہ لے کر جاتے۔
آج یہ لڑکا سہما سہما عید مبارک کرنے آیا کہ صاحب کا موڈ کیسا ہو گا اور کچھ ملے گا بھی یا نہیں۔ گاٶں کے اپنے اپنے مثبت کردار تھے جو فخر سے پھرتے تھے اور اپنا کام کر کے حق وصول کرتے۔ چاہے وہ لوہار۔ترکھان۔مراسی۔نائی۔
رسے بٹنے والے۔چارپائی بننے والے۔گندم کی فصل کاٹنے والے لیار تھے۔ہم نے سارے کام ان سے چھین لیے اور مشینوں کو دے دیے اور ان کی آس توڑ دی۔ کوئی تو نکلے جو اس آس کی لاج رکھے۔؎
تیرے وعدے پر کہاں تک میرا دل فریب کھائے۔۔۔
کوئی ایسا کر بہانہ میری آس ٹوٹ جائے۔
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر