جناح نے پاکستان کی پہلی دستور ساز اسمبلی میں پاکستانی قوم کی تعریف متعین کی اور پاکستان کی تخلیق کے بعد قولی اور عملی دونوں اعتبار سے "دو قومی نظریہ” کے خاتمے کا اعلان کردیا لیکن اُن کی ماتحت بیوروکریسی نے اور اُن کے ساتھی بشمول وزیراعظم نے جناح کی پہلی تقریر میں "پاکستانی قوم” کی تعریف کو مسترد کردیا- اُن کی تقریر ریڈیو پاکستان پر تکنیکی خرابی کے سبب سُنی نہ جاسکی اور اگلے دن کے تمام اخبارات میں پاکستانی قوم کی تعریف والا حصہ غائب تھا- یہ ریاست پاکستان کی شاید پہلی بڑی اہم پریس ایڈوائس تھی جو پاکستان کے بانی کی تقریر کو سنسر کرنے کے لیے دی گئی تھی-
اس زمانے میں کہا جاتا ہے کہ یہ مغربی پنجاب کے جاگیردار سیاست دانوں اور آج کے ہریانہ، ہندوستانی پنجاب، دہلی، یوپی، سی پی سے ہجرت کرکے آنے والے بڑے مہاجر مسلم لیگی حاکم گھرانوں، وردی و بے وردی نوکر شاہی میں مقامی پنجابی و مہاجر پنجابی و ہریانوی و اردو اسپیکنگ مہاجر افسران کی باہمی ملی بھگت کے بغیر ممکن نہیں تھا جن کا سربراہ اس وقت لیاقت علی خان بنا ہوا تھا-
جناح نے پاکستان کی پہلی آئین ساز اسمبلی میں اپنی کابینہ کی تشکیل کرکے یہ عملاً ثابت کرنے کی کوشش کی کہ پاکستانی قوم کا فرد ہونے کی حثیت سے سیاسی معنوں میں سب کے حقوق برابر کے ہوں گے، ریاست اور اس کے باشندے وقت گزرنے کے ساتھ بطور شہری نہ تو اپنی مذھبی شناخت کے سبب نہ اپنی نسلی شناخت کے سبب کسی امتیازی قانون یا سلوک کا نشانہ نہیں بنیں گے-
لیکن خود جناح نے پاکستانی قومیت کے معنوں میں اردو کو رابطے کی زبان کی بجائے اسے بنگالیوں اور دیگر اقوام پر مسلط کرنے کا اعلان کرکے لسانی شناخت پر امتیازی سلوک کا مظاہرہ کیا- ایک طرح سے جناح کی وہ تقریر جو نئی پاکستانی قوم کی تعریف متعین کرتی تھی وہ پاکستانی قومیت کا سیکولر تصور تو تھی لیکن اُس میں لسانی و نسلی شناختوں کو سیاسی معانی میں شامل کرنے سے واضح انکار موجود تھا-
پاکستان کی جاگیردار،گماشتہ سرمایہ سیاسی اشرافیہ اور وردی بے وردی نوکر شاہی ریاستی ڈھانچے نے جناح کے سیکولر تصور پاکستانی قوم کو تو رد کرکے "دو قومی نظریہ” کی نئی مذھبی تعبیر کو پاکستانی تصور قومیت میں 1949ء کو جناح کی وفات کے بمشکل ڈھائی مہینوں بعد قرارداد ِ مقاصد 15 مارچ کو منظور کرالی-
یہ قرارداد اُس زمانے میں مشرقی بنگال میں سیکولر جمہوری پاکستانی قومیت کے علمبردار مڈل کلاس، ورکنگ کلاس اور غریب کسان طبقات کی مقبول سیاسی قیادت اور اُن کے ووٹرز کے خلاف سازش تھی جس کا اولین نشانہ ہندؤ برادری بنی اور سب سے زیادہ نقصان دلت جاتی کے بنگالیوں نے اٹھایا-
دستور ساز اسمبلی میں موجود کانگریس، یونینسٹ، سوشلسٹ ممبران اسمبلی جن میں زیادہ تر کا تعلق مشرقی بنگال سے تھا-
اور صرف دو سال بعد یعنی 1950ء میں بنگالیوں کو نسلی اور لسانی اور پھر مذھبی بنیادوں پر امتیازی سلوک کا ہی نہیں بلکہ بدترین فوجی آپریشن کا سامنا کرنا پڑا جس کی روداد ہمیں جوگندر سنگھ منڈل کے آخری الوداعی خط میں ملتی ہے- ڈھاکہ، چٹاکانگ، سہلٹ سمیت مشرقی بنگال میں بڑے پیمانے پر 1950ء میں ہندؤ-مسلم فسادات ہوئے جس کے نتیجے میں مشرقی بنگال میں 1947ء سے بھی زیادہ بڑے پیمانے پر ہندؤ جاتی اور دلت کو ہجرت دوبارہ کرنا پڑی-
گویا پاکستانی قوم کی سیکولر تعریف سے مذھبی تعریف کا سفر پہلے ہندؤ اور دلت کو براہ راست نکالنے کا سفر تھا جس نے بہرحال کرسچن، پارسی کو بھی نکال باہر کیا-
اس دوران خود پاکستانی قوم کی مذھبی تعریف متعین کرتے ہوئے مسلم کی تعریف کا قضیہ تو خود ایک نیا جھگڑا اور تنازعہ جنم دے رہا تھا، پہلے تو خود جناح اس زد میں آئے-
اُن کی اپنی مذھبی شناخت کے قضیے کو تہہ کے نیچے سے اوپر سطح پر اٹھاکر عین اُن کی موت کے وقت اُن کے جنازے کے وقت پر کھڑا کردیا گیا-
جناح اپنی وصیت اور رتی بائی کے ساتھ نکاح کے کاغذات کے مطابق اثناء عشری شیعہ تھا اور اُن کے جنازے کے لیے اُن کے گھر والوں کی طرف سے فاطمہ جناح نے سید انیس الحسنین کو گورنر جنرل ہاؤس میں نماز جنازہ ادا کرنے کو کہا، انھوں نے ہی جناح کو غسل دیا تھا….. سید ہاشم رضا، سیٹھ یوسف ہارون اور دیگر کئی شیعہ زعما وہاں موجود تھے لیکن اس دوران ریاست کا وزیراعظم لیاقت علی خان گورنر جنرل ہاؤس میں ہوئے اس جنازے میں شریک نہ ہوئے-
سید ھاشم رضا، سید انیس الحسنین تو یہ کہتے ہیں کہ وہ سُنی ہونے کی وجہ سے گورنر جنرل ہاؤس میں ادا ہونے والی نماز جنازہ میں شریک نہ ہوئے(سندھ ہائیکورٹ میں فاطمہ جناح نے جب جناح کی وراثت کو شیعی اثناعشری فقہ کے مطابق تقسیم کرنے کا مقدمہ کیا تو انیس الحسنین، سید ھاشم رضا، سیٹھ یوسف ہارون سمیت اس جنازے میں شریک گواہوں نے بیانات قلمبند کروائے تھے اور فاطمہ جناح یہ مقدمہ جیت گئی تھیں-)
فاطمہ جناح کے حق میں جناح 1939ء میں ہی وصیت درج کردی تھی اور اُس وصیت میں جناح نے اپنا مذھب اثناءعشری اور زات کھوجہ لکھی تھی، یہ وصیت بمبئی ہائیکورٹ سے تصدیق شدہ تھی اور اس کی مصدقہ کاپی فاطمہ جناح نے سندھ ہائیکورٹ میں جمع کرائی تھی- لیکن لیاقت علی خان بھی اس مقدمے میں فاطمہ جناح کے ساتھ تھے –
اسی وصیت کی بنا پر بھارتی سپریم کورٹ نے جناح کی بیٹی کا مالابارہل پر موجود جناح کی رہائش گاہ کی ملکیت کا دعویٰ مسترد کردیا تھا کیونکہ بیٹی نے جناح کے کھوجہ اسماعیلی ہونے کا دعویٰ کیا جو اس مصدقہ وصیت کی رو سے جھوٹ قرار پایا تھا https://www.thehindu.com/…/Jinnahr…/article16634416.ece/amp/
کیمبرج سے چھپی کتاب
Mother of the Nation Fatima Jinnah – A tales of three cities
پیر رضا بھائی نے بھی اہم معلومات بہم پہنچائی ہیں، اس ساری تفصیل سے یہ اندازہ ہوجاتا ہے کہ فاطمہ جناح نے لیاقت علی خان کو اُن کی سُنی شناخت کے سبب جنازے سے نہیں روکا بلکہ اس میں فاطمہ جناح کے لیاقت علی خان کی بیوی رعنا لیاقت سے اختلافات اور بقول فاطمہ جناح کے لیاقت علی خان کا جناح سے آخری دنوں میں روا رکھا گیا رویہ تھا- کے ایچ خورشید کی اھلیہ ثریا خورشید نے فاطمہ جناح کی یادداشتیں اکٹھی کیں جن میں یہ مسئلہ تفصیل سے درج ہے-
تو ہم کہہ سکتے ہیں فاطمہ جناح نے لیاقت علی خان کو اُن کے سُنی ہونے کی وجہ سے نہیں روکا، نہ ہی کسی اور وجہ سے اُن کو روکا گیا کیونکہ کوئی شہادت دستیاب نہیں ہے قیاس یہ کیا جاسکتا ہے کہ لیاقت علی خان خود ہی کمرے میں شیعہ اثناعشری طریقے سے ادا کی جانے والی نماز جنازہ میں شریک نہ ہوئے ہوں مبادا فاطمہ جناح اُن کو ایسا کرنے سے روک دیں-
لیکن لیاقت علی خان نے جناح کا سرکاری نماز جنازہ سُنی طریقے سے ادا کرنے کا فیصلہ بطور سربراہ ریاست لیا اور انھوں اس کے لیے ایک ایسے شخض کو چُنا جو اعلانیہ شیعہ اثناعشریہ کے کافر ہونے کا قائل تھا اور مولانا شبیر احمد عثمانی نے جناح کے سُنی ہوجانے کا دعویٰ کیا جس کی تصدیق آج تک کسی دستاویزی ثبوت سے نہیں ہوئی، دستاویزی ثبوت تو جناح کو شیعہ اثناء عشری کھوجہ ثابت کرتے ہیں-
خود فاطمہ جناح اور وزیراعظم لیاقت علی خان 1948ء میں جناح کی جائیداد کی تقسیم کے لیے کراچی کورٹ میں پیش ہوئے اور انھوں نے یہ دعویٰ جمع کروایا کہ جناح ذات کے کھوجا اور مذھب کے اعتبار سے اثناءعشری تھے- شیریں بائی جناح کی طرف سے دائر کردہ مقدمے میں بھی کورٹ نے شیریں بائی جناح کا یہ دعویٰ تسلیم کرلیا تھا کہ جناح کھوجا شیعہ اثناعشری تھے- جناح کی دو بہنوں کے شوہروں میں سے ایک نے یہ دعویٰ کیا تھا کہ جناح کی بہنوں نے جب ممبئی کے سُنی کھوجا فیملیز میں شادی کی تو جناح سُنی ہوگئے تھے اور شریف الدین پیرزادہ جو ہر آمر حکومت کو مدد فراہم کرتے آیے تھے 1970ء میں شیریں جناح کے دعوے کے جواب میں یہ بیان دینے حاضر ہوئے کہ جناح اپنی بہنوں کی سُنی خاندان میں شادی کے بعد سُنی ہوگئے تھے لیکن یہ بیان عدالت نے مسترد کردیا تھا-
شیلا ریڈی نے رتی بائی پر لکھی کتاب میں بڑی تفصیل سے بتایا ہے کہ جب کھوجا اسماعیلی برادری ممبئی نے جب رتی کو نکاح کے لیے ضروری عدالت میں پیش کرنے کے لیے جماعت کا رُکن ہونے کا سرٹیفیکٹ پیش دینے سے انکار کیا تھا تو اُن کے دوست کے بیٹے راجا آف محمودآباد نے اثناءعشری شیعہ مولوی کا انتظام کیا اور نکاح بمطابق فقہ جعفریہ پڑھایا گیا اور اس کے بعد جناح ایک طرح سے ممبئی کی کھوجا اسماعیلی برادری سے لاتعلق سے ہوگئے-
اب آپ یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ جناح کو اصولی طور پر تھیاکریسی کے جھگڑوں سے کوئی لینا دینا نہیں تھا، ایک عدالتی ضرورت پوری کرنے کے لیے جب کھوجا اسماعیلی شیعہ ہونے کی سند رتی بائی کو دینے سے انکار ہوا تو انہوں نے اپنی ضرورت فقہ جعفریہ سے پوری کرلی-
جناح اور رتی بائی کے نکاح نامے کی کاپی آج بھی ممبئی کی عدالت کے ریکارڈ روم میں موجود ہے اور رضی خواجہ، شیلا ریڈی اور ازھر منیر نے اپنی کتابوں میں اس کا زکر حوالوں کے ساتھ کردیا ہے جس کے مطابق رتی اسلام قبول کرکے اور جناح اسماعیلی فقہ ترک کرکے فقہ جعفریہ میں داخل ہوگئے تھے-
اس کا ایک دوسرا مطلب یہ بھی تھا کہ شبیر احمد عثمانی نے سوال کرنے والے کو جواب دے کر یہ بتادیا کہ اگر اُن کو جناح کے شیعہ اثناعشری ہونے کا یقین ہوتا تو وہ نماز جنازہ نہ پڑھاتے-
گویا جناح کے فوت ہونے کے بعد پاکستان کی ریاست کی باگ دوڑ جن کے ہاتھ آئی انھوں نے پاکستان قومیت کی مذھبی بنیاد کی تعمیر ہی نہیں کی بلکہ وہ اُس سے آگے مُسلمان کسے کہا جاسکتا ہے اور نہیں کی تھیالوجیکل بحث کی طرف بھی چلے گئے اور اس کا مذھبی سیاست کا پہلا نشانہ خود بانی پاکستان اور اُن کی بہن بنیں-
حالانکہ عام طور پر یہ سمجھا جاتا ہے کہ لیاقت علی خان نے ریاست کو جب تھیاکریٹک ریاست میں بدلنے کی طرف قدم بڑھایا تو اُن کی اس سیاست کا پہلا نشانہ مغربی پاکستان میں احمدی تھے جبکہ ایسا نہیں تھا-
کرانیکل ترتیب بتاتی ہے لیاقت علی خان نے تھیاکریٹک سیاست کا پہلا نشانہ جناح اور اُن کی بہن فاطمہ جناح کو بنایا ناکہ سرطفر اللہ خان کو بلکہ اُن کی زندگی میں تو سرظفراللہ خان کو وزیر خارجہ کے منصب پر فائز رہے اور یہ کہیں 1954ء میں ہوا کہ اُن کو استعفا دینا پڑا اور وہ یواین بھیج دیے گئے- کمیونل ایشو تھیاکریٹک ایشو میں بدلنے کے بعد شیعہ-سُنی تنازعے میں بدل دیا گیا اور اس سب کے پیچھے ہوس اقتدار پوشیدہ تھی- اور سارے اختیارات سمیٹنے اور اپنی ذات میں جمع کرنے کی دوڑ نے لیاقت علی خان کو لیاقت باغ میں گولی سے مروادیا-
اگر سچائی اور دیانت داری سے پاکستان کی ابتدائی تاریخ کو دیکھا جائے تو یہ کہنا آسان ہوگا کہ جمہوریت دشمنی اور وقتی مفادات کی خاطر جناح کے سیکولر تصور پاکستانی قومیت کو لیاقت علی خان نے تھیاکریٹک تصور میں بدلا اور پھر اُسی تھیاکریٹک تصور کو مزید نچلی سطح پر جاکر اُس وقت اسٹبلشمنٹ، جاگیرداروں، سرمایہ داروں اور ملاؤں نے شیعہ-سُنی کے نام پر جناح اور فاطمہ جناح کے خلاف استعمال کیا جس کے لیے اُسے ایک کیمپ کو اگر شبیر عثمانی میسر آیا تو دوسری طرف فاطمہ جناح کے کیمپ میں بھی انیس الحسنین، یوسف ہارون، سید ھاشم رضا میسر آگئے جنھوں نے فرقہ وارانہ کارڈ کے پیچھے موجود اصل سیاست کو دیکھنے کی کوشش نہ کی-
اور وہ سیکولر پاکستانی قومیت کے جناح کے تصور پر غور و فکر کرنے کی بجائے جناح اور فاطمہ جناح کی ذاتی زندگی میں مذھبی شناخت کو جناح کے بقول سیاست اور ریاست کے میدان میں اور پاکستان کے شہری ہونے کے اعتبار سے حقوق کے سوال میں کہیں آڑے نہیں آتی تھی-
میں آج جب پنجاب تحفظ بنیاد اسلام بل پر سوشل میڈیا پر فرقہ وارانہ سرپھٹول دیکھ رہا ہوں تو میرے زہن میں پاکستان کی تاریخ میں جناح کی وفات کے فوری بعد لیاقت علی خان کے حکومت کا دورانیہ جو بہت مختصر تھا یعنی ستمبر 1948ء سے 1951ء مشکل سے پونے تین سال اور جناح کی نماز جنازہ سے 15 مارچ 1949ء قراداد مقاصد کی منظوری جس کی تائید میں سرظفراللہ خان نے بھی بڑی جوشیلی تقریر اسمبلی میں کی تھی اگرچہ آخری عمر میں اپنی سوانح عمری لکھتے وقت انھوں نے جناح کے دو نمازِ جنازہ میں شرکت نہ کرنے کو خالص تھیاکریٹک انداز میں دیکھا لیکن وہ اُس وقت بھی لیاقت علی خان کی جناح اور اُس کی بہن کے خلاف تھیاکریٹک اور فرقہ وارانہ ھتیار کے استعمال بارے سچ نہ لکھ پائے-
پاکستان کی حکمران اشرافیہ مذھب اور فرقوں کی شناخت کا ویسے ہی سیاسی رساکشی اور اقتدار کے کھیل میں ایک پراکسی کے طور پر استعمال کررہی تھی جیسے اس نے اردو، ون یونٹ، اینٹی پشتون، اینٹی بلوچ، اینٹی سندھی ، اینٹی بنگالی خیالات پر مبنی یک نوعی شاؤنزم کا استعمال کیا-
آج بھی یہ یہی کررہی ہے-اپنی نااہلی اور عوام کو بدحال بناکر حکمران اشرافیہ کے مختلف دھڑے تھیاکریسی، نیشنلزم اور زیلی لسانی و نسل پرستانہ شاؤنزم کو پراکسیز کے طور پر استعمال کررہی ہے فرق صرف اتنا ہے کہ آج حکمران اشرافیہ کا بالادست طبقہ یا سماجی گروہ جرنیل کرنیل اور نامعلوم ہیں باقی اُن کی کٹھ پتلیاں……..
پسِ نوشت: مجھے اپنے تجزیے کے حتمی ہونے پر اصرار نہیں ہے
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر