لگ بھگ دوماہ قبل جب پنجاب اسمبلی کے سپیکر چودھری پرویزالٰہی کے ایما پر پنجاب میں شائع ہونے والی تدریسی وغیرتدریسی کتابوں کو ”مشرف بہ اسلام ونظریہ پاکستان” کرنے کیلئے 16رکنی کمیٹی بنائی گئی تو عرض کیا تھا کہ ”کمیٹی کے ارکان میں سے اگر ایک رکن بھی یہ بتا دے کہ فخرزمان کون ہے اور ان کی کیا خدمات ہیں تو ہم مان لیں گے کہ اسمبلی کی اس کمیٹی کو علم وادب اور فہم کی سدھ بدھ ہے”؟
پھر وہی ہوا جس کا خطرہ تھا، پنجاب میں لگ بھگ 100درسی وغیر درسی کتب پر پابندی لگا دی گئی، کہا گیا یہ کتابیں ہمارے بچوں کو بگاڑ رہی تھیں۔
پنجاب اسمبلی کے اس نادرست عمل پر بحث جاری تھی کہ ”بنیاد تحفظ اسلام بل” لایا گیا اور پلک جھپکتے ہی منظور بھی ہو گیا۔
اس بل کی منظوری کے عمل میں قواعد وضوابط پامال ہوئے یہ الگ بحث ہے اصل مسئلہ یہ ہے کہ صدیوں بلکہ ہزار سے دو اڑھائی سوسال اوپر کے عرصہ کے دوران کی جو کتب آج ہمیں دستیاب ہیں ان کا کیا ہوگا؟
دلچسپ بات یہ ہے کہ اس بل کی روشنی میں آنے والے ماہ وسال کے دوران پنجاب میں لکھی جانے والی ہر کتاب اشاعت سے قبل پنجاب کے محکمہ اطلاعات کے سربراہ جسے عام طور پر ”ڈی جی پی آر” کہتے ہیں کے حضور پیش ہوگی اور وہ سند اشاعت عطا کرنے یا مسترد کرنے کا فیصلہ کریں گے۔
خیر یہ شوق ہر دور میں (جدید وقدیم دونوں) سرچڑھ کر بولتا رہا کہ لوگ وہی سن، پڑھ اور بول پائیں جو حکومت وقت کی خواہش ہو۔
ایوب خان کا پریس اینڈ پبلی کیشنز آرڈیننس یا اس کے بعد کے بعض قوانین سبھی اس شوق کی پیداوار تھے۔
حالیہ بنیاد تحفظ اسلام بل پنجاب کے حوالے سے ہمیں یہ کہا جارہا ہے کہ یہ مختلف مسالک کے درمیان اتحاد پیدا کرنے کی عملی کوشش ہے۔
مگر ہم میں سے جس نے بھی اس بل کے مطالعہ کا شرف حاصل کیا وہ اس بات سے متفق ہے کہ یہ بل اگر قانون کی صورت اختیار کرتا ہے تو پنجاب میں فرقہ واریت کا نیا دور شروع ہو جائے ہوگا۔
سوال یہ ہے کہ کیا بارہ سو سال سے شائع شدہ مذہبی کتب (وہ کسی مسلک کی ہوں) دوبارہ اس قانون کی روشنی میں ڈی جی پی آر کی منظوری سے شائع کرنا پڑیں گی؟
کتب احادیثؐ و کتب تواریخ کا کیا ہوگا، باترجمہ قرآن اور تفاسیر قرآن کی اس قانون کی روشنی میں کیا حیثیت ہوگی؟۔
بات فقط بنیاد تحفظ اسلام بل پنجاب کی نہیں اصل سوال یہ ہے کہ اس کی ضرورت کیوں پیش آئی؟
اس کا سادہ سا جواب یہ ہے کہ اسلام نظریہ پاکستان اور اب تحفظ اسلام بل پنجاب، درحقیقت شخصی آزادیوں اور آزادی اظہار پر پابندی کے طے شدہ منصوبے کا حصہ ہے۔
کہا جارہا ہے کہ بعض پالیسیوں اور دیگر معاملات پر وسطی اور بالائی پنجاب میں ریاستی بیانیہ کے مقابلہ میں عوامی شعور بیدار ہو رہا ہے۔
عوام کا بڑا طبقہ خارجہ پالیسی کی ناکامی، معیشت کی ابتری اور داخلہ پالیسی کے بدترین منفی نتائج پر برہمی کا اظہار کر رہا ہے۔
بالادست اشرافیہ پنجاب میں بیداری کی اس لہر سے خوفزدہ ہے۔
اس خوف کا علاج اسلام نظریہ پاکستان، مسلم تہذیب وتاریخ اور اب بنیاد تحفظ اسلام بل پنجاب کے ذریعے کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔
فقیر راحموں کہتے ہیں کہ پنجاب اسمبلی نے کتابوں کو مشرف بہ اسلام ونظریہ پاکستان کرنے کیلئے جو سولہ رکنی کمیٹی بنائی اس کمیٹی کا کوئی ایک رکن ان 100کتابوں جن پر پابندی لگائی گئی ہے میں سے کسی ایک کتاب کے مندرجات پر فقط 5منٹ اپنے دلائل دیدے تو ہم مان لیں گے کہ پابندی درست ہے۔
خیر اس جملہ معترضہ کو رہنے دیجئے۔
ٹھنڈے دل سے سوچنا ہوگا کہ کیا واقعی وسطی اور بالائی پنجاب میں بیدار ہوتا عوامی شعور ریاستی بیانیہ کو چیلنج ہے ؟
سادہ سا جواب یہ ہے کہ ”ڈرتی ہے طاقتور اشرافیہ مظلوم طبقوں کے سوالوں سے”۔ عجیب بات یہ ہے کہ ”امیر پنجاب” بننے کے شوقین پرویز الٰہی دو ناتجربہ کار لڑکوں کے ہاتھوں میں کھیل رہے ہیں۔
دونوں میں سے ایک ان کا منہ بولا بیٹا اور صوبائی وزیر ہے اور دوسرا رکن پنجاب اسمبلی ایک کالعدم تنظیم کا سابق ترجمان۔
معروف سیاسی خانوادے کی شہرت رکھنے والے سپیکر پنجاب اسمبلی کے بعض قریبی ذرائع یہ کہتے ہیں کہ کتابوں پر پابندی اور بنیاد تحفظ اسلام بل پنجاب، ہر دو اقدامات اصل میں پنجاب کی حاکمیت پر قبضہ کرنے کیلئے راہ ہموار کرنے کی کوششیں ہیں، چرب زبان اور جوڑتوڑ میں ماہر پرویز الٰہی اچھی طرح جانتے تھے کہ دونوں اقدامات آسانی کیساتھ قبول نہیں کئے جائیں گے، ان پر عوامی ردعمل سامنے آئے گا، اس ردعمل کو ہی وہ حکومت (بزدار حکومت) کی ناکامی بنا کر پیش کریں گے۔
چودھری نے کمال مہارت سے تین محاذ کھلوا دیئے ہیں، اولاً سرائیکی وسیب میں ق لیگ کے طارق بشیر چیمہ کی قیادت میں سرائیکی پنجابی تضادات کو بھڑکانے کا عمل، ثانیاً کتابوں پر پابندی سے تدریسی عملے پبلشرز اور ادیبوں کو بدظن کرنا اور تیسرا محاذ بنیاد تحفظ اسلام بل پنجاب جس پر پچھلے چند دنوں سے شدید ردعمل سامنے آیا ہے۔
آپ جوڑ توڑ کے ماہر چودھری پرویزالٰہی کی مہارت کا اندازہ کیجئے کہ جو بل ان کی رضامندی سے منظور ہوا ہے اب اسی کو قابل قبول بنوانے کیلئے وہ مختلف الخیال شخصیات علماء اور دیگر سے رابطہ کر کے کہہ رہے ہیں، آئیں بیٹھ کر بات کرتے ہیں،
اپنے پروگرام کے مطابق وہ اس وقت پنجاب کی مرکزی شخصیت بنے بیٹھے ہیں۔
وزیراعلیٰ کا دور دور تک کوئی پتہ نہیں۔
حرف آخر یہ ہے کہ کیا وفاقی حکومت، وزیراعظم اور دیگر شخصیات کو یہ سمجھ نہیں آرہا کہ چودھری پرویز الہٰی ان کیلئے کیا نفرت اور کانٹے بورہے ہیں؟
ایسی کیا مجبوری ہے کہ کوئی اس صورتحال کا نوٹس لینے کو تیار نہیں، جہاں ایک معمولی سی غلطی فسادات کے بھیانک دور کا دروازہ کھول سکتی ہے۔
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر