نومبر 22, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

مارگلہ کے پیچھے نیلا آسمان ۔۔۔ مرتضی سولنگی

یہ ممکن ہے کہ حزب اختلاف جمعیت کے ساتھ دراڑ پر قابو پالے اور کچھ مرہم پٹی کر لے لیکن یہ سمجھنا کہ عیدِ قربان کے بعد حکومت کی قربانی ہوگی قرین قیاس نہیں ہے۔

حکومتی اتحادی ناراض ہیں، کابینہ منقسم ہے، آئے دن وزیر، مشیر نکالے جا رہے ہیں، نئے بنائے جا رہے ہیں، روز کوئی نیا سکینڈل، کوئی نیا بحران اور کوئی نیا کمیشن سر اٹھا کر کھڑا ہوتا ہے، وفاقی اداروں اور انصافی صوبائی سرکاری مشینری کا کوئی کل پرزہ ایک جگہ ٹِک کر کام نہیں کر پا رہا۔

حالت یہ ہے کہ لوگ اپنی قمیض دیر سے تبدیل کرتے ہیں، اہلکار اس سے پہلے تبدیل ہوجاتے ہیں۔بلاول بھٹو، شہباز شریف اور مولانا فضل رحمان عید کے بعد رہبر کمیٹی اور آل پارٹیز کانفرنس کا اجلاس بلانے اور حکومت کی چھٹی کرنے کی بات کر رہے ہیں۔ کیا قربانی کے بعد عمران سرکار کی قربانی ہونے جا رہی ہے؟ بالکل نہیں۔ کیونکہ زمینی حقائق نیلے آسمان کی کہانی سنا رہے ہیں۔

دو ہفتوں بعد عمران سرکار تیسرے سال میں داخل ہوجائے گی۔ اب تک اس حکومت کو ہٹانے کی ایک ہی سنجیدہ کوشش ہوئی ہے اور وہ بھی دونوں بڑی جماعتوں کے بغیر۔

پچھلے سال جمیعت علمائے اسلام کے آزادی مارچ کے نتیجے میں ہزاروں مظاہرین اسلام آباد پہنچے تھے۔ مظاہرین جنرل باجوہ کی توسیع سے ذرا پہلے جمع ہوئے تھے۔ کیونکہ اس وقت دونوں بڑی جماعتوں نے دھرنے کی توسیع اور ڈی چوک کی طرف مارچ کی مخالفت کی تھی لہٰذا مظاہرین گجرات کے چودھریوں کے ساتھ مذاکرات کے بعد پر امن طور پر منتشر ہو گئے تھے۔

پیپلز پارٹی اور ن لیگ انتخابات کے بعد کسی طور پر بھی نئے مخلوط (ھائبرڈ) نظام کو گرانے میں دلچسپی نہیں رکھتے تھے۔ پیپلز پارٹی کو تو ایک ورکنگ ریلیشن شپ کی توقع تھی جو بعد میں اس وقت اڑنچھو ہو گئی تھی جب عمران سرکار نے آصف زرداری، فریال ٹالپر، خورشید شاہ اور دوسرے رہنماوں کے خلاف نیب کو زور و شور سے استعمال کیا اور سندھ حکومت کو کمزور کرنے کی کوشش کی۔

یہی صورتحال ن لیگ کی بھی تھی ۔ شہباز شریف نے بھی میثاق معیشت کی پیشکش کی تھی جو عمران سرکار نے ٹھکرادی تھی۔ لیکن اس کے باوجود ن لیگ کی قیادت بشمول نواز شریف اس موقف کی حامی رہی ہے کہ اگر عمران سرکار کو وقت سے پہلے گرایا گیا تو وہ دوبارہ مظلوم بن کر انتخابات میں جا سکتی ہے لہٰذا یہ ضروری ہے کہ وہ کچھ وقت گزارے اور لوگ دیکھیں کہ اس نئی نویلی قیادت نے ملک کو کیا دیا ہے۔

یہ درست ہے کہ ملک میں بیروزگاری، مہنگائی، افراط زر، معاشی دیوالیہ پن،  بری طرز حکمرانی، خارجہ پالیسی کی ناکامیاں اور وفاقی ڈھانچے میں دراڑیں موجود ہیں لیکن کوئی بھی بڑی جماعت فوری طور پر اندرونِ خانہ تبدیلی لا کر ناکامیوں کا بوجھ اپنے کندھے پر ڈال کر  دو سال بعد انتخابات میں جانا نہیں چاہتی۔

نہ یہ ن لیگ کو وارہ کھاتا ہے اور نہ پیپلز پارٹی کو۔ دونوں جماعتوں میں سے کوئی بھی یہ نہیں چاہتی کہ اگلے دو ڈھائی سال کسی کمزور حکومت میں شراکت داری کی جائے  اور اس کے بعد جب انتخابات ہوں تو اس معاشی بدحالی اور بری حکمرانی کا طوق گلے میں ڈال کر لوگوں سے ووٹ مانگے جائیں۔ یہی وجہ ہے کہ عمران سرکار کے اتحادی نہ چاہتے ہوئے بھی عمران سرکار کے ساتھ گھسٹنے پر مجبور ہیں۔

انہیں معلوم ہے کہ اقتدار میں رہ کر شاید وہ اپنے حلقے کے لیے کچھ کر سکتے ہیں۔ فی الوقت عمران خان ہی انہیں یہ موقع فراہم کرسکتے ہیں۔  یہ اتحادی اس وقت تک عمران سرکار کے ساتھ چپکے رہیں گے جب تک ان کو کوئی اشارہ نہ ہو کہ کوئی نیا کھیل کھیلا جانا ہے۔

ایسے میں عید کے بعد حزب اختلاف کی طرف سے کوئی بڑی تحریک جس کے نتیجے میں حکومت کی تبدیلی ہوممکن نظر نہیں آتی۔ اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ جلسے جلوس، پریس کانفرنسیں، مظاہرے، اور پارلیمان کے اندر اٹھا پٹخ نہیں ہوگی۔ یہ سب ممکن ہے لیکن اس کے نتیجے میں حکومت تبدیل نہیں ہوگی۔ ان تمام سرگرمیوں کا مقصد حکومت پر دباؤ برقرار رکھنا اور عوام کو یہ تاثر دینا ہوگا کہ حزب اختلاف پارلیمان کے اندر اور باہر عوام کی نمائندگی کر رہی ہے۔

ن لیگ چاہتی ہے کہ موجودہ بحران اور عمران سرکار کی عدم مقبولیت کے نقطہ عروج پر انتخابات کروائے جائیں تا کہ ن لیگ بڑی بھاری اکثریت کیساتھ مرکز اور پنجاب میں حکومت بنالے۔

ن لیگ کے کئی رہنما جن میں نواز شریف بھی شامل ہیں صرف نئے انتخابات نہیں چاہتے بلکہ ملک کے مقتدر حلقوں سے کچھ ضمانتیں بھی چاہتے ہیں کہ نئی حکومت کے معاملات میں آئے دن مداخلت نہیں کی جائیگی۔  بقول ایک ن لیگی رہنما کے کہ ‘اگر اگلی باری بھی ہمیں دو تہائی اکثریت کے باوجود اسی طرح بے عزت کر کے نکالنا ہے اور حکومت نہیں کرنے دینی تو پھر اس حکومت لینے کا کیا فائدہ؟’

حزب اختلاف کے ڈھلمل پن اور کبھی گرم اور کبھی سرد کی یہی وجوہات ہیں۔ پارلیمان کے حالیہ اجلاس میں جمعیت علمائے اسلام اور حزب اختلاف کے درمیان کچھ کھچاؤ انسداد دہشت گردی اور سلامتی کونسل سے متعلق قرارداد کی منظوری کے بعد سامنے آیا ہے۔

جمعیت کو دھشتگردی سے متعلق جرمانوں اور قید کی مدت میں اضافے پر غصہ ہے اور ساتھ ہی اس بات پر بھی کہ جب عمران سرکار نے سپیکر اسد قیصر کے گھرپر غیر رسمی اجلاس بلایا تو پیپلز پارٹی اور ن لیگ دونوں وہاں چلے گئے لیکن جمعیت کو اس عمل سے دور رکھا گیا اور حزب اختلاف نے ان کی موجودگی پر اصرار بھی نہ کیا۔ اس طرح جمعیت سیاسی تنہائی کا شکار ہوئی۔

یہ ممکن ہے کہ حزب اختلاف جمعیت کے ساتھ دراڑ پر قابو پالے اور کچھ مرہم پٹی کر لے لیکن یہ سمجھنا کہ عیدِ قربان کے بعد حکومت کی قربانی ہوگی قرین قیاس نہیں ہے۔

اس کا مطلب یہ ہے کہ عمران سرکار اسی طرح لڑکھڑاتی اور لنگڑاتی ہوئی انتخابات میں جائے گی۔ حزبِ اختلاف کی طرف سے کسی قسم کے عدم اعتماد یا بڑی عوامی تحریک جو عمران سرکار کے خاتمے پر اور نئے انتخابات پر منتج ہو، امکانات موجود نہیں ہیں۔

اس کا یہ ہرگز مطلب نہیں ہے کہ چھوٹی موٹی تبدیلیاں نہ آئیں۔ وزیروں ، مشیروں کا تبدیل ہونا یہاں تک کہ صوبائی انتظامیہ میں تبدیلیاں جن میں سب سے بڑے صوبے پنجاب کے وزیر اعلیٰ کی تبدیلی بھی شامل ہے، ممکن ہے۔

ان چھوٹی موٹی تبدیلیوں کا مقصد عمران سرکار کو قابل قبول بنانا اور اور اس کی ساکھ بہتر بنانا شامل ہے۔ لیکن کسی بڑی تبدیلی کا اس وقت تک کوئی امکان نہیں ہے جب تک مقتدرہ کے ساتھ بڑی سیاسی جماعتوں کا کوئی اتفاق رائے قائم نہیں ہوجاتا۔

موجودہ صورتحال میں جب افغانستان میں آخری راؤنڈ کھیلا جا رہا ہے، بھارت کے ساتھ تناؤ جاری ہے اور امریکہ میں انتخابات سر پر ہیں، ملک کسی بڑی تبدیلی کا متحمل نہیں ہو سکتا اس لیے فی الحال راوی چین لکھتا ہے اور مارگلہ کی پہاڑیوں کے اوپر کتنی بھی گھنگھور گھٹائیں ہو، مجھے نیلا آسمان نظر آ رہا ہے۔

About The Author