ی
عید قربان گزر گئی تین چھٹیوں کے دوران بہت ساری خبروں کے ساتھ وارداتیں اور ملاکھڑے ہوئے۔اسی دوران آئی ایس پی آر نے مسئلہ کشیمر اُجاگر کرنے کے لئے ایک گانا ریلیز کیا اور وفاقی حکومت نے اسلام آباد کے کشمیر ہائی وے کا نام بدل کر”شاہراہ سرینگر”رکھ دیا۔
بورڈ نصب کر دیئے گئے ہیں ۔
آئی ایس پی آر کے گانے اور سرینگر روڈ پر سامنے آنے والی آراسے پتہ چلتا ہے کہ لوگ کیا سوچتے ہیں۔سوچنے والوں کے خلاف حب الوطنی کی دو دھاری تلوار سے ایک لشکر اپنے اقدامات میں مصروف ہے۔
درمیان میں ناقدین کے لئے طعنہ ہے کہ ملک چھوڑ کر چلے جائو،اللہ کی شان ہے کہ ماضی کے حملہ آوروں کی اولاد زمین زادوں کو کہتی ہے ہماری ہاں سے ہاں ملاو ورنہ ملک چھوڑ دو۔
فاتحین کی قبضہ گیری والی سوچ نہیں بدلی صدیاں گزر جانے کے باوجود
جس بنیادی بات کو نظر انداز کیا جارہا ہے وہ یہ ہے کہ سول ملٹری قیادت کو چاہیئے کہ وہ پارلیمان کا مشترکہ اجلاس میں آکر یہ بتائیں کہ
”پچھلے برس کے دورہ امریکہ (وائٹ ہائوس وپینٹاگون)کے دوران مسئلہ کشمیر کے حوالے سے کیا طے پایا تھا”
جب تک یہ واضع نہیں ہوجاتا سوال ہوتے رہیں گے اگر کوئی جواب نہیں دیتا تو سوال پر بُرا منانے کی ضرورت بھی نہیں ۔
کشمیری عوام کو ان کی جدوجہد کا ثمر ملنا چاہیئے یہ ان کا پیدائشی حق ہے البتہ یہ سوال اہم ہے کہ5 اگست2019ء کے بعد کے بر صغیر کے نقشہ میں تبدیلی کشمیریوں کی امنگوں کے مطابق نہ ہوئی تو بگاڑ کا پھیلاو بڑھے گا۔
ڈاکٹر ظفر مرزا کی جگہ وزیراعظم نے مشیر صحت کے طور پر ڈاکٹر فیصل سلطان کو مقرر کیا ہے۔
ڈاکٹر فیصل شوکت خانم ہسپتال کے سی ای او ہیں۔وہ وزیراعظم کے ذاتی دوست اور مدد گار ہیں۔کہا جارہا ہے کہ ان کی انتظامی صلاحیت کے پیش نظر ہی انہیں مشیر صحت بنایا گیا قبل ازیں وہ کورونا سے نمٹنے کے لئے اقدامات کرنے والوں میں بھی شامل تھے۔
ان کی تقرری بہر طور وزیراعظم کا صوابدیدی حق ہے۔
بس پچھلے ادوار کے وزرائے اعظم کی جانب سے ایسی تقرریاں اقربا پروری اور ملک دشمنی قرار پاتی تھیں۔
بہر طور ڈاکٹر فیصل سلطان عالمی شہرت کے حامل طبیب ہیں امید کی جانی چاہیئے کہ وہ وزارت صحت کے لئے بہترین انتخاب ثابت ہوں گے۔
البتہ یہ جو وزارت اطلاعات کے ڈیجیٹل ونگ میں تحریک انصاف کے6عدد سوشل میڈیا مجاہدین اعلیٰ منصبوں پر بھرتی ہوئے ہیں اس حوالے سے اٹھائے جانے والے سوالات پر ناک چڑھانے یا غصہ کرنے کی ضرورت نہیں۔
پچھلے دور میں مریم نواز کی نگرانی میں ایک خصوصی میڈیا سیل قائم تھا اس کی تنخواہیں سرکار کے خزانے سے طریقہ کار کے مطابق تو ادا نہیں ہوتی تھیں لیکن تنخواہوں کے لئے رقم جمع کرنے کا جو طریقہ اپنایا گیا تھا اُسے ہم سبھی بھتہ خوری کہا کرتے تھے۔
اب اُس طرح کی باتوں اور الزامات سے بچنے کے لئے پی ٹی آئی کی سوشل میڈیا کے6مردوزن کو بھاری بھر کم تنخواہوں پر وزارت اطلاعات کا حصہ بنالیا گیا۔
سیاسی جماعتیں اپنے کارکنوں کو ملازمتیں دیں یہ کوئی بُری بات نہیں لیکن ایک ایسے وقت میں جب وفاقی حکومت کے ہی ایک حکم کے تحت وفاقی وزارتوں میں سال ڈیڑھ سال سے خالی ہزاروں اسامیوں پر نئی بھرتی کرنے کی بجائے ان اسامیوں کو بچت پروگرام کے تحت ختم ہی کر دیا گیا ہو حکمران جماعت کے 6کارکنوں کی بھاری بھر کم تنخواہوں پر بھرتی غیر منصفانہ ہے۔
گندم بحران پر وفاق اور سندھ ایک دوسرے کے مد مقابل ہیں۔وفاقی وزیراطلاعات سینیٹر شبلی فراز نے سوموار کے روز ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا
”مہنگے آٹا کی ذمہ داری سندھ حکومت ہے گورنر راج کی بات سے پہلے اپنی روش بدلے”
یہاں اپنے پڑھنے والوں کو ایک دلچسپ بات بتانا ضروری ہے وفاقی وزیر فوڈ سیکورٹی سید فخر امام نے دس پندرہ دن قبل انکشاف کیا تھا کہ حکومت نے خریدی تو66لاکھ ٹن گندم تھی موجودہ60لاکھ ہے6لاکھ ٹن گندم کہاں گئی۔انہوں نے سوموار کو پھر بتایا کہ66لاکھ ٹن گندم خریدی گئی۔
بہت ادب کے ساتھ سید فخر امام کی خدمت میں یہ عرض کرنا پڑے گا حضور سندھ حکومت پر تو بات بعد میں کریں گے پہلے6لاکھ ٹن گندم بارے تو بتائیں وہ کہاں گئی
کیا60کو66بتا کر پیش کیا گیا کاغذوں میں؟
ایسا ہے تو6لاکھ ٹن گندم کی قیمت کس کی جیب میں گئی؟
سندھ حکومت یا کسی بھی دوسرے صوبے کو اپنا سٹاک ریلیز کرنے کے لئے کہنے سے قبل اربوں روپے کی اس ڈکیتی کے مرتکب تو سامنے لائیں۔
جہاں تک سندھ میں گورنر راج کی بات پہنچنے والی ہلکی پھلکی دھمکی کا تعلق ہے تو یہ بلاوجہ نہیں وزیراطلاعات کے منہ سے وہ بات نکل گئی جس پر ہفتہ دس دن قبل وفاقی کابینہ میں مشاورت ہوچکی
شبلی فراز چونکہ ابھی”سیاسی مہارت” سے کورے ہیں اس لئے جذبات میں انہوں نے وہ بات کہہ دی جس کے لیے اس منصوبے پر پر عمل کے لئے وزیراعظم کے ایک مشیر بابر اعوان کی سربراہی میں کمیٹی بنائی گئی ہے کہ وہ سندھ میں وفاق کی آئین کے آرٹیکل149کے تحت کارروائی کے لئے”مقدمہ” تیار کریں۔
آخری بات یہ ہے کہ حبس بڑھ رہا ہے ۔
اب تو بات کرتے اور لکھتے ہوئے بھی ڈرلگتا ہے سٹریٹ جسٹس کا بناماحول ہمیں کہاں لیجا کھڑا کرے یہ سوچ کر ہی انسان لرز جاتا ہے۔
ایسا لگتا ہے کہ جان بوجھ کر تنگ نظری تعصبات اور سٹریٹ جسٹس کی حوصلہ افزائی کی جارہی ہے تاکہ ان بعض اقدامات پر ڈر کے مارے کوئی بات نہ کرے جن کی وجہ سے آنے والے ماہ وسال کے دوران ریاست کی گرفت مزید سخت ہو جائے گی۔
مثال کے طور پر یکساں تعلیمی نصاب کے معاملے کو ہی لے لیجئے۔
وفاقی حکومت اس حوالے سے اہل دانش اور ماہرین تعلیم کی کوئی بات سننے کو تیار نہیں ایک مخصوص فہم کے لوگوں سے اس حوالے سے مشاورت کر رہے ہیں جس سے یہ تاثر پختہ ہورہا ہے یکساں تعلیمی نصاب نئے مسائل تضادات اور نفرتوں کے دروازے کھولنے میں معان بنے گا۔
بدھ 5 اگست 2020 ء
روزنامہ مشرق پشاور
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر