عید الاضحٰی سے ایک دن پہلے یعنی نویں ذی الحج کو حاجی جس مقام پر جمع ہوتے ہیں، اُس مقام کو "عرفات” کہتے ہیں اور جس یوم کو اکٹھے ہوتے ہیں، اُسے "یوم عَرَفہ” کہتے ہیں، یہ مقام دُعائیں مانگنے کے لیے بہت خاص جگہ ہوتا ہے، مقام عرفات وہ جگہ ہے جہاں پر امام حسین علیہ السلام نے ایک دعا مانگی تھی جسے "دعائے عرفہ امام حسین” کے نام سے جانا جاتا ہے- نویں ذی الحج کو جو حاجی عارف بالحسین علیہ السلام ہوتا ہے، وہ اس دُعا کو اس مقام پر ضرور پڑھتا ہے اور صوفی باصفا ہوتا ہے اُسے اس دعا کے عرفانی اثرات سے اپنے قلب کو صقیل کرتا ہے- میرے اور میری اھلیہ کے لیے یوم عَرَفہ آج ویسے بھی بہت زیادہ اہمیت کا حامل ہے، میری اھلیہ کی والدہ اور رشتے میں میری آنٹی اور میری خوشدامن کی ہمارے اور ہمارے خاندان کے لیے اچانک جدائی سخت صدمے اور فراق کا سبب اور اُن کی وفات کے بعد یہ پہلا "یوم عرفہ” ہے اور ہم سب نے اس یوم کی مناسبت سے دعائے عرفہ امام حسین کی خصوصی قرآت اور نیاز کا اہتمام کیا – حلوے اور نان کی نیاز/ختم تیار کروائی گئی اور اسے مرد و زن و بچوں میں تقسیم کیا گیا ہے-
میری آنٹی وفات سے پہلے اپنے تین نواسوں اور ایک پُوتی کے لیے عید الاضحٰی کے نئے سوٹ سلواکر اور تیار کرکے گئی تھیں گھر والوں نے کل وہ سوٹ نواسوں اور پوتی کو پہنانے کا فیصلہ کیا ہے، گھر والوں کا کہنا ہے اس سے آنٹی کی روح خوش ہوگی اور سکینت سے سرشار ہوگی اور دعائے عرفہ کی قرآت کے عرفانی اثرات بھی اُن کی روح پر مرتب ہوں گے-
میں نے اپنی اھلیہ سے "دعائے عرفہ امام حسین” "علیہ السلام” بارے دریافت کیا تو انھوں نے مجھے اس کا سیاق و سباق بتایا جو میں اوپر درج کرچُکا، اس کے متن نے مجھے جگہ جگہ چونکایا تو بہت یہ عام طور پر کثرت سے اس دن انفرادی اور اجتماعی طور پر فقہ جعفریہ شیعہ اثناعشری کے ہاں آج کے روز پڑھی جاتی ہے اور جو تصوف و عرفان سے وابستہ سُنی مسلمان ہیں، اُن کے ہاں بھی یہ دُعا پڑھی اور آج کے دن کی مناسبت سے ختم و نیاز برائے فوت شدگان عزیز و اقارب کی ارواح کو ایصال ثواب کیلئے تقسیم کی جاتی ہے (جیسے میری آنٹی کے گھروالوں کے ہاں آج یہ سب ہوا)
اس دعا کے چند جُملے مجھے کچھ زیادہ ہی متاثر کرگئے- امام حُسین علیہ السلام اپنے رب باری تعالیٰ سے عرض کرتے ہیں
اے اللہ مجھے اپنے نفس میں بے نیاز کردے، میرے قلب میں یقین اور اخلاص میرے عمل میں، میری بصارت میں نور اور میرے دین میں میری بصیرت کو تیز کردے
اَللّهُمَّ اجْعَلْ غِناىَ فى نَفْسى وَالْيَقينَ فى قَلْبى وَالاِْخْلاصَ فى عَمَلى وَالنُّورَ فى بَصَرى وَالْبَصيرَةَ فى دينى
مسند امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ میں ایک صحابی رسول ابو صرمہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں
عن أَبی صِرْمَۃَ رضی اللہ عنہ کَانَ یَقُوْلُ: أَنَّ رَسُولَ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کَانَ یَقُولُ: ((اَللّٰھُمَّ إِنِّی أَسْأَلُکَ غِنَایَ…..
ابی صرمہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ طیبین طاہرین وسلم یوں دعا فرمایا کرتے تھے : اے اللہ میں تجھ سے اپنے نفس میں بے نیازی کا سوال کرتا ہوں
مجھے یہ نفس میں بے نیازی کا سوال ایک شعر کی طرف لے گیا
کرتی ہے دو عالم سے بے گانہ دل کو
عجب چیز ہے لذت آشنائی
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر