اِس بات میں اب شک کی کوئی گنجائش باقی نہیں رہ گئی کہ پاسبانِ جمہوریت آصف علی زرداری کو پی ٹی آئی حکومت مارنا چاہتی ہے۔ ضیاء و پاشا کی معنوی اولاد کے علاوہ طوائف طبیعت میڈیا پچھلے تنتیس سال سے مسلسل ان کی کردار کشی کرتا آ رہا ہے۔ ان کے قتل کی پہلی کوشش اسٹیبلشمنٹ کے شریفین نامی چابی والے کھلونوں کی تھی۔ آصف علی زرداری پر تشدد کی ایک طویل داستان کے علاوہ اِن کی زبان اور گردن کاٹنے والے اذیت و کرب میں مبتلا کر دینے واقعات کو بھلا کیسے فراموش کیا جاسکتا ہے؟
آصف علی زرداری نے بلوچ خاندان سے اعصاب کی مضبوطی اور ننھیالی خاندان سے مسلم دُنیا کے عالم آفندی کی روحانیت کا حد درجہ اثر ہونے کی وجہ سے حُسینی بن کر سب مصائب صبر و استقلال سے جھیلے لیکن یزیدی لشکر کے سامنے حوصلے پست نہ کیے۔ بغیر کسی جُرم کے عمر قید جتنا عرصہ یعنی بارہ سال جیل میں پُرتشدد زندگی گزارنے کے بعد فتح یاب ہو کر جب لوٹے تو بدترین دُشمنوں کی طرف سے بھی مردِّ حُر کہلاۓ گئے۔
آصف علی زرداری کی جوانی تو پہلے ہی جیل کی نظر ہو چکی ہے۔ اب اُن پر بڑھاپا آیا ہے تو اِس وقت حمید گل کے غُنڈے شاگرد (اگر کسی کو لفظ غنڈے پر اعتراض ہے تو پھر وہ عبدالستار ایدھی مرحوم کی اس بارے معتبر گواہی دیکھے۔) اور شجاع پاشا کا اُنگلی ناچا جمُورا عمران احمد نیازی عوامی مینڈیٹ پر ڈاکہ ڈال کر مسند اقتدار کے لیے سلیکٹ ہو چکا ہے، جس نے حمید گل (وہی جنرل حمید گل جو سینہ تان کر اور خم ٹھونک کر کہا کرتا تھا کہ اُس نے بے نظیر بھٹو کو الیکشنز میں اکثریت سے جیتنے سے روکنے کے لیے آئی جی آئی بنوایا تھا۔) سے پیپلز پارٹی کی نفرت کی گھٹی پی کر بُوٹوں کی دُھول چاٹ کر سیاست میں بلوغت پائی ہے۔ ماضی کے جمُوروں کی طرح لمحہ موجود کے جمُورے عمران احمد خان نیازی کا بھی اولین مشن یہ ہے کہ آصف علی زرداری کو جلد سے جلد ابدی ننید سُلا دیا جاۓ۔
2018ء کے عام انتخابات سے قبل “سلیکٹرز” نے زرداری صاحب کے سامنے اپنی سلیکشن کے ذریعے مستقبل کی حکومت کا منصوبہ پیش کیا، جس میں عمران نیازی کے ساتھ اتحاد کی پیشکش کی گئی تھی۔ بڑی اور اہم شرط فقط یہ تھی کہ اٹھارویں ترمیم میں من پسند ترامیم میں مدد کی جائے۔ لیکن آصف علی زرداری نے انکار کرتے ہوئے کہا کہ عمران نیازی کا سیاست میں کردار فقط ایک پانی کے بُلبلے ایسا ہے جو کسی وقت بھی پھٹ کر ہمیشہ کے لیے فنا ہو سکتا ہے، لہٰذا عمران نیازی کے ساتھ اتحاد ممکن نہیں ہے۔ مزیدبرآں، اٹھارویں ترمیم میں تبدیلی نہ صرف قومی وحدتوں بلکہ آئین پاکستان سے طبل جنگ ہو گا، اس لیے میں تاریخ کی درست سمت پہ رہ کر پاکستان کی قومی وحدتوں کے حقوق اور آئین پاکستان کا دفاع کروں گا۔ سلیکٹرز نے واشگاف الفاظ میں دھمکی دی کہ آپ پھر نتائج کے لیے تیار ہو جائیں۔ زرداری صاحب نے پوری بہادری سے جواب دیا کہ آئین سے غداری آپ کا شیوہ ہے اور مجھے بھٹو خاندان سے آئین سے وفاداری کے لیے تختہ دار پہ لٹکنا وراثت میں ملا ہے۔
فہم و فراست سے عاری سلیکٹرز نے اپنی توہین اور حکم عدولی کا بدلہ لینے کے لیے “بابے رحمتے” سے رابطہ کیا ۔ سپریم کورٹ میں ججز بلاک میں سب سے اوپر والی منزل میں قائم چیمبر نمبر ایک میں بابے رحمتے کے سفید رنگ کے آئی فون پر وَٹس ایپ کال آتی ہے۔ جو کوہسار کمپلیکس سے کی گئی فون کال کے دوران دیئے گئے حکم سے انکار تو نہیں کرتے لیکن اتنا ضرور کہتے ہیں کہ انتخابات سر پہ ہیں اگر سوموٹو کی تلوار زرداری پر چلائی تو شور مچ جائے گا، میری ساکھ کے ساتھ ساتھ آپ کے ادارے پر بھی سیاسی انجینرئینگ کے الزامات آئیں گے۔ دوسری طرف سے آواز آتی ہے، وہ ہم سنبھال لیں گے، زرداری کے خلاف جو 2015ء سے انکوائری ہو رہی ہے، وہ اب ختم ہونے کے قریب ہے، بس آپ نے اِسے بھرپور طریقے سے دوبارہ زندہ کرنا ہے۔
بابا رحمتا ڈی جی ایف آئی اے بشیر میمن کو بلا کر اُس سے جعلی بنک اکاونٹس کیس پر بریفنگ لیتا ہے۔ بشیر میمن نے بریفنگ میں واضح کیا کہ اس کیس میں جان نہیں ہے اور کراچی میں متعلقہ فورم اس کو عنقریب نمٹا دے گا۔ بابا رحمتا فکر مند ہو کر بولا کہ اس کیس میں جان کیسے ڈالی جائے؟ آصف علی زرداری سے پرانا بغض رکھنے والا بشیر میمن بولا، سر ہم تو اس میں جان نہیں ڈال سکتے، آپ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس ہیں، آپ 184/3 کا اختیار استعمال کرتے ہوۓ اس کیس کو زندہ کر سکتے ہیں اور ایف آئی اے آپ کے ساتھ مکمل تعاون کرے گی۔ بابا رحمتا مطمئن ہو کر بولا، چلو ٹھیک ہے، مزید دیکھتے ہیں کہ اس سلسلے میں کیا کرنا ہے۔
بابا رحمتا اس معاملے کے سیاسی پہلوؤں سے خوب آگاہ تھا، اُسے پوری طرح ادارک تھا کہ انتخابات کے وقت اس معاملے کو اٹھانے سے براہ راست اُس پر الزام آئے گا لیکن وہ سیاسی بصیرت سے عاری سلیکٹرز کے سامنے بے بس تھا۔ بابا رحمتا آصف زرداری کے معاملے سے پہلو تہی کر رہا تھا لیکن دباؤ حد سے بڑھ رہا تھا حتٰکہ ہائی رینک کے “سلیکٹرز” چیف جسٹس کے چیمبر نمبر 1 سے اتنے مانوس ہو چکے تھے کہ آئے روز کوئی نہ کوئی وہاں موجود ہوتا تھا۔ “دنیا کی ٹاپ سیکرٹ ایجنسی” کا سربراہ ہو یا نیول چیف، یہاں تک “سالار وطن عزیز” بھی بذاتِ خود اکثر وہاں آ دھمکتے تھے۔ بہانہ ڈیم فنڈ ہوتا تھا لیکن نشانے پر کون تھا، آپ سب اب اُن سے واقف ہو چکے ہیں!
بعدازاں، ہم سب نے دیکھا کہ عام انتخابات کا اعلان ہوتے ہی سپریم کورٹ سے ازخود نوٹس آتا ہے اور پھر پہلی ہی سماعت پر جعلی بنک اکاؤنٹس کیس کے نام سے ڈرامہ شروع ہوتا ہے۔ پہلے ہی عدالتی حکم نامے میں آصف علی زرداری اور دیگر لوگوں کو بیرون ملک جانے سے روک دینے کا حکم آتا ہے۔ آصف علی زرداری کو اُس وقت کی صورت حال کا پوری طرح ادراک تھا، ایک جھوٹے کیس پر عکسری و عدالتی ہلچل پر وہ لاہور میں ایک پریس کانفرنس کر کے اس مہم کو قبل از وقت دھاندلی قرار دیتے ہیں۔ اس پریس کانفرنس کا اتنا اثر ہوتا ہے کہ دوسرے ہفتے ہونی والی سماعت پر بابا رحمتا کہتا ہے کہ ہم نے ایسا کوئی حکم نہیں دیا. آنجناب نے سارا ملبہ میڈیا پر گرا دیا اور مؤقف اختیار کہ میڈیا والوں نے میرے حکمنامے کو غلط رپورٹ کیا ہے۔
ویسے تو آصف علی زرداری کی پوری سیاسی زندگی میڈیا و عدالتی ٹرائل سے مزین ہے لیکن اس کیس میں ایک بات قابل ذکر ہے وہ یہ کہ اس وقت کے ڈی جی ایف آئی اے ہر سماعت سے پہلے اور بعد میں بابے رحمتے کے چیمبر کا چکر ضرور لگاتا، جہاں اگلے مراحل کی تردیب دی جاتی تھی۔ یاد رہے بشیر میمن کا بھائی اسٹبلشمنٹ کے بناۓ گئے پی پی پی مخالف سندھی اتحاد جی ڈی اے کے پلیٹ فارم سے الیکشن بھی لڑ رہا تھا۔ بعدازاں، بغضِ زرداری رکھنے والے افسران کو چُن چُن کر جعلی کیس کی تحقیقات کے لیے جے آئی ٹی میں شامل کیا گیا۔
جب متعصب جے آئی ٹی رپورٹ آئی تو خود بابا رحمتا بھی بولنے سے نہ رہ سکا کہ جے آئی ٹی نے اپنے اختیارات سے تجاوز کیا ہے، جو ان کو مینڈیٹ نہ تھا وہ بھی انہوں نے کر دکھایا۔ بلاول بھٹو زرداری اور مراد علی شاہ کے نام بھی بلاوجہ گھسیٹ کر ای سی ایل میں ڈال دیئے گئے تھے۔ یہاں بھی بابے رحمتے کو پوچھنا پڑا “بلاول بھٹو زرداری اور مراد علی شاہ کے نام کیوں شامل کیے گئے ہیں؟ بلاول تو اپنی ماں کے مشن پر گامزن ہیں”۔
اس کے بعد جعلی اکاؤنٹس کا جھوٹا کیس نیب کو منتقل ہوا اور نیب نے غیرقانون طور پر کسی ثبوت و ریفرنس کے بغیر بیمار آصف علی زرداری کو گرفتار کر لینے کے چند دنوں بعد اُن کی بہن فریال تالپور کو بھی بغیر کسی مقدمے کے پابند سلاسل کر دیا۔۔ کسی ایف آئی آر، فرد جرم اور عدالتی حکم کے بغیر آصف علی زرداری کو چھ ماہ تک پابند سلال رکھ کر ہر ممکن صعوبت دی گئی۔ خرابی صحت کی وجہ سے ان کو علاج معالجے اور ڈاکٹروں تک رسائی نہ دی گئی۔ باقی سہولتیں تو کیا ادویات رکھنے کے لیے فریج تک فراہم نہ کی گئی۔ جب آصف علی زرداری کی صحت خطرناک حد تک بگڑ گئی تو خود نیب اور سرکاری اسپتال پمز کے ڈاکٹروں نے ان کی صحت کو تشویشناک قرار دے دیا۔ اِس کے علاہ وزیرِ داخلہ اعجاز شاہ کو ایجنسیوں نے بھی رپورٹ دی کہ اگر آصف علی زرداری مزید نیب کی حراست میں رہے تو خدشہ ہے کہ ان کی موت کا الزام ہم پر نہ آ جائے۔ بقول اعجاز شاہ کہ اُنھوں نے مداخلت کر کے زرداری کو کراچی بھجوایا۔ بغضِ زرداری میں تڑپنے مرنے والا ٹولہ بے حد خوش تھا کہ اپنے پاؤں پر چل کر آنے والا زرداری وہیل چیئر پر بیٹھ کر کراچی گیا ہے۔
آصف علی زرداری کے نیب سے رہا ہونے کے بعد بھی نیب کے دفاتر، سلکیٹرز کی میٹنگز، عقوبت خانے کی راہ داریوں میں یہ سرگوشیاں عام تھیں کہ اب زرداری زندہ نہیں بچیں گے، ان کے ساتھ جو نیب حراست میں ہوا وہ جلد اس دنیا سے رخصت ہو جائیں گے ۔ظالموں نے یہاں پر بس نہیں کیا بلکہ اس سے بڑھ کر ایک حوالدار ٹی وی چینل کے صحافی سے خبر، وی لاگ اور ٹویٹ کرایا گیا کہ آصف علی زرداری اللہ کو پیارے ہو گئے ہیں۔ پھر وقفے وقفے سے ان کی موت کی خبریں چلائی گئیں۔ ایسا اس لیے کیا گیا کہ اگر خدانخواستہ زرداری داغ مفارقت دے جائیں تو ہم پر الزام نہ آئے۔ اِس کے بعد بھرپور پراپگنڈہ کیا گیا کہ آصف علی زرداری کے وارثوں کی طرف سے ستائیس رمضان کو زرداری کی موت کا اعلان کیا جاۓ گا۔
زندگی اور موت خالقِ کائنات کے ہاتھ میں ہے۔ اللہ تعالٰی نے اُنھیں محفوظ رکھا اور جب وہ روبہ صحت ہوے تو محترمہ بے نظیر بھٹو کی سالگرہ کے دن اور فادر ڈے کے موقع پر زرداری خاندان نے زُوم کے ذریعے ڈیجٹل ملاقات کی (آن لائن ملاقات کی وجہ کرونا سے تدارک تھا)۔ بختاور بھٹو زرداری نے اپنے والد کی فوٹو سوشل میڈیا پر جاری کی تو بے ضمیروں کی امیدوں پر پانی پِھر گیا۔
بعدازاں، آصف علی زرداری نے فون کے ذریعے پی پی پی کے رہنماؤں سے گفتگو کا آغاز کیا، تو “سر تا پاؤں والی” بے شرم نیب سرکار کو ایک بار پھر سے متحرک کر دیا گیا۔ اب ہم ایک بار پھر دیکھ رہے ہیں کہ کیسے جعلی کیسز بناۓ جا رہے ہیں۔ پارک لین، توشہ خانہ اور اللہ جانے ماضی کی طرح کتنے جھوٹے کیسز بنائے جائیں گے۔
آصف علی زرداری کو ابدی نیند سلانے میں عالمی استعماری قوتوں کا بھی بھرپور کردار شامل ہے۔ یہ تو اب ہر باشعور پاکستانی پر واضح ہو چکا ہے کہ پی ٹی آئی کی حکومت کو عالمی استعمار کے اکنامک ہِٹ مینوں کے ذریعے چلایا جا رہا ہے اور اقتصادی نیو لبرل نظام کے ایجنڈے کی تکمیل کے لیے یہاں کے حقیقی رہنماؤں اور سیاستدانوں پر ففتھ جنریشن کی آڑ میں Lawfare نافذ کر رکھا ہے۔ اب یہ لاء فیر کیا ہے؟ بہت سے لوگ اس انگریزی اصطلاح سے واقف نہیں ہیں۔ دراصل یہ ففتھ جنریشن وار فیر یا جسے کچھ لوگ ہائیبرڈ وار بھی کہتے ہیں، اس کا ایک ٹُول ہے۔ دوسرے الفاظ میں قانون، احتساب اور عدلیہ کا استعمال کرتے ہوۓ سیاسی مخالفین یا ان کے ایجنڈے کے مخالف رہنماؤں پر یہ ٹُول نافذ کر کے مذموم مقاصدحاصل کیے جاتے ہیں۔
اس لاء فیر کو سمجھنے کے لیے پاکستان میں یکطرفہ احتساب کی مثال کافی ہے۔ ویسے سپریم کورٹ کے جج جسٹس مقبول باقر کی جانب سے نیب سے متعلق دیئے گئے فیصلے نے اس لاء فیر کو ویسے ہی بے نقاب کر دیا ہے کہ کس طریقے سے نیب سیاسی انجینرئینگ کے لیے حکومتی آلہ کار بن کر سیاسی مخالفین پر جھوٹے کیسز بنا کر دباؤ ڈال رہا ہے۔
یہاں یہ بات کرنا ضروری ہے کہ پاکستان اور لاطینی امریکہ کے سیاسی معروضی حالات ایک جیسے ہیں۔ جمہوریت اور آمریت کی باہمی چپقلش بھی ایک جیسی ہے۔ برازیل کی آمریت کے خلاف مزاحمتی تحریک کی روح رواں دلما روسف جس کا فوجیوں نے نہ صرف ریپ کیا تھا بلکہ قید و بند کی صعوبتیں بھی اس نے برداشت کی تھیں، وہ 2011ء سے 2016ء تک صدر رہیں۔ پانچ سال مکمل کرنے کے بعد جب وہ 2016ء میں بھاری اکثریت سے صدر بنیں تو ان پر بھی صدر آصف علی زرداری کی طرز پر کرپشن کے جھوٹے الزامات لگائے گئے اور ان کا مواخذہ کیا گیا۔ ارجنٹائن کی صدر کرسٹینا کریچنر کے ساتھ بھی کچھ ایسا ہوا۔ دونوں کو سکیورٹی رِسک اور یہاں تک کہ غدار تک کہا گیا۔ کرسٹینا کی معزولی کے بعد جب ان پر غداری کا مقدمہ چل رہا تھا، دلیما روسف اُن کی ڈھارس بندھانے کے لیے ان سے ملنے گئیں تو اُنھوں نے لاء فیر سے متعلق ایک تاریخی جملہ ادا کیا کہ میری بہن غم نہ کھاؤ، لوگ جانتے ہیں کہ اصل غدار کون ہیں؟ ہمارے ملک کے استحصال کرنے کے لیے نیو لبرل معاشی نظام نے لاء فیر نافذ کر دی ہے۔ وہ یکطرفہ عدلیہ، قانون اور احتساب کے ذریعے یہاں کے حقیقی رہنماؤں کو سزائیں اور قیدیں دے کے کٹھ پتلی راج کے ذریعے ہمارے وسائل کی لوٹ ان کا مطمع نظر ہے۔ ہمیں ہر صورت مزاحمت کرنی ہے۔
پاکستان کی طرح برازیل میں بھی ججز کے اسکینڈلز، پراسیکیوٹرز کو دی گئی رشوت اور دباؤ جیسے معاملات رپورٹ ہو چکے ہیں۔ اور اگر رتی برابر بھی فہم وفراست اور عقل و شعور کی بینا آنکھ سے دیکھا جاۓ تو پاکستان میں بالکل ایسا ہی نیو لبرل معاشی کٹھ پتلی راج قائم کیا گیا ہے۔ پاکستان کے تمام بڑے اور مدبر سیاستدان جھوٹے مقدمات کی زد میں ہیں۔ ہر وہ شخص جو عوام کی بات کرتا ہے، اسے یا تو اٹھا لیا جاتا ہے یا پھر خاموش کر دیا جاتا ہے۔ میڈیا پر لگی قدغنیں بھی اس کا پتہ دے رہی ہیں۔ آصف علی زرداری اس کٹھ پتلی راج کے خلاف سب سے زیادہ خطرہ ہیں۔ ان کے ہوتے ہوئے اس ملک کو یوں بے دردی سے لوٹنا ممکن نہیں ہے کیونکہ پاکستان کی تمام قومی وحدتوں کو انہوں نے نہ صرف مضبوط کیا بلکہ حقوق بھی دیئے۔ اب وہ تمام وحدتیں ان کی طرف دیکھ رہی ہیں تاکہ اس جمود زدہ کٹھن دور سے ان کو نجات دلائی جا سکے۔
اکنامک ہِٹ مین کا کھلا اعتراف نامی مشہور کتاب میں نیولبرل معاشی نظام کے قیام میں معاون اکنامک ہِٹ مین اعتراف کرتے ہیں کہ جب کوئی ہمارے مقاصد میں رکاوٹ بن جاۓ تو اس کو قتل بھی کر دیا جاتا ہے۔ متعدد ممالک کے سربراہان اور سیاسی رہنماؤں کو قتل کر کے ہم نے راستے سے ہٹایا۔ ایک جگہ وہ لکھتے ہیں کہ جب ہم کسی ملک کی فوج کو جدید ہتھیار اور تربیت دیتے ہیں تو پھر ہم اس ملک کا سونا لوٹیں، گیس یا پھر تیل اس ملک کے ادارے قومی مفاد کی بجاۓ ہمارا تحفظ کرتے ہیں۔
سوچیئے! کیا پاکستان میں سب کچھ ایسا نہیں ہو رہا؟
سنسرشپ کی وجہ سے کم لکھے کو زیادہ سمجھیں۔ راقم کو اُمید ہے کہ تصویر کافی حد تک واضح ہو گئی ہے۔
آصف علی زرداری کے تاریخی کارنامے اٹھارویں ترمیم کے ہوتے ہوۓ پاکستان کو بے ددری سے نہیں لُوٹا جا سکتا۔ اس لیے تو سب کچھ ڈکار کر آڈٹ کروانے سے انکاری اٹھارویں ترمیم کو ردی کی ٹوکری میں پھینکنا چاہتے ہیں اور ملکی وسائل کی لُوٹ میں حائل آصف علی زرداری کو وہ ابدی نیند سلانے کی ہر ممکن کوشش کر رہے ہیں۔ یہ طریقہ واردات بالکل ایسے ہے کہ جیسے انہوں نے پہلے اپنے مذموم مقاصد اور پاکستان میں رنگین انقلاب لانے کے لیے ذوالفقار علی بھٹو کو تختہ دار پر لٹکایا، پھر پاکستان کا روشن خیال تشخص مذہبی جنونیت سے بدل دیا۔ اس کے بعد محترمہ بے نظیر بھٹو کو شہید کیا اور اب آصف زرداری کے در پہ لگے ہیں۔
آصف علی زرداری نے ذوالفقار علی بھٹو نے خارجہ پالسی ‘End To Please Punch Approach’ پر عمل پیرا ہو کر اقوام عالم میں پاکستان کی عظمت بحال کیا۔ پاکستان کی امریکہ نواز پالیسی کا خاتمہ کر کے روس کے ساتھ تعلقات بحال کیے اور پھر پاکستان کو شنگھائی تعاون تنظیم کے لیے فعال بناتے ہوۓ اس کی ممبر شپ کے حصول کے لیے کاوشیں کیں۔ افغانستان میں امن کے لیے سنٹرل ایشیا کے اجتماعی تحفظ کی تنظیم کے لیے بھی پاکستان کو فعال کیا اور پاکستان کو علاقاجاتی معاشی مرکز میں تبدیل کرنے کے لیے سنٹرل ایشیا اور شنگھائی تعاون تنظیم کو گوادر بندرگاہ سے جڑنے کی پیشکش کی۔ ایران پاکستان توانائی پائپ لائن کے ذریعے بلوچستان کی گوادر اور ایران کی چاہ بہار بندرگاہوں کو آپس میں جوڑنے کی سعی کی۔ یہ انکل سام اور پاکستان میں اس کے حواریوں کے لیے ناقابل برداشت تھا۔ حتٰکہ روس اور چین نے زرداری کے اس جرات مندانہ اقدام کی حمایت تو کی لیکن وہ بھی براہ راست آمادہ نہ ہوۓ کہ کھل کے اس ایران پاکستان گیس منصوبے میں معاونت فراہم کرتے۔ تاہم آصف علی زرداری نے بے حد درجہ امریکہ دباؤ کو مسترد کرتے ہوۓ قومی مفاد کو ترجیح دی۔ تب سے ہی تو عالمی استحصالی سامراج کے لیے وہ ناقابل قبول ہو گئے ہیں۔
آصف علی زرداری نے گڑھی خدا بخش میں خطاب کے دوران کہا تھا کہ پاکستان اب کسی جنگی تھیٹر کا حصہ نہیں بنے گا، ہم ہمسیایوں کے ساتھ مل کے معاشی بلاک بنائیں گے۔ دیکھنے والوں نے دیکھا کہ آصف علی زرداری نے اپنا قول نبھایا۔ دوران ملازمت پاکستان پیپلز پارٹی کے خلاف ہمہ وقت سازشیں کرنے والے سابق آرمی چیف جنرل (ر) مرزا اسلم بیگ کا یہ اعتراف تاریخ کا حصہ ہے کہ “رُوس، ایران اور افغانستان سے مستحکم تعلقات بنانے کے ساتھ ساتھ آصف زرداری کا پاکستان کے گرد ایک مضبوط حفاظتی حصار کارنامہ ہے۔ بھٹو کو امریکہ نے سزا دلوائی۔ زرداری نے جو کام کیا، میں برملا کہتا ہوں ہے کہ اِن کی جان کو خطرہ ہے۔ شاہ فیصل بھی اِسی وجہ سے قتل ہوئے”۔
پاکستان کی تاریخ شاہد ہے کہ عوام اور ملکی مفاد کے لیے سعی کرنے والے رہنما کو مار دیا جاتا ہے۔ آصف علی زرداری اسی وجہ سے عالمی سازشوں اور پاکستان میں ان کے کاٹھ کے پتلوں کے لیے ناقابلِ برداشت ہیں۔ تاہم یہ بھی حقیقت ہے کہ پاکستان کے لیے اتنا کچھ کرنے والا رہنما کیسے پاکستان کے خلاف رچائی جانے والی سازشوں پر انجان اور خاموش رہ سکتا ہے؟ پاکستان کے قومی منظر نامے پر ان کے قد کاٹھ سا دوسرا کوئی سیاسی رہنما موجود نہیں ہے۔ اسٹیبلشمنٹ اور عالمی استعمار کے چابی والے کھلونے اِن کے سامنے فقط بونے ہیں۔ تبھی تو یہ ان کو ہمیشہ کے لیے چپ کرانے کی ہر ممکن کوشش کر رہے ہیں۔ یاد رہے کہ یہ بونے بالکل وہی ہیں، جنہوں نے محترمہ بے نظیر بھٹو اور ان کے والد ذوالفقار علی بھٹو کو شہید کیا۔ اِس وقت وہ آصف علی زرداری کو پاکستان کے خلاف اپنے مذموم مقاصد کی تکمیل میں سب سے بڑی رکاوٹ سمجھتے ہیں اور اُنھیں اس بات کا پوری طرح ادراک ہو چکا ہے کہ پاسبان جمہوریت آصف علی زرداری کے ہوتے ہوۓ وہ اپنے مذموم مقاصدمیں کامیاب نہیں ہو سکتے۔
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر