نومبر 24, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

ملتان:خاتونِ اول اور شاہ محمود قریشی (1)۔۔۔رانا محبوب اختر

دو دوست ، بہاوالحق ذکریا ملتانی رح اور کوٹھے وال ملتان میں پیدا ہونے والے بابا فرید شکر رح،مقتدرہ کے دو اہم کرداروں کے لئے چراغ روشن کرتے ہیں!!

ملتان، ادی استھان ہے، ادی کا مطلب پہلا اور استھان کا مطلب، اسمبلی یا آستانہ ہے۔پیار کا پہلا شہر، جہاں موہراں نے محبت کے چراغ کی لو اونچی کی تھی. ملتان کی قدامت کے حوالے سے محبت کے شاعر، رفعت عباس نے "شاعرانہ سچ” تخلیق کیا ہے:

سنڑدے ہیں جو پہلے تاں خود ان ملتان بایس

وت کتھاہیں نیل جو بچیا ایہ اسمان بایس

بابل، تختِ جمشید(Persepolis)، موہنجوڈارو، ہڑپہ، اور ٹیکسلا تاریخ کی گرد میں گم ہوئے، ملتان آباد ہے۔ملتان کا قدیمی نام مولستھان بھی ہے۔مُول کے ایک معنی chief capital cityکے ہیں اور مُول ، سوریا یا ادیتیا بھی ہے۔عجب اتفاق ہے کہ مُول راج ، ملتان کا آخری حکمران تھا جب 1849 میں انگریز سامراج نے ملتان کی علیحدہ صوبائی شناخت ختم کر دی کہ دو انگریز افسر، لیفٹیننٹ اینڈرسن اور وانس اگنیو قتل ہو گئے تھے اور رنجیت سنگھ کے بیٹے دلیپ سنگھ کی مدد کے باوجود مزاحمت ہوئی تھی۔اپریل 1848 سے جنوری 1849 تک نو مہینے کے محاصرے کے بعد ملتان فتح ہوا تھا۔ مفتوحہ علاقے کو سامراجی کرودھ کی بنیاد پر لاہور میں ضم کرکے ملتان کی صوبائی حیثیت ختم کر دی گئی۔سامراج کی پالیسی معلوم ہے۔ وہ پہلے قبضہ کرتا ہے۔پھر لوٹتا ہے۔ماضی کو مٹانے کا انتظام کرتا ہے۔خوئے غلامی کو پختہ کرتا ہے اور گزارے کے لئے امداد دے مفلسی کو دوام دیتا ہے۔IMFاور ورلڈ بنک بناتا ہے۔ تاکہ غلاموں کی سانس چلتی رہے اور منڈیاں کام کرتی رہیں۔1947میں آزادی ملی مگر سامراجی انتظام برقرار رہا، صوبہ بحال نہ ہوا کہ ملتان کی قدامت اور تاریخ کی empatheticتفہیم کے بغیر صوبے کی بحالی ناممکن ہے۔ نئے نوآبادیاتی انتظام کے لئے سامراجی پالیسی کا دوام ضروری ہے۔

پورے پیراڈائم کی ہمدردانہ تفہیم کے لئے ملتان کے ماضی پر نظر ڈالتے ہیں۔ملتان کے قدیم نام کشیپ پورہ، پرہلاد پورہ اور سامب پورہ، مقامی اساطیری شخصیات کے نام ہیں( پورہ کا مطلب قلعہ ہے)۔پرہلاد موحد تھے اور کرشن کا بیٹا سامبا کم مایہ شہزادہ تھا۔سپت سندھو کے سات رشیوں میں کشیپ ایک برگزیدہ آدمی تھے۔ ملتان رشیوں اور موحدوں کا مسکن ہونے کی وجہ سے شمال مغربی انڈیا کا مقدس شہر تھا۔ ملتان کی فضا میں کئی کرتار پور سانس لیتے ہیں ، بہادری اور خوش حالی کی کہانیاں مستور ہیں۔سکندر مقدونی Mallian Campaign کے دوران ملتان آیا اور ایک ملی کے تیر سے زخمی ہوا۔ ملی استھان پھر صدیوں میں ملتان ہوا۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ سکندر فاتحِ عالم ہے اور ملتان کا دفاع کرنے والے ملی کا نام تاریخ سے غائب ہے۔عرصہ ہوا ایک کتاب، ” Paradise of gods” میں موجودہ پاکستان یا سندھ وادی کو سوتی کپڑے، خشت سازی، پہلی بڑی بادشاہت،زرعی نظام اور سرکنڈوں سے بنی کشتیوں کی پہلی سرزمین بتایا گیا تھا۔جب ملوہہ لوگ بابل، سومر اور سویڈن تک تجارت کرتے تھے۔ہمارے دوست ،اداکار اور محقق، نعیم طاہر نے اپنی کتاب ” Melluhas” میں شواہد سے ثابت کیا ہے۔ یہ apocryphaنہیں، تاریخ ہے۔عرب، ملتان کو بیت الذہب یا سونے کا گھر کہتے تھے۔محمد بن قاسم یہاں سے تیرہ ہزار تین سو من سونا لے گئے تھے۔جغرافیے، زرخیزی اور خوش حالی نے حملہ آوری کا عذاب اور اک ثقافتی دھنک سندھ وادی کے ملتان کو دی ہے!! 

ملتان کی تاریخ کے سات ادوار ہیں۔پہلے دور میں ملتان، موہن جو ڈارو اور ہڑپہ کے ساتھ لگ بھگ ایک ہزار شہری ریاستوں کا ہم عصر شہر اور IVCکا حصہ تھا۔ تاریخ کا یہ گمنام عہد تھا۔ 1922 میں جان مارشل نے اسے کھود نکالا تھا۔دوسرا ویدک عہد ہے جب ملتان شمالی ہند کا بنارس یا کاشی تھا اور شاعر وید لکھتے تھے۔دلی اور لکھنو سے صدیوں پہلے ملتان خطے کا ثقافتی درالخلافہ تھا پھر مرزا ابن حنیف اور ڈاکٹر اسد اریب کو محبوب ہوا۔ یہ زمانہ موہنجوڈارو اور ہڑپہ کے شہری عہد سے مختلف تھا کہ اب شہر کی بجائے بستیاں اورتیرتھ تہذیبی مراکز تھے۔ ویدک عہد کی شاعری تاریخ کا قدیم ترین ماخذ ہے۔تیسرا عہد، رزمیہ یا Epic Ageکہلاتا ہے ، یہ مہابھارت اور رامائن کا زمانہ ہے۔ مہابھارت خطے کا رزمیہ ہے جب ملتان سے دریودھن اور گندھاری کے قبیلوں نے کرشن اور ارجن سے یدھ لڑا تھا اور سندھو سویرا کے کورو، گنگا کے پانڈوں سے ہار گئے تھے۔سندھو سویرا کا علاقہ پاکستان ہے اور پانڈوں کا گنگائی میدان، بھارت ہے۔بر صغیر میں احمقانہ دشمنی کی بنیادیں پرانی اور نفسیاتی ہیں اور انھیں سمجھے بغیر پاک بھارت دوستی خواب رہے گی!سندھ اور ہند کی تقسیم ، قدیمی اور فطری ہے۔ہمارے بیانیوں میں ماضی کا زہر مگر بھرا ہے جسے عرب، افغان اور ترک مسلم حکمرانوں کی تاریخ reinforceکرتی ہے۔ہندوتوا کو اس سے رزق ملتا ہے کہ ہم تاریخ کا تجزیہ نہیں کرتے، تعصب کی عینک سے وہ دیکھتے ہیں جو دیکھنا چاہتے ہیں۔چوتھا عہد بدھ نشاتہِ ثانیہ کا ہے جب ملتان ٹیکسلا اور پشاور کے ساتھ تجارت ، علم و دانش، مذہب اور روحانیت کا مرکز تھا۔اس عہد کا چراغ سنسکرت گرائمر کا بانی، پانینی تھا۔گوپی چند نارنگ کہتے ہیں کہ پانینی، ملتان کا تھا۔ محمد بن قاسم 712میں ملتان آئے اور اس کے بعد ملتان میں اموی، عباسی اور فاطمی سلطنت کی امارات ملتان میں قائم ہوئیں۔ محمود غزنوی نے اسماعیلی حکومت کا خاتمہ تو کیا تھا مگر ملتان کو غزنی یا کابل کے ساتھ نہیں ملایا تھا۔ملتان صوبائی کی حیثیت برقرار رہی تھی۔پانچواں عہد دلی سلطنت کے بادشاہوں اور مغلوں کا ہے۔جب غیاث الدین تغلق کے لئے بنے مقبرے میں شاہ رکنِ عالم رح مدفون ہوئے۔بلبن اور قباچہ نامور صوبیدار تھے۔ امیر خسرو جیسا نابغہ ملتان میں مہمان بن شعر لکھتا ، عشق کرتا تھا۔ 1300ء میں ابنِ بطوطہ ملتان آئے اور ملتان کو ایک بڑا تجارتی مرکز لکھا۔سومرا حکمرانوں کا عہد اور بڈھن خان لنگاہ کے خاندان کی 80 سالہ حکومت میں حسین لنگاہ (1469سے 1498) کا عہد، ملتان کا اچھا وقت ہے۔لنگاہ عہد1526میں ختم ہوا تو سمرقند ، بخارا اور باکو میں ملتانی تاجر سرائیں بنوا چکے تھے اور ملتان وسطی اور جنوبی ایشیاء کا بڑا تجارتی مرکز تھا۔اکبر نے 1572سے 1580کے درمیان انتظامی اصلاحات کیں اور ہندوستان کو بارہ صوبوں میں تقسیم کیا تو ملتان صوبہ تھا۔دکن کی فتح کے بعد خاندیش ، برار اور دولت آباد کے اضافے سے یہ تعداد پندرہ ہو گئی۔جہانگیر کے عہد میں سترہ صوبے ہوئے اور اڑیسہ کو بنگال سے علیحدہ ہوا مگر ملتان کی صوبائی حیثیت برقرار رہی۔ شاہ جہاں نے پانچ نئے صوبے بنائے تو ملتان حسبِ تاریخ صوبہ اور صوبائی دارلخلافہ رہا۔شاہ جہاںنے مگر کشمیر کو کابل اور ٹھٹھہ کو ملتان سے علیحدہ کر دیا تھا۔اورنگ زیب نے تین صوبوں کا اضافہ کرتے ہوئے بیجاپور،سیرا اور گولکنڈہ کو صوبہ بنایا، ملتان صوبہ رہا۔اورنگ زیب 1707 میں فوت ہوئے تو یورپ میں Westphaliaمعاہدہ کو 59 سال گزر چکے تھے اور جدید ریاست کی بنیادیں اٹھائی جا رہی تھیں۔روشن خیالی اور عقلیت دخانی جہازوں پر بیٹھ کر کولونیل ازم کے سفر پر روانہ تھے اورہندوستان میں طوائف الملوکی تھی۔ملتان کی تاریخ کا چھٹا دور 1818کے سقوطِ ملتان سے شروع ہوتا ہے جب رنجیت سنگھ نے مظفر خاں کو شہید کرکے ملتان پر قبضہ کیا۔مقامی لوگوں کے حافظے میں رنجیت سنگھ کی "بھگی” محفوظ ہے جب سکھوں کے جتھے بستی بستی لوٹ مار کرتے تھے۔مگر سکھا شاہی میں ملتان صوبہ رہا۔ملتان کی صوبائی حیثیت 1849میں انگریز سامراج کے قبضے پر ختم ہوئی اور 1947 میں آزادی کے بعد بھی یہ سامراجی ناانصافی جاری ہے اور سامراجی aberrationکا دفاع کرنے والے بھی موجود ہیں۔سرائیکی صوبے کا مطالبہ، "ظالمانہ انتقامی سامراجی انضمام” کے خاتمے کا مطالبہ ہے۔یہ تاریخ کو درست کرنے کا مطالبہ ہے۔ ملتان کے تاریخی اور ثقافتی احیاء کا نہیں، بازیافت کا مطالبہ ہے۔ آئین کے آرٹیکل 238 اور 239 کے مطابق آرٹیکل 1میں نئی وفاقی اکائی کے اضافے کا دستوری مطالبہ ہے۔اس لئے ہر سیاسی جماعت انتخابات سے پہلے اس مطالبے کی حمایت کرتی ہے۔2018کے انتخابات سے قبل جنوبی پنجاب صوبہ محاذ تحریک انصاف میں ضم ہوا تو یہ وعدہ ہوا کہ سو دن میں نیا صوبہ بن جائے گا۔لگ بھگ 700دن بعد جنوبی پنجاب سیکرٹریٹ کے قیام کے لئے اقدامات ہو رہے ہیں۔ ملتان اور بہاولپور کی جدلیات کو سمجھے بغیر دھول اڑائی جا رہی ہے۔ملتان سے خاتونِ اول، بشری بیگم اور شاہ محمود قریشی کا ذاتی اور روحانی تعلق ہے۔دو دوست ، بہاوالحق ذکریا ملتانی رح اور کوٹھے وال ملتان میں پیدا ہونے والے بابا فرید شکر رح،مقتدرہ کے دو اہم کرداروں کے لئے چراغ روشن کرتے ہیں!!

(جاری ہے)

About The Author