ہر طرف رونقیں ہی رونقین ہیں ملک ترقی کے لئے اونچی اڑان بھر رہا ہے۔پتہ نہیں کیوں مجھ جیسے لوگوں کو ترقی کی طرف اڑان بھرتا جہاز دکھائی نہیں دے رہا۔
بارشوں سے ہرطرف جل تھل ہے۔پنجاب کے پی اور بلوچستان میں بارشوں سے موسم خوشگوار ہوجاتا ہے مگر یہی بادل کراچی میں برسیں تو کراچی ڈوب گیا۔
سیاست کے میدان میں بھی رونق ہے لیگی دیوانے اور پیپلزپارٹی کے جیالے گھتم گتھا ہیں خوب ایک دوسرے کی پگڑیاں اچھال رہے ہیں(جو کر رہے ہیں وہ لکھ نہیں سکتا)سچ یہی ہے کہ جب کوئی جماعت کسی کی نفرت پر بنے اور عشروں تک کی سیاست کی غذا بعد ونفرت ہی ہو تو پھر یہ توقع عبث ہے کہ اس جماعت کے کارکن وحامی اعتدال پسند سیاسی کارکنوں کا رویہ اپنائیں گے۔
اچھا ویسے سیاسی کارکن ہیں اب کتنے؟
بچی کچھی نسل کی ہر شہر میں چند نشانیاں ہی رہ گئی ہیں۔اور سیاست ان کا کام رہا بھی نہیں۔
نظریات کی جگہ دنیاوی مرتبہ نے لے لی ہے سنجیدہ رائے دہندگان کی جگہ جگت بازوں نے
جو ہورہا ہے اسے ہم رونق میلہ ہی کہہ سکتے ہیں۔
سماجی اقدام،شرف انسانی اور مکالمہ گئے تیل لینے۔حالت یہ ہے کہ میری ایک عزیزہ ایک نجی چینل میں اینکر ہیں۔چند دن قبل اُس نے ٹویٹر پر ایک پول کروایا۔
آج اگر انتخابات ہوں تو آپ کس کو ووٹ دیں گے؟۔
اس کے پول کا نتیجہ یہ تھا پی پی پی پہلے نمبر پر،مسلم ن دوسرے اور تحریک انصاف تیسرے نمبر پر رہی۔
جونہی اس نے نتیجہ کا اعلان کیا نیا پاکستان تعمیر کرنے والی فورس پہنچ گئی اس کا ٹیوٹر اکاونٹ مادر زاد گالیوں سے سمندر کی طرح لبریز ہوگیا۔
یہ وہ وجہ ہے کہ اکثر کہتا رہتا ہوں کے سیاسی جماعتوں کے جرائم اپنی جگہ لیکن بہتر سال سے ملک میں قابض اشرافیہ کا یہ جرم سب سے سنگین ہے کہ اس نے ایک پوری نسل کو بد زبان بنادیا ہے۔
ماوں بہنوں کی عزت وتوقیر،بڑوں کا احترام ان کے نزدیک ایک گندی گالی کے سوا کچھ نہیں۔
خیر چھوڑیں اب یہاں یہی ہوگا جس کے پاس بدزبانوں کا جتنا بڑا لشکر ہوگا وہ اتنابڑا لیڈر سمجھا جائے گا۔
اگلے روز مولانا فضل الرحمان نے نون لیگ کے سربراہ میاں شہباز شریف سے ملاقات کی ۔
عید کے بعد ہونے والی اپوزیشن کی اے پی سی اور چنددیگر امور پر تبادلہ خیال ہوا،دیکھنا یہ ہے کہ میاں شہباز شریف اپوزیشن کی اے پی سی میں شریک ہوتے ہیں یا پھر ڈاکٹروں کی ہدایت پر عمل کر کے گوشہ نشین رہتے ہیں۔
اس سے انکار نہیں کہ انہیں بطور اپوزیشن لیڈر فعال کردار ادا کرنا چاہیئے لیکن وہ کیا کریں ایک طرف سیاسی عمل کی ضرورتیں ہیں دوسری طرف بھتیجی کے سمدھی چودھری مینر کی معرفت آستانہ عالیہ آبپارہ شریف سے طے پائے معاملات۔
مطلب رندے کے رندے رہے ہاتھ سے جنت بھی نہیں جانے دینی۔
سیاست اسی کا نام ہے یہی تو سیاست ہے بلکہ یہی تو ہے”اپنا پن”
نصف درجن رونقوں کے درمیان پنجاب حکومت نے صوبے میں9روزہ لاک ڈائون کا اعلان کردیا ہے۔
کل تک لاک ڈائون کو پیپلپز پارٹی اور اشرافیہ کی سازش قرار دے کر دیہاڑی دار مزدوروں کے غم میں ہلکان ہونے والے اب فضائل لاک ڈاون بیان کر رہے ہیں اس تازہ خدمت سے رونقیں دوبالاہوگئی ہیں۔
فقیر راحموں اس 9روزہ لاک ڈاون کے شدید مخالف ہیں۔ٹھنڈے پانی کا گلاس پیش کرتے ہوئے پوچھا فقیر جی آپ تو کل تک لاک ڈاون نہ کرنے پر حکومت اور تحریک انصاف کے مخالف تھے اب کیا ہوا؟۔
پہلے تو انہوں نے ذاتی رنج سے آگاہ کیا۔
بولے سگریٹ10روپے فی پیکٹ مہنگا ہوگیا ہے دکاندار کہہ رہا تھا بزرگو9دن لاک ڈاون رہنا ہے ہم نے بھی روٹی کھانی ہے۔
پھر بولے بغیر پیشگی منصوبہ بندی کے اچانک9دن کے لاک ڈاون کی وجہ سے اشیائے ضرورت کی قیمتیں ایک گھنٹہ کے اندر50فیصد بڑھ گئیں اس کا ذمہ دارکون ہے۔
لاک ڈاون کرنا تھا تو جمعرات سے کیا جاتا اور قیمتوں کو اعتدال پر رکھنے کی حکمت عملی وضع کی جاتی۔
دیہاڑی داروں کے غم گُسار کہاں چلے گئے؟
عرض کیا وہ عید کرنے گئے۔
غصہ میں وہ اپنے سگریٹ چھوڑ اور ہماری ایک کتاب بغل میں دبائے چلے گئے۔
چلیں ایک اور رونق بارے باتیں کرتے ہیں۔چند دن قبل ان سطور میں جماعت اسلامی کے بانی سید مودودی مرحوم کے ایک صاحبزادے کی حالیہ تصنیف کا ذکر کیا تھا اس کتاب نے ”ریاست ہائے متحدہ منصورہ شریف”اور جماعت اسلامی کے پراپرٹی ڈیلر گروپ دونوں کے اوسان خطا کر رکھے ہیں ۔
کہا جارہا ہے گھرکی باتیں کتاب کا حصہ کیوں بنائیں۔
سید حسین فاروق مودودی نے اپنی کتاب میں سراج الحق کے امیر بننے کو “بنائے جانا” قرار دیتے ہوئے چند ہزارووٹ غائب ہوجانے کا ذکر کیا ہے۔
جنرل ضیاء الحق اور میاں طفیل محمد کی محبتوں اور عطاہوئی نعمتوں کے قصے لکھے۔
جواب آں غزل فرید پراچہ نے چھیڑی ویسے ان کا حق بنتا تھا جوابی غزل کہنے کا۔
فرید پراچہ بھی اپنے وقت کے ایک بڑے آدمی(دنیاوی نہیں علمی طورپر) کے صاحبزادے ہیں اب دو صاحب زاد گان میدان میں ہیں اور صالحین کی بھد اڑرہی ہے۔
فرید پراچہ کی منہ زوری اور سینہ زوری سے ایک زمانہ آگاہ ہے لیکن وہ جوابی غزلیات میں دلیل کی بجائے طعنوں بہتانوں،رشتوں اور تقدسات کے ساتھ پراپرٹی ڈیلروں والے ہتھکنڈے آزمار ہے ہیں ۔
دنیا کی باتوں کا حساب دینے کی بجائے آخرت کی دعوت دے رہے ہیں۔
ایک بات ان کی(فرید پراچہ کی)اچھی لگی فرمایا کسی میں جرات نہیں جماعت اسلامی کو” دبا سکے”۔
سوفیصد درست جماعت اسلامی نے اپنی سیاسی اور فکری قبر خود کھودی ہے اب پراپرٹی ڈیلر اس پر مٹی ڈال کرمجاور بنے ہوئے ہیں۔
رہے نام اللہ کا۔
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر