ویسے چھوٹے شریف الدین پیرزادہ کہلانے والے فروغ نسیم نے بھی کیا قسمت پائی ہے۔ یہ واحد وزیر ہیں جس کو کوئی بھی سیاسی پارٹی اون نہیں کرتی۔ بظاہر جس ایم کیو ایم نامی سیاسی جماعت کے کوٹے سےوہ وزیر قانون بنے انہوں نے اس سے یکسر انکار کیا وہ کہتے ہیں یہ ہمارا بندہ ہی نہیں ہے۔
اس لیے ان کی حکومتی کابینہ میں شمولیت میں ابہام ہی رہا کہ وہ کراچی والی ایم کیو ایم جسے اب محب وطن ایم کیو ایم پاکستان کہا جاتا ہے اس کے کوٹے پر وزیر بنے یا لندن والی ایم کیو جسے "را” کا پاکستانی ونگ کہا جاتا ہے اس کی نمایندگی کرتے ہیں۔
عمران نیازی کی کابینہ کا حصہ بننے کے بعد موصوف سے متعدد مرتبہ ان کی سیاسی وابستگی سے متعلق کریدا بھی گیا، جواب ندارد۔
آجکل موصوف جزوقتی وکیل اور کل وقتی نیازی کابینہ کے وزیر قانون ہیں۔ ‘نیازی اینڈ کو’ کے لوٹ مافیا کےلئے نہ صرف خفیہ آرڈینسز جاری کرتے ہیں بلکہ آئین پاکستان کے درپے بھی ہیں۔
فروغ نسیم کی ساری وکالت اور سیاست کراچی میں مبینہ طور پر "را” کے سیاسی کم عسکری دہشتگردوں کو بچانے میں صرف ہوئی۔مقتدر حلقوں کی طرف سے فروغ نسیم کو نوازنے کے لیے سینیٹ میں لایا گیا۔
کہا جاتا ہےایم کیو ایم کو آمر ضیا نے "را” کی فنڈنگ سے کراچی میں سیاسی طور پر پیپلز پارٹی کے خلاف انسٹال کیا۔ مقتدر حلقوں کی متعدد پریس کانفرنسز اور موجودہ حکومت کے ترجمانوں کے بقول اس کے سیکنڑوں کارکن انڈیا سے تربیت لیکر روشنیوں کے شہر کراچی میں بدامنی پھیلانے کے لیے لانچ کیے گئے۔
یہ بھی کہا جاتا ہے کہ قائدعوام ذوالفقار علی بھٹو کی شہادت کے موقع پر ضیا کی بدترین آمریت میں کراچی کا دل لیاری سراپا احتجاج رہا تو اہل لیاری کو سزا دینے کے لیے ایم کیو ایم کے غنڈوں کو چھوڑ دیا گیا۔ نتیجے میں لیاری کے غیور بلوچ اٹھ کھڑے ہوئے ۔ وہ صرف لیاری بلکہ پورے کراچی میں "را "کی جانب سے کراچی کا امن تباہ کرنے کی سازشوں کے خلاف سیسہ پلائی دیوار بنے نظر آئے ۔
ایم کیو ایم کے بانی الطاف حسین جو آجکل پاکستان کی مقتدر قوتوں کے بیانیے کے مطابق” را” کے ایجنٹ ہیں ‘ کو نیلسن منڈیلا کہنے والے فروغ نسیم کی بھی تعلیم و تربیت الطاف حسین ہی نے کی ہے۔
فروغ نسیم نے جونہی وکالت کا لائسنس لیا تو موصوف کو ایم کیو ایم کےمبینہ دہشتگردوں کے مقدمات لڑنے کا ٹاسک دے دیا گیا۔
” را "کے تربیت یافتہ دہشت گردوں کو اب وکیل میسر تھا۔ جب کبھی فوجی دباؤ کے برخلاف پولیس اور انتظامیہ انہیں پکڑتی تو موصوف عدالتوں میں قانونی پیچیدگیوں اور کمزور شہادتوں کی وجہ سے انہیں عدالت سے ریلیف دلوا دیتے۔ کمزور شہادتیں اس لیے کہ ایم کیو ایم کی دہشت گردی کے خلاف گواہوں کو بوری بند لاشوں سے ڈرایا جاتا۔
پیپلز پارٹی کے بغض میں مقتدر حلقوں نے بعض ریاستی اداروں کو ” را "کی فنڈنگ لینے والی جماعت اور اس کے مبینہ دہشتگردوں کو کراچی میں ہرممکن سہولت دینے پر مجبور کیا ۔
یہی نہیں بلکہ عدالتوں میں فروغ نسیم جیسے وکلا کی بھی معاونت کی گئی تاکہ کراچی کا امن میں بگاڑ پیدا ہوتا رہے ۔
ماضی میں پی پی پی کو سیاسی طور پر کمزور کرنے کے لیے ایم کیو ایم کا سیاسی ونگ فعال کیاگیا اور ان کو انتخابات میں سرعام دھاندلی اور ٹھپے لگانے کی اجازت دے دی گئی بالکل ایسے جیسے 2018 میں تبدیلی سرکار کو لانے کے لیے عوامی مینڈیٹ چوری کرکے اس کی جگہ سیاسی جماعتوں کی مخالفت کے باوجود پولنگ اسٹیشن کے اندر اور باہر تعینات ریاستی مشینری کے ذریعے بکسوں کو پی ٹی آئی کے جعلی ووٹوں سے بھر دیا گیا۔ ٫
2018 میں جب مقتدر قوتوں کے سائے میں پروان چڑھنے والے عمران نیازی کی مانگے تانگے کی حکومت بنائی گئی تو فروغ نسیم کو ایوارڈ کے طور پر وزارت قانون کا قلمدان دیاگیا۔ آخر وزارت کیوں نہ ملتی موصوف نے آمر پرویز مشرف کا غداری کا مقدمہ جو لڑا۔ وہی پرویز مشرف جس نے طاقت کے نشے میں مکا لہراتے ہوئے بدمست ہوکر کراچی میں "را” کے دہشتگردوں کے ذریعے خون کی ہولی کھیلی اور متعدد وکلاجان کی بازی ہار گئے۔ وکلا برادری اسے سانحہ بارہ مئی کے نام سے یاد کرتے ہوئے ہرسال اسے سیاہ دن کے طور پر مناتی ہے۔
سابق آمر مشرف کی حکومت کے بعد 2012 میں وہ ٹیکنوکریٹ سیٹ سے سینیٹر منتخب کرائے گئے تب سے لیکر اب تک وہ سینٹر بنتے آ رہے ہیں۔ ویسے موصوف 2008 میں پیپلزپارٹی کی حکومت سے پہلے سندھ کے ایڈووکیٹ جنرل بھی رہے۔
تاہم ان کی سیاسی وکالتی زندگی کا پہلا بڑا کیس بے نظیربھٹو کی 1996 میں حکومت کو گرانے میں فعال کرادر ہے۔ سیاسی تاریخ سے بلد لوگوں کو پتہ ہوگا کہ بی بی شہید کی حکومت کو گرانے کا جواز ڈھونڈنے کیلئے "را-ایم کیو ایم "گٹھ جوڑ کو کراچی میں لسانی و صوبائی تعصب پھیلانے کیلیے کھلی چھوٹ دے دی گئی اور بات نہ بنی تو بدعنوانی اور طرح طرح کے مفروضوں کے ہوائی قلعے تعمیر کرکے صدر فاروق لغاری کے ذریعے سازشیں کی گئی۔ بات نہ بنی تو عدالتوں کے ذریعے اسمبلیاں ہی تحلیل کرادی گئیں۔
تبدیلی سرکار میں موصوف آجکل وزیر اور ریاستی وکیل دونوں کا فریضہ بااحسن طریقے سے نبھارہے ہیں۔ پچھلے دنوں جب چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے اپنی ریٹائرمنٹ سے قبل فوج کے سالار اور تبدیلی سرکار کے سپانسر قمر جاوید باجوہ کی توسیع کے نوٹیفکیشن کو اڑا کے رکھ دیا تو فروغ نسیم نے فوری استعفیٰ دیکر ان کر مقدمہ لڑا۔ معاملہ قانون سازی کے لیے پارلیمنٹ کو بھیجا گیا تو فوری صدر سے حلف لیکر پھر سے وزیر قانون بن گئے اور قمر جاوید باجوہ کی فوجی مدت ملازمت میں توسیع کا بل ڈارفٹ کراکے مقتدر قوتوں کے بل بوتے پربیچاری اپوزیشن کو ہانک کر بل منظور کراکے سپہ سالار کو تین سال کے لیے توسیع دلادی۔
فیض آباد دھرنے میں خفیہ طاقتوں کی سپانسر شپ کو بے نقاب کرنے پر سپریم کورٹ کے جج جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو عہدے سے ہٹانے کے لیے بنائے گئے ریفرنس میں فروغ نسیم کی ہی مغز ماری تھی۔
صرف چند باخبر لوگوں کو ادارک ہے کہ موقر محکمے کے بااثر ترین افسر نے کہا تھا کہ ہمارا ہاتھ دھرنے میں ثابت ہوا تو وہ مستعفی ہوجائیں گے۔ لیکن اب ہم دیکھ رہے ہیں کہ کس نے توسیع کے لیے پاپڑ بیلے اور دھرنا کیس میں حساس اداروں کے کردار کو بے نقاب کرنے والے جج کو گھر بھیجنے کے لیے کیسے پورے نظام انصاف کو یرغمال بنانے کی کوشش کی گئی۔
قاضی فائز عیسیٰ کیس کی سماعت کے دوران ایک جج نے کہا کہ ہمیں اس روشن دماغ کی تلاش ہے جس نے ٹیکس معاملے پر جج کے خلاف ریفرنس بھیجنے کی ہدایت کی۔ صحافیوں کی ڈیسک سے آواز آئی کہ جج صاحب نیچے دیکھو روسٹرم پہ۔ روسٹرم پہ فروغ نسیم صاحب ایک مرتبہ پھر وزارت چھوڑ کے قاضی فائز عیسیٰ کو گھر بھیجنے پر دلائل دے رہے تھے۔
ویسے فروغ نسیم کے وزیر بننے اور وکیل بننے کے چکر میں پاکستان بار کونسل کو بہت محنت کرنا پڑی۔ قاعدے کے مطابق وزیر بطور وکیل پیش نہیں ہوسکتا اس لیے جب وہ وزیر بنتے تو ان کا لائسنس منسوخ کرنا پڑتا اور پھر جب وہ استعفیٰ دیکر وکالت کرنے آتے تو ان کا لائسنس پاکستان بار کونسل کو بحال کرنا پڑتا۔ ایک دفعہ تو پاکستان بار کونسل کے وائس چیرمین امجد شاہ ڈٹ ہی گئے اور کہا کہ یہ کیا ڈرامہ ہے تاہم بعد میں انہوں نے لائسنس بحال کردیا۔
فروغ نسیم وزارت کا حلف لیکر آجکل پھر بظاہر بھارتی جاسوس کلبھوشن کو واپس گھر بھیجنے کے مشن پر ہیں۔ نفیس وزیر کہلانے والے نے انتہائی نفیس طریقے سے واردات ڈالتے ہوئے کلبھوشن یادیو کے لیے خفیہ آرڈیننس جاری کیا اور عین اس وقت جاری کیا جب پارلیمنٹ کا اجلاس بھی چل رہا تھا۔
پیپلزپارٹی کے چیرمین نے کلبھوشن یادیو سے متعلقہ آرڈیننس کو منظرعام پر لاتے ہوئے اس اقدام کو انتہائی شرمناک قرار دیا اور کہا کہ عوام اور پارلیمنٹ سے اسے چھپانا حکومت کے کلبھوشن کو رہا کرنے کے مذموم مقاصد کا مظہر ہے۔
فروغ نسیم نے اسمبلی میں خطاب کرتے ہوئے "را "کے جاسوس کلبھوشن کے لیے خفیہ آرڈنینس کا دفاع کرتے ہوئےخود کو عالمی عدالت انصاف کے فیصلے کی پیچھے چھپانے کی بھرپور کوشش کی۔ کہتے ہیں کہ اگر ایسا نہ کرتے تو بھارت پھر معاملہ سلامتی کونسل اور عالمی عدالت انصاف میں لے جاتا۔ اگر سچ پوچھو تو عالمی عدالت انصاف کوئی توپ چیز نہیں جب تک دونوں فریقین راضی نہ ہوں تو وہ مقدمہ سن ہی نہیں سکتی۔ جب پاکستان نے برملا کہا کہ کلبھوشن ہمارے ملک میں دہشتگردی کے نیٹ ورک کو منظم کرنے میں ملوث ہے تو پھر پاکستان کو عالمی عدالت انصاف میں فریق ہی خود کو نہیں بنانا چاہیے تھا۔
اگر بھارتی جاسوسی کے معاملے پر ہیگ میں قائم اس عدالت کے دائرہ اختیار کو تسلیم کرلیا تو پھر فیصلے کے مطابق آپ نے تو عملدرآمد کیا تو پھر کوئی حد سے تجاوز کرتے ہوئے بھارتی جاسوس پر اتنی مہربانیاں کیوں؟ پل بھر کو مان لیتے ہیں کہ پاکستان کی مجبوری ہے کہ عالمی عدالت کے فیصلے پر عمل کرے تو اس کے لیے تو پاکستان نے یکے بعد دیگرے قونصلر رسائی اور پھر اسے اپیل کا حق بھی دیا۔
قانونی طور پر اور فیصلے کے مطابق تو پاکستان نے عمل کیا اب اگر کلبھوشن یا بھارت سرکار نے خود اپیل کا حق استعمال کرنے سے معذرت کرلی تو پھر کونسی مجبوری تھی حکومت خود ہی اس کی وکیل ہوگئی اور پھر اسلام آباد ہائی کورٹ میں نہ صرف اپیل دائر کردی ۔
یہی نہیں بلکہ کلبھوشن یادیو سے متعلقہ آرڈنینس میں توسیع کے لیے اپوزیشن کو بھی دباؤ میں لایا گیا تاکہ اس کی پارلیمنٹ سے توسیع ہوجائے۔
دال میں نہ صرف کالا ہے بلکہ پوری دال ہی کالی ہے۔ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی جس نے کبھی ریمنڈ ڈیوس کے معاملے پر سیاست کرتے ہوئےملبہ صدر زرداری پر ڈالنے کی ہرممکن سعی لیکن بھلا ہو اس ریمنڈ ڈیوس کا جس نے نذرونیاز پہ اپنے غریب مریدوں کو لوٹنے والے ملتانی پیر کو جھوٹا قرار دیتے ہوئے اپنی کتاب دی کنٹریکٹر میں لکھتے ہیں کہ اس وقت فوج کے سربراہ اشفاق پرویز کیانی اور آئی ایس آئی کے سربراہ جنرل شجاع پاشا نے انہیں رہائی دلائی۔
اب وہی ملتانی پیر فروغ نسیم کی ہاں میں ہاں ملاتے ہوئے کبھی عالمی عدالت انصاف کے فیصلے کے پیچھے چھپنے کی کوشش کرتے ہیں تو کبھی ہمیں قونصلر رسائی کے لیے مودی سرکار کے ترلے کرتے نظر آتے ہیں۔ موصوف نے تو یہاں تک کہہ دیا کہ اگر کلبھوشن کے بدلے بھارت سے کشیدہ تعلقات بحال ہوجاتے ہیں تو یہ گھاٹے کا سودا نہیں۔ لیکن اس سارے معاملے میں حائل قانونی پیچدگیاں دور کرنے کا سہرا "را” کے دہشت گردوں کے پرانے وکیل فروغ نسیم کے سر ہے۔
جی وہی فروغ نسیم جو "را” کے مبینہ دہشتگردوں کی وکالت کرتے رہے ۔ جن لوگوں کی فروغ نسیم نے وکالت کی کراچی کو الگ ریاست جناح پور بنانے کا ان کا خواب تو پورا نہیں ہوا لیکن اب وہ آئین پاکستان کے در پہ ہیں۔
مشرف کی وکالت کے دوران جب انہیں عملی طور پر علم ہوا کہ اٹھارویں ترمیم نے تو نہ صرف آئین پاکستان پر شب خون مارنے والے آمروں کا راستہ بند کیا ہے بلکہ انہیں غدار بھی قرار دیا ہے تو انہوں نے فوج کے ایک مخصوص طبقے کو اس کے خلاف اکسایا۔
فروغ نسیم اور ان کی سیاسی جماعت ایم کیو ایم ہمشیہ آمریت کے سائے تلے پھلے پھولے۔ کیونکہ پاکستان پیپلز پارٹی ہمشیہ آمریت کے خلاف جمہوریت اور عوامی راج کی علمبردار ہے تو اس لیے کراچی میں اسے کمزور کرنے کے لیے ہر آمر نے اس "را” کی سپانسرڈ سیاسی قوت کو تقویت دی۔
تبھی تو فروغ نسیم نے اٹھارویں ترمیم آڑانے کے لیے اتنی تاویلیں دیں کہ اب خود ان کے ان داتا اور اس کے ہم نوا صوبوں کو خود مختاری اور قومی وحدت کے حقوق کو تحفظ دینے والی اس ترمیم کے پیچھے لٹھ لے کے پڑ گئے ہیں۔
پاکستان کے اردو میڈیا میں سندھ کے خلاف تعصب اور پیپلز پارٹی کے خلاف بے حد پروپگنڈہ کو اس لیے تو ہوا دے دی گئی ہے کیونکہ ان کو پتہ ہے کہ آئین پاکستان کے خالق بھٹو شہید کی پارٹی اور اس کی موجودہ قیادت ہرگز اس اٹھارویں ترمیم کو اڑانے کی اجازت نہیں دے گی۔ صدر آصف علی زرداری کے خلاف جھوٹے کیسز اور ان کے خلاف نیب گردی پی پی پی پر دباؤ بڑھانے کے لیے ہے۔
دباؤ کی وجہ سے پیپلز پارٹی مخالف تحریک انصاف اور فروغ نسیم کی پارٹی کو کراچی میں مزید سپیس دی جارہی ہے۔ اس بات کا اندازہ یہاں سے لگا سکتے ہیں کہ جو بھتہ خوری ایم کیو ایم کرتی تھی اب مقتدر قوتوں کی سرپرستی میں وہ تحریک انصاف کے لیے مختص کی جارہی ہے۔ کراچی میں قربانی کی کھالوں کا صرف تحریک انصاف کو دینے کا کنٹونمنٹ کا نوٹیفکیشن اس کا شاہد ہے۔
خیر ان سیاسی بھول بھلیوں سے بالاتر ہوکر آخر میں صرف اتنی عرض ہے کہ اس کٹھ پتلی سرکار کے وزیر قانون بھارتی جاسوس کی وکالت کرتے ہوئے بہت جلد اسے بھارت میں را کے ہیڈ کوارٹر میں واپس بھیجنے چاہتے ہیں۔
یہی اب ان کا اولین مقصد ہے۔ اگر اسلام آباد ہائی کورٹ میں کسی بھی پاکستانی وکیل نے حب الوطنی کے جذبے سے کلبھوشن کا کیس نہ لڑا تو آپ دیکھیں گے کہ موصوف ایک دفعہ پھر وزارت سے استعفیٰ دیکر خود بطور وکیل پیش ہوجائیں گے۔
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر