سپریم کورٹ نے وزارت انفارمیشن ٹیکنالوجی اور پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن کی جانب سے موبائل فون کمپنیوں کیخلاف دائر کی گئی درخواست پر فیصلہ جاری کیا۔
قبل ازیں2019 نے سپریم کورٹ نے حکم دیا تھا کہ حکومت چھوٹے ایونٹ پر موبائل فون سروس بند نہ کرے۔موبائل ٹیلی کام کمپنی کے وکیل نے موقف اختیار کیا تھا کہ کوئی بڑا ایونٹ ہوتو سروس بند کرنا سمجھ بھی آتا ہے، لیکن معمولی معمولی باتوں پر سروس بند کر دی جاتی ہے۔
اس وقت جسٹس عظمت سعید نے ریمارکس دیئے تھے کہ موبائل کمپنیوں والے بھی حوصلے سے کام لیں، اگر کوئی واقعہ ہوا تو موبائل کمپنی کے سربراہ پر دہشتگری کا مقدمہ ہوگا۔
سال2018 میں اسلام آباد ہائی کورٹ نے سیکیورٹی کے نام پر موبائل فون سروس کی بندش کو خلاف قانون اور اختیارات سے تجاوز قرار دیا تھا۔
درخواست گزار نے مؤقف اپنایا تھا کہ وفاقی دارالحکومت میں سیکیورٹی کے نام پر اکثرموبائل فون سروس بند کردی جاتی ہے جو شہریوں کے بنیادی حقوق کی حق تلفی ہے جبکہ سروس کی بندش پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن (ری آرگنائزیشن) ایکٹ 1996 کی بھی خلاف ورزی ہے لہذا عدالت حکومت کی جانب سے موبائل فون سروس کی معطلی کے اقدام کو غیرقانونی قرار دے۔
پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی کی جانب سے جواب جمع کرایا گیا کہ پی ٹی اے ازخود موبائل فون سروس بند نہیں کرتی بلکہ حکومت کی ہدایت پر یہ اقدام اٹھایا جاتا ہے اور حکومت ٹیلی کام ایکٹ کی دفعہ 54 (2) کے تحت سیکیورٹی حالات کے پیشِ نظر موبائل فون سروس بند کرنے کا اختیار رکھتی ہے۔
جسٹس اطہر من اللہ نے فریقین کے دلائل سننے کے بعد محفوظ کیا گیا فیصلہ سناتے ہوئے ریمارکس دیئے کہ وفاقی حکومت اور اتھارٹی کی جانب سے موبائل فون سروس کی بندش خلاف قانون اور اختیارات سے تجاوز ہے۔
اے وی پڑھو
ریاض ہاشمی دی یاد اچ کٹھ: استاد محمود نظامی دے سرائیکی موومنٹ بارے وچار
خواجہ فرید تے قبضہ گیریں دا حملہ||ڈاکٹر جاوید چانڈیو
راجدھانی دی کہانی:پی ٹی آئی دے کتنے دھڑےتے کیڑھا عمران خان کو جیل توں باہر نی آون ڈیندا؟