مئی 13, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

جیسن میری گُڈائن المعروف مس گُڈِین کی کہانی(2)۔۔۔عباس سیال

اس میں کوئی شک نہیں کہ مس گُڈِین کو ڈیرہ کی عوام میں آج بھی خوبصورتی کے استعارے کے طور پریاد کیا جاتا ہے۔
مس گُڈین، گھنیش داس اور مکیش کا انجام
Dr. Jason Mery Godyne
یعنی مِس گُڈِین کی ذاتی اور پروفیشنل زند گی کے حوالےسے لکھی گئی پوسٹ کو دوست احباب نے کافی سراہا۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ مس گُڈِین کو ڈیرہ کی عوام میں آج بھی خوبصورتی کے استعارے کے طور پریاد کیا جاتا ہے۔
بطورِ مسیحا ان کا کردارکیسا تھا، اس بارے میں پہلی دفعہ بہت سی پوشیدہ باتیں کھل کر سامنے آئی ہیں جس کا سارا کریڈٹ سعید اختر سیال اور پروفیسر قاسم شاہ صاحب کوجاتا ہے۔
آخری قسط میں کچھ احباب نے اپنے تحفظات کا اظہار کچھ ان الفاظ میں کیا کہ پروفیسر صاحب مس گڈِین کی مالی مدد کرسکتے تھے، اسے بچا سکتے تھے، اسے واپس ڈیرہ بھی لا سکتے تھے وغیرہ۔ دوست احباب اور قارئین کا رد عمل واقعی فطری تھا جسے سراہنا چاہیے لیکن ہمیں اس بات کو بھی نہیں بھولنا چاہیے کہ ڈاکٹر گُڈائن ایک خوددار، خود مختار، اصولوں کی سختی سے پابند عورت تھیں اور پروفیسر صاحب بخوبی جانتے تھے کہ وہ کتنی انا پرست، انڈپینڈ نٹ عورت ہے کیونکہ پروفیسر صاحب کے انٹرویو سے ہم نے اندازہ لگایا کہ ڈاکٹر گُڈائن کو قطعاً قبول نہ تھا کہ کوئی اس کی مالی مدد کرے یا اس پر رحم کھائے۔
ڈاکٹر گُڈائن نے بالآخر ہر طرف سے مایوس ہو کر لندن جانے کی کوشش کی تھی مگر اس وقت تک کافی دیر ہو چکی تھی۔
ڈاکٹر گُڈائن کا سوچتے ہی مجھے تقسیم ہند کے پس منظر میں فساد کے دنوں کے دو اصلی کردار یاد آرہے ہیں،ایک تھل کے علاقہ کچھی کی گوکھل بستی کا خالص گھی کا بیوپاری”گھنیش داس“، دوسرا پروآ کے نزدیکی بستی موضع مکڑ کا مکیش کہ جنہوں نے جانے میں بہت دیر کر دی تھی۔کہتے ہیں کہ جب پروآ اور موضع مکڑ سے سیٹھ بگائی کی لاریاں وہاں کے ہندوؤں کو بحفاظت ڈیرہ لا رہی تھیں تو مکڑ قصبے کے نو جوان مکیش نے اپنی بستی چھوڑنے سے صاف انکار کر دیا تھا،
اس نے ماں باپ اور بیوی تک کی التجا بھی نہیں مانی تھی اور ہجرت کرنا قبول نہ کیا تھا۔مکڑ بستی سے سارے ہندو نکل گئے تھے سوائے مکیش کے۔دوسرے دن جب فسادیوں نے آخری بچ جانے والے ہندوکو گلی میں پکڑ کر مارنے کی کوشش کی تھی تو وہ بھاگ کر مکڑ کی مسجد میں گھس گیا تھا اور اندر سے کنڈی لگا دی تھی، اس وقت مسجد کچی تھی۔
ایک فسادی مسجد کی دیواریں پھلانگ کر اندر گھسا تھا، کنڈی کھولی تھی اور پھر چند لوگوں نے مل کر اسے مسجد سے گھسیٹ کر باہر نکالا تھا، گلی میں ڈنڈوں، چاقوؤں سے وار کرکے مارنے کے بعد لاش کو اسی وقت مٹی کے تیل سے جلا ڈالا تھا۔ موضع مکڑ کی وہ مسجد اب پکی ہوچکی ہے مگر وہاں کے بزرگ آج بھی اس آخری ہندو کی اندوہناک موت کے چشم دید گواہ ہیں۔
ان بندوں میں سے ایک حق نواز عرف ”حاقا ماڑہ“ ابھی زندہ ہے جں نے اسے مارا تھا،سید حفیظ اللہ گیلانی صاحب سے بھی اس واقعے کی تصدیق کی جا سکتی ہے۔
اسی طرح تھل کی گوکھل بستی کا باسی گھنیش داس بھی ہجرت نہیں کرنا چاہتا تھا جسے جندو شاہ نے کلہاڑیوں سے لہولہان کر کے اس کے جسم کے ٹکڑے کرکے گوکھل بستی کے کنوئیں میں پھینک دئیے تھے۔تھل میں واقع گوکھل بستی کے رہائشیوں سے اس اندوہناک واقعے کی تصدیق کی جا سکتی ہے۔۔
ڈاکٹر گُڈائن، گھنیش داس، مکیش سمیت سرائیکی علاقوں کے ہندوؤں، انگریزوں کے بارے میں ہمارے بزرگ کہا کرتے تھے۔۔ ہندو ہمارے سماج کا سونا تھے، وہ پرامن تھے، سکون سے مل جل کر رہتے تھے، انگریز ہمارے کالے حکمرانوں سے بدرجہا بہتر تھے،
وہ اگرچہ ہم سے سولہ آنے چھینتے تھے، بارہ آنے ولایت میں اپنی ملکہ کو بھیجتے تھے تو چار آنے ہماری بہبود و ترقی پر بھی لگاتے تھے، اسی لئے پاک و ہند میں جتنی بھی ترقی ہوئی وہ سب انگریز کے زمانے میں ہوئی ۔ ہم اپنے کرپٹ حکمرانوں، سیاستدانوں پر لعنت بھیجتے ہیں اور بھیجتے رہیں گے۔

%d bloggers like this: