سرائیکی زبان و ادب پر سب سے زیادہ کام کرنے والے پروفیسر شوکت مغل مرحوم کی کتاب ’’ اصطلاحات پیشہ واران ‘‘ میں جہاں آم کے پیشہ سے متعلقات کا ذکر تفصیل سے کیا گیا ہے وہاں مجھ جیسے بہت سے لوگوں کیلئے یہ بات تعجب کا باعث ہے کہ کتاب میں آم کی 200اقسام گنوائی گئی ہیں ۔
ان دو سو ناموں میں کچھ نام موسمی بھی ہیں جیسا کہ ہاڑی، ساونْی اور بدری ، اس کا مطلب ہاڑی ، ہاڑکے مہینے ، ساونْی ، ساون کے مہینے ، کاتکی ، کتی کے مہینے اور بدری بدرو کے مہینے میں پکنے والا آم ۔ بدری کو جدید اصطلاح میں لیٹ ورائٹی بھی کہتے ہیں ۔ پروفیسر شوکت مغل نے آم کے بیج ، افزائش، بور ، آم کے وزن ، رنگ اور آم کے پھل اور پھل کی مختلف حالتوں کے ساتھ آم سے متعلقہ ایسی سرائیکی اصطلاحات کا بھی ذکر کیا ہے جو اہل علم کیلئے دلچسپی کا باعث ہیں ۔
مثلاً ٹپکا، وہ آم جو درخت پر پک جائے۔ پال ، آموں کو پکانے کا عمل ۔ چیڑھ، وہ گوند جو آم کی ناتھ سے نکلتی ہے ۔ دھروونْ ، آم اتارنا ۔ بیکھر ، آم کا بیوپاری ۔ ٹھپی ، بیعانہ ، باغ راکھا، حفاظت کرنے والا ، قلمی‘ وہ آم جس پر قلم چڑھا کر اسے فارمی یعنی قلمی بنایا گیا ہو ۔ کاٹھا ، دیسی آم ۔ جھونڑاں ، درخت کو ہلا ہلا کر آم گرانا۔ رائے آلا ، جو موسم کے مطابق درخت پر ٹھیک پکا ہو ۔ ثمر بہشت ، چونسہ آم کی وہ قسم جسے سرائیکی وسیب کے عام لوگ بہشتی میوہ بھی کہتے ہیں ۔یہ بتاتے ہوئے مجھے خوشی ہو رہی ہے کہ پروفیسر شوکت مغل کی اس کتاب میں دو سو سے زائد پیشہ جات کا ذکر ہے اور 8سو کے لگ بھگ ذیلی پیشوں کا ذکر ہے اور یہ اتنا بڑا علمی کام ہے کہ آج تک بر صغیر جنوبی ایشیا کی کسی زبان میں نہیں ہوا۔ یہ اعزاز صرف سرائیکی کو حاصل ہوا ہے۔
سرائیکی خطے میں تین ہزار قبل مسیح سے آم ہر انسان کا پسندیدہ اور مرغوب پھل چلا آ رہا ہے آم کے بارے میں عراقی مصنف محمد ابوالقاسم بغدادی جنہوں نے 934ء تا 968ء سرائیکی وسیب کا سفر اختیار کیا اپنی یاد داشتوں کو قلمبند کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ’’اس علاقے میں ایک پھل ہے جسے امب کہتے ہیں جو بہت مرغوب اور لذیز ہے شکل میں آڑو جیسااس پھل کی بہت پیدوار ہوتی ہے اور یہ بہت سستا ہے۔‘‘ملتان کے شہزادہ علی محمد خان خدکہ سدوزئی نے اپنی کتاب ’’تذکرۃ الملوک عالیشان ‘‘ سال تصنیف 1251ھ میں آم کی صفات بیان کرتے ہوئے اسے پھلوں کا بادشاہ قرار دیا،یونانی ایرانی ،افغانی اور عرب فاتحین نے ملتان پر قبضہ کیا تو یہاں کے دیگر وسائل کے ساتھ ساتھ آم بھی ان کیلئے مرغوب ٹھہرامگر انہیں آم کھانے کا سلیقہ نہیں آ تا تھا پھر سرائیکی میں کہاوت مشہور ہوئی ’’امب کوں جایا کھا سگدے آیا نی کھا سگدا ‘‘ اس کا مطلب کہ آم کو دھرتی کا سپوت کھا سکتا ہے باہر سے آئے ہوئے حملہ آور کو کھانے کا سلیقہ نہیںآ سکتا۔ملتان کے معروف کاشتکار اور مصنف ’’صلائے آم ‘‘ حامد خان درانی لکھتے ہیں کہ’’ قیام پاکستان سے مسلمانوں کے ساتھ ساتھ ہندؤں نے بھی آم کے باغات کو ترقی اور توسیع دینے میں اہم کر دار ادا کیا ان کا کہنا تھا کہ ایک تو پوری دنیا کے لیے آم ہمارے خطے کی بہترین سوغات ہے دوسرا ہندو مذہب کا یہ عقیدہ ہے کہ آم کی لکڑ ی سے جلایا جانیوالا مردہ سیدھا بہشت میں جاتا ہے ۔‘‘
یہ بھی ہے کہ سرائیکی وسیب کا ہر باشندہ آم کو بہشتی پھل کہتا ہے اور اس بارے بہت سی کہاوتیں مشہور ہیں اور یہ بھی حقیقت ہے کہ قرآن مجید نے بہشت کا جو نقشہ بتایا ہے وہ سرائیکی وسیب ہے کہ یہاں باغات ، نہریں سب کچھ ہیں۔ سرائیکی وسیب سے آم ہندوستان کے دوسرے خطوں میں گیا ،سرائیکی وسیب کے باغات سے ہندوستان کے زمیندار اور امراء حتیٰ کہ سلاطین وقت نے بھی باغبانی کی طرف توجہ دی اکبر اعظم کے دور میں لاکھ باغ اور شاہجہاں کے شالیمار باغ میں خصوصی طور پر آم کی پرورش کرائی گئی ۔امیر خسرو (1325ھ) اور مرزا غالب(1779-1869ئ) نے آم کے متعلق قصیدے اور مثنویا ں اردو میں لکھیں ،سرائیکی شاعری میں آم کو صدیوں سے لیکر آج تک خاص مقام و مرتبہ حاصل ہے ۔
اور یہاں ہر بات میں آم کا ذکر ہوتا ہے ، یہی وجہ ہے کہ سید یوسف رضا گیلانی نے ملتان کی تقریب میں سرائیکی زبان کوآم کی طرح میٹھا قرار دیا۔ آموں کی اقسام اور ان کے خواص کا ذکر کریں تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ اصل تخمی آم ہے جو زمانہ قدیم سے چلا آ رہا ہے ،سرائیکی وسیب میں اسے ’’دیسی ‘‘ آم بھی کہا جاتا ہے ،دیسی آم کی بہت سی ورائٹیاں ہیں۔ جن کے الگ الگ ذائقے‘ ر نگ‘ نام اور وزن ہیں ۔تخمی یا دیسی آم میں پیوندکاری ہوئی اور آم کی نئی نسل ’’ پیوندی آم‘‘ کے نام سے موسوم ہوئی ۔
پیوندی آم کو قلمی آم بھی کہا جاتا ہے کیونکہ اس کا پیوند آم کی ’’قلم ‘‘ سے ہوتا ہے ،یہ آم وزن میں بھاری اور عمر میں کم ہوتا ہے اس کا استعمال عام ہو چکا ہے ۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ آم خود رو پودا نہیں اور یہ ایسی فصل بھی نہیں جو بغیر محنت کے تیار ہو جائے آم کی کاشت سے لیکر ثمر آور بنانے تک بہت زیادہ مشکلات سے گذرنا پڑتا ہے ، وسیب کے بزرگ کاشتکاروں کا مقولہ ہے کہ آم کا ایک بوٹا ایک بیٹا جوان کرنے سے بڑھ کر ہے خصوصاً ان حالات میں جہاں پانی کی کمی ہو اور کاشتکار دور سے گھڑوںمیں پانی بھر کر آم کے پودوں کو سیراب کریں ،اتنی مشقت کے باوجود سرائیکی وسیب کے کاشتکار کو اس کا معاوضہ نہیں ملتااور’’ آم کے آم گٹھلیوں کے دام ‘‘والا معاملہ ہو جاتا ہے وجہ یہ ہے کہ آج پیاز ، لہسن، ٹماٹر مہنگا اور آم سستا ہے۔
سرائیکی وسیب کے کسی شہر سے آم ایکسپورٹ نہیں ہوتا آم کراچی کا تاجر ایکسپورٹ کرتا ہے ۔ وہ ایک پیٹی آم کی قیمت صرف ایک دانہ آم سے نکالتا ہے ، وہ جتنی قیمت میں ایک پیٹی وزن 10کلو خرید کرتا ہے ،اتنی قیمت میں آم کا ایک دانہ وزن نصف کلو بیرون ملک فروخت کرتا ہے ۔حکومت کی طرف سے اس طرف توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ بہرحال آم سرائیکی وسیب کا پسندیدہ اور مرغوب ترین پھل ہے ، جو سوغات کے طور پر ایک دوسرے سے محبتیں بڑھانے کے طور پر صدیوں سے استعمال ہو رہا ہے۔
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر