جام پور
( وقائع نگار )
ڈپٹی کمشنر راجن پور ذوالفقارعلی نے کہا ہے کہ محرم الحرام ہمیں ایثار، قربانی اور مذہبی
رواداری کا درس دیتا ہے۔ امسال عاشورہ کے موقع پر امن و امان کو قائم رکھنے کے لیے تمام تر کوششیں کی جائیں گی۔
اس حوالے سے ضلع راجن پور کے تمام مکاتب فکر کے علماءکرام کا کردار ہمیشہ سے مثالی رہا ہے۔ انتظامی افسران عاشورہ کے انتظامات کو زیادہ سے زیادہ بہتر بنانے کے لیے اپنی تمام تر
توانائیاں صرف کریں اور عاشورہ کے دوران آنے والی رکاوٹوں کو بغیر کسی پیچیدگی کے فوری طور پر حل کیا جائے۔
یہ باتیں انہوں نے ایڈیشنل ڈپٹی کمشنر ریونیو ظہور حسین بھٹہ، تینوں اسسٹنٹ کمشنرز اور مختلف مکاتب فکر کے علماءکرام سے ملاقات کرتے ہوئے کہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ
عاشورہ کے دوران امن و امان کو قائم رکھنا ضلعی انتظامیہ کی اولین ترجیح ہے۔ تمام مجالس، جلوسوں اور دیگر مذہبی سرگرمیوں میں آنے والے تمام ا عزاداروں کو فول پروف سیکیورٹی مہیا کی جائے گی
اور لوگوں کی جان و مال کی حفاظت پر کسی قسم کا سمجھوتا نہیں کیا جائے گا ۔ڈپٹی کمشنر نے ممبران امن کمیٹی راجن پور میں مذہبی رواداری کے قائم رکھنے پر شکریہ ادا کیا
اور ان کے کردار کی تعریف کی۔ اس موقع پر شریک تمام ممبران امن کمیٹی نے عاشورہ کے دوران ضلعی انتظامیہ کو ہر ممکن مدد کرنے کی یقین دہانی کراتے ہوئے کہا کہ
ان مقدس ایام میں محراب وممبر کا تقدس ہر صورت برقرار رکھا جائے گا اور کسی کو بھی مذہب کی آڑ میں شرپسندی کی اجازت نہیں دی جائے گی
: جامپور
( وقائع نگار )
ملک بھر کے دیگر حصوں کی طرح ضلع راجن پور میں بھی مقبوضہ جموں و کشمیر پر
بھارتی فوج کا قبضہ کے ایک سال مکمل ہونے پر ”یوم استحصال کشمیر “منایا گیا۔” یوم استحصال کشمیر“ کے حوالے سے ڈپٹی کمشنر کمپلیکس میں بنائے گئے
علامتی مقام مظفرآباد سے احتجاجی ریلی شروع ہوئی اور فخر جہاں چوک پر علامتی طور پر بنائے گئے سری نگر مقام پر ختم ہوئی۔
ریلی کی قیادت ڈپٹی کمشنر راجن پور ذوالفقار علی، ڈی پی اواحسن سیف اللہ، ممبران صوبائی اسمبلی سردارفاروق امان اللہ خان دریشک ،اویس خان دریشک اور دیگر سیاسی قائدین نے کی۔
ریلی میں تمام مکاتب فکر کی بڑی تعداد نے بھرپور شرکت کی۔ ریلی میں شریک تمام افراد کشمیریوں سے اظہار یکجہتی اور دنیا کے سامنے بھارتی ظلم اور جبر کو دکھانے کے لئے
کالی ٹوپیاں و ماسک پہن رکھے تھے اور بازوں پر کالی پٹیاں باندھ رکھی تھیں۔ ریلی میں شریک تمام افراد نے کورونا سے بچاؤ کی تدابیر اختیار کر رکھی تھیں۔
ریلی کے اختتامی مقام پر مختصر تقریب ہوئی۔ جس میں ریجنل پولیس آفیسر ڈی جی خان عمران احمر نے خصوصی شرکت کی۔ تقریب سے خطاب کرتے ہوئے
ممبران صوبائی اسمبلی سردار فاروق امان اللہ خان دریشک، اویس خان دریشک، ریجنل پولیس آفیسر عمران احمر، ڈپٹی کمشنر ذوالفقار علی اور دیگر مقامی سیاسی،
سماجی قائدین نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ وزیراعظم پاکستان عمران خان کی ولولہ انگیز قیادت میں بھارت کا مکروہ چہرہ اور مودی کی اقلیت دشمن پالیسی بے نقاب ہو چکی ہے۔
وہ وقت دور نہیں جب سری نگر میں سبز ہلالی پرچم لہرائے گا اور کشمیری آزاد فضا میں سانس لے سکیں گے ۔
مقررین نے مزید کہا کہ عالمی طاقتیں دوہرا معیار ترک کر کے کشمیر کی آزادی کے لیے سنجیدہ اقدامات کریں۔ کیونکہ دنیا کا کوئی بھی مذہب کسی کو بھی طاقت کے زور پر قید رکھنے کی اجازت نہیں دیتا۔
اس موقع پر ڈپٹی کمشنر نے فخر جہاں روڈ کو سرینگر (کشمیر) روڈ رکھنے کی قرارداد پیش کی۔ جس سے تمام سیاسی،
سماجی قائدین اور عوام نے فوری اور متفقہ طور پر منظور کرلیا ۔مذکورہ سڑک کا نام سرینگر ( کشمیر ) روڈ رکھ دیا گیا۔
کرونا کے خطرات وخدشات کم ھوئے ھیں ختم نہیں ۔۔۔۔تحریر آفتاب نواز مستوئی جام پور ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔کوڈو 19ایک نئی وبائی بیماری ھے
جس نے ھر چھوٹے بڑے ملک کو نشانہ بنایا جسکے باعث دنیا بھر میں لاکھوں انسان موت کے منہ میں جا چکے ھیں دنیا بھر کی معیشت تباھی کے دھانے پر جا چکی ھے
کروڑوں افراد بے روزگار ھو چکے ھیں کیونکہ اس بیماری کا وائرس چکنائی کے غلاف میں چھپا ھوتا ھے اس لیئے اسے کرونا وائرس کا نام دیا گیا ھے ۔
پاکستان میں اس وقت تک لاکھوں کی تعداد میں لوگ متاثر ھوئے کئی ھزار افراد جان سے ھاتھ دھو چکے ھیں اسکے باوجود پھر بھی اللہ کا لاکھ شکر ھے کہ
دنیا بھر میں دیگر ممالک کی نسبت پاکستان میں شرح اموات انتہائی کم رھی ایک محدود اندازے کے مطابق یہ شرح 2 فیصد رھی البتہ پاکستان میں اس بیماری سے صحت یاب ھونے والے
افراد کی شرح 36 % ھے ۔۔گو کہ دیگر ممالک کی حکومتوں کی طرح پاکستان کی وفاقی اور صوبائی حکومتوں نے نہایت ذمہ دارانہ انداز میں اس بیماری سے اپنے شہریوں کو
محفوظ بنانے کیلئیے ھر سطح پر متعدد اقدامات کئیے جسکے کافی حد تک مثبت نتائج بھی آھستہ آھستہ آنا شروع ھو نے لگے تھے کہ عید الفطر پر تمام پابندیوں میں نرمی اختیار کرنے کا
لوگوں نے کسی حد تک ناجائز فائدہ اٹھایا بازاروں میں ھجوم سینیٹائزر ماسک کے استعمال سے اجتناب اور حکومتی ایس او پیز کی پابندی نہ کرنے کے باعث اس وباء کی پھر سے
ایک زور دار لہر چل نکلی جو پنجاب اور بالخصوص جنوبی پنجاب کے متعدد علاقوں مءں پھیلتی چلی گئی جس پر پنجاب حکومت کو ایک مرتبہ پھر سختی کرنا پڑی ۔جہاں حکومتی سطح پر مختلف ذرائع سے لوگوں کو اس وباء سے بچنے کیلئیے آگاھی دی جاتی رھی
وھاں سول سوسائٹی کی غیر منافع بخش تنظیموں نے بھی اپنا بھر پور کردار ادا کیا آواز فاونڈیشن پاکستان کے اشتراک سے اجالا پروگرام کے تحت نیلاب راجن پور نے بھی ضلع راجن پور میں
اپنا موثر کردار ادا کیا ضلعی انتظامیہ اور محکمہ سوشل ویلفئیر کی مشاورت سے اس ضمن میں موثر آگاھی مہم چلائی گئی
اس دوران ایک سروے کے دوران یہ بھی معلوم ھوا کہ پنجاب کا سب سے آخری اور پسماندہ ضلع جسکی 80 % ،آبادی کے ذرائع آمدنی و گزر اوات کا دارو مدار کھیتی باڑی بھیڑ بکریاں ودیگر
مویشی پالنے اور محنت مزدوری پر ھے اس وباء کے دوران معاشی طور پر بھی کافی حد تک متاثر ھوا منڈی مویشیان پر پابندی تعمیراتی کاموں پر پابندی سے یہ طبقہ بہت پیچھے چلا گیا
چھوٹے دوکاندار ریڑھی بان رکشہ گدھا گاڑی چلا کر بچوں کا پیٹ پالنے والے فاقوں کا شکار ھونے کے ساتھ ساتھ مقروض ھوتے چلے گئے
جس سے ان کی سماجی زندگی پر بھی گہرے اثرات مرتب ھوئے سماجی رابطوں میں کمی اور معاشی بد حالی نے اکثریت کو ڈیپریشن ۔چڑ چڑا پن اور عدم برداشت کے رویوں کا شکار کر دیا
اس دوران چھوٹی چھوٹی باتوں پر گھریلو جھگڑوں اور خواتین پر تشدد کے واقعات میں بھی کسی حد تک اضافہ ھوا۔
اسی طرح خواتین جو کھیتوں میں کام کاج کرتی تھیں یا مختلف گھروں میں کام کرتی تھیں وہ بے روزگار ھوئیں ساتھ ساتھ گھریلو سطح پر چھوٹے کاروبار کرنے والی خواتین بھی معاشی بد حالی کا شکار ھوئیں شادی بیاہ کی تقریبات پر پابندی سے ڈانسر خواجہ سرا ان سے
متعلقہ دیگر لوگ شدید متاثر ھوئے اور نوبت یہاں تک پہنچی کہ راجن پور کے سب سے بڑے شہر جامپور میں ایک دوسرے کے ساتھ اکٹھے رھنے والے بہترین دوست بلکہ
استاد شاگرد خواجہ سراء بے روزگاری اور تنگدستی کے ھاتھوں اس قدر عدم برداشت کے رویہ کا شکار ھوئے کہ سینئر خواجہ سرا نے اپنے جونئیر پر پیٹرول چھڑک کر آگ لگا دی
اور وہ بے چارا جو روزگار کے سلسلے میں جامپور قیام پزیر تھا ایک ھفتہ موت وحیات کی کشمکش میں رھنے کے بعد نشتر ھسپتال ملتان میں دم توڑ گیا ۔
حکومت کی جانب سے احساس پروگرام کے تحت غریب اور بیوہ خواتین کے ساتھ ساتھ دیہاڑی دار مزدوروں کی مدد کی گئی جو کہ خوش آئند امر ھے
مگر فن وثقافت سے وابستہ چھوٹے چھوٹے فن کاروں اور خواجہ سراوں کیلئیے کوئی خاطر خواہ اقدامات نہ کیے جا سکے اسی طرح معزور افراد کی اکثریت بھی حکومت کی اس سہولت سے
محروم رھی جسکے لئیے ضرور ی ھے کی حکومت حسب سابق شفاف طریقے سے احساس پروگرام کے ذریعے ان طبقات کی مدد کویقینی بنائے گھریلو سطح پر کاروبار کرنے والی خواتین اور چھوٹے دوکانداروں کئیلئے انتہائی نرم شرائط کے ساتھ بلا سود قرضے جاری کرے
تاکہ یہ طبقات دوبارہ سے اپنے پاوں پر کھڑے ھو سکیں۔الحمد اللہ یہ وباء آھستہ آھستہ ختم تو ھو رھی ھے مگر مکمل ختم نہیں ھوئی جسکے لئیے لوگوں کو بدستور اپنی احتیاطی تدابیر اختیار کئیے
رکھنا چاھئیے بار بار ھاتھ دھونے صاف ستھرے کپڑے پہننے ماسک و سینیٹائزر کے استعمال گلے ملنے اور ھاتھ ملانے سے بہر صورت اجتناب برتنا چاھئیے صاف ستھری اور گھر میں تیار کردہ سادہ
خوراک استعمال کرنا چاھئیے نماز پنجگانہ ۔ورزش اور صبح کی سیر کو معمول بنانا چاھئیے گھروں میں موجود معمر افراد خواتین ۔معزور افراد اور بچوں کا خاص خیال رکھنا چاھئیے ۔
اے وی پڑھو
موہری سرائیکی تحریک دی کہاݨی…||ڈاکٹر احسن واگھا
محبوب تابش دے پرنے تے موہن بھگت دا گاون
جیسل کلاسرا ضلع لیہ ، سرائیکی لوک سانجھ دے کٹھ اچ مشتاق گاڈی دی گالھ مہاڑ