تاریخ سے شغف رکھنے والا پاکستان میں شاید ہی کوئی ایسا انسان ہو جو ڈاکٹر مبارک علی جیسے مورخ کے نام سے ناآشنا ہو۔ڈاکٹر مبارک علی نے اپنی کتاب ”بدلتی ہوئی تاریخ“ میں انسانی جتھوں اور اُن کے سیاسی استعمال سے متعلق گفتگو کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ہنا آرنڈٹ نے اپنی کتاب
(Origin of Totalitarianism)
میں جدید زمانہ میں مجمع کے بارے میں لکھا ہے کہ بیسویں صدی میں یورپ میں جو آمرانہ حکومتیں پیدا ہوئیں ان میں مجمع کا بڑا دخل رہا ہے۔مجمع لوگوں کے اس جتھہ کو کہتے ہیں کہ جو بے روزگار ہوتے ہیں، یہ لوگ کسی سیاسی جماعت کا حصہ نہیں ہوتے ہیں اور نہ ہی موجودہ نظام سے مطمئن۔اس لئے جب ان کے سامنے کوئی نظریہ پیش کیا جائے تو یہ اس سے متاثر ہوتے ہیں۔کیونکہ انہیں یہ امید ہوتی ہے کہ اس میں ان کی نجات ہے۔جب یہ نظریہ کا شکار ہوجاتے ہیں تو پھر ان کی طاقت پر آمرانہ حکومتیں مضبوط ہوتی ہیں۔اگر عوام سماجی،سیاسی اور ثقافتی جماعتیں بنا کر اپنے حقوق کی جنگ کریں گے تو اس صورت میں یہ مجمع کی شکل اختیار نہیں کریں گے۔اگر سیاسی جماعتیں لوگوں کو اپنے اندر ضم نہیں کریں گی تو اس صورت میں آمرانہ حکومتیں ان کی جماعتوں، گروپوں اور انجمنوں سے علیحدہ کرکے ان کے تعلق کو ختم کردے گی اور انہیں ایک ایسے مجمع میں تبدیل کردے گی کہ جو اس کے رحم و کرم پر ہو اور اس کے اشاروں پر حرکت کرئے۔
جب یہ حالات پیدا ہوجائیں تو پھر آمروں اور اقتدار کے خواہش مند شخصیتوں کے لئے آسان ہوجاتا ہے کہ وہ مجمع کو اپنے حق میں کرلیں۔ایک او رمشہور کتاب ”تاریخ اور مجمع“میں ان باتوں کی طرف اشارہ کیا ہے کہ جن کے ذریعہ شخصیتیں مجمع کو اپنے حق میں ہموار کرتی ہیں۔جیسے خطابت کے ذریعہ ان کے جذبات کو ابھارا جاتا ہے۔ایک تخیلاتی دشمن تلاش کرکے ان میں اتحاد پیدا کیا جاتا ہے اور ان کی توانائیوں کو اس دشمن کے ختم کرنے پر زور دیا جاتا ہے۔اس کی مثال جرمنی کی ہے جہاں یہودیوں کے خلاف مجمع کے جذبات کو استعمال کیا۔مجمع میں اس وقت اپنی طاقت اور سچائی کا احساس ہوتا ہے کہ جب وہ کسی تقریب کے موقع پر جمع ہو۔اس وقت قومی نغمے اور جنگجو ترانے وگیت اس کے جذبات کو اکساتے ہیں اور اس کی عقل وہوشمندی کو بالکل ختم کردیتے ہیں،اس عالم میں وہ اپنی جان قربان کرنے کے لئے تیار ہوجاتا ہے۔جب آمرانہ شخصیتیں اپنی تقریروں سے عوام کو سحرزدہ کردیں تو یہ تباہی کی علامت ہوتی ہیں۔لیکن مجمع کو استعمال کرنے کا کام محض آمروں ہی نے نہیں کیا۔اسے جمہوریت اور سوشلسٹ معاشروں کے قیام کے لئے بھی استعمال کیا گیا
ڈاکٹر مبارک علی کی مندرجہ بالا تحریر کو بغور پڑھیں اور اپنے زہن میں ن لیگ کا آخری دور حکومت زہن میں لائیں۔اس میں کوئی شک نہیں کہ 2013سے 2018کے درمیان ن لیگ کی حکومت نے بہت سے میگا پراجیکٹس مکمل کیئے جن میں بجلی گھروں کی تعمیر جس سے پاکستان میں لوڈشیڈنگ کا خاتمہ ہوا، ملک بھر میں ہائی ویز بنائے گئے۔ کھیت سے منڈی تک منصوبے میں دیہی علاقوں میں سڑکوں کا جال بچھایا گیا۔دہشت گردی کے خلاف نیشنل ایکشن پلان بنایا گیا اور دہشت گردی کے خاتمے کے لیے سنجیدہ کوششیں کی گئیں۔مگر اس کے ساتھ میٹرو اور اورنج لائن جیسے بے فائدہ اور مقصد مہنگے ترین منصوبے بھی ن لیگ کی حکومت پر سوالیہ نشان کے طورپر رہے ہیں۔خاص طورپر ایسے حالات میں جب شہریوں کو پینے کا صاف پانی اور صحت اور تعلیم کی بنیادی سہولیات بھی میسر نا ہوں۔مگر ایک بات جس کا ن لیگ کو سب سے زیادہ نقصان ہوا وہ ملک میں موجود بے روزگار نوجوانوں کی وہ اکثریت تھی جو ڈگریاں ہاتھوں میں لیئے دربدر تلاش معاش میں سرگرداں تھی۔نئی نسل کے لیئے روزگار کے مواقع پیدا ناکرنا ایک سنگین غلطی تھی۔اور اسی کا فائدہ تحریک انصاف نے اٹھایا۔تحریک انصاف نے ملک کی نوجوان آبادی کو متوجہ کیا اور ان تک اپنا پیغام پہنچانے میں کامیاب ہوگئی۔نوجوان نسل کا ایک عظیم مجمع جمع ہوگیا۔عمران خان کے جوش خطابت میں ایک کروڑ نوکریوں اور پچاس لاکھ گھروں کے اعلان نے نوجوان نسل کے جذبات کو ابھارا۔معاشی پریشانیوں کاشکار نوجوان اس سحر میں گرفتار ہوگئے انہوں نے عمران خان کو مسیحا تسلیم کرلیا اور اس کے پیچھے چلنے کو تیار ہوگئے۔
2018کے عام انتخابات میں نوجوانوں نے بہتر مستقبل کے وعدوں پر اور ایک شاندار زندگی کے خواب کی تکمیل کے لیے نئے پاکستان کے حق میں ووٹ دیا۔نیا پاکستان بن گیا اور اب وعدوں کی تکمیل کا وقت شروع ہوگیا۔خواہشات اور تقریریں اپنی جگہ مگر زمینی حقائق سے منہ نہیں موڑا جاسکتا۔قرض نالینے کا اعلان کرنے والی لیڈرشپ نے عالمی مالیاتی اداروں کے سامنے گھٹنے ٹیک دئیے۔نتیجہ یہ نکلا کہ قرض کے حصول کی خاطر بجٹ بھی ان کی مرضی سے بنایا گیا۔بجٹ میں نئی نوکریاں کیا شامل ہونا تھیں بلکہ پہلے سے موجود نوکریوں کو ختم کرنے کی بات کی گئی۔کئی محکموں کو دیگر محکموں میں ضم کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔اداروں میں خاموشی سے ڈاون سائزنگ شروع کردی گئی۔حتیٰ کہ ہائیر ایجوکیشن کمیشن کے بجٹ میں کٹوتی کردی گئی۔تعلیم مہنگی ہونا شروع ہوگئی اور متوسط طبقہ کے طلبا کے لیے تعلیم کا حصول ہی ناممکن ہوگیا۔
گویا کوئی ایک وعدہ ایسا نہیں ہے جو نوجوان نسل سے وفا ہوا ہو۔حکومت کو بنے ہوئے دو سال ہوچکے ہیں اور اب انتظار میں اضطرابی کیفیت پیدا ہونا شروع ہوگئی ہے۔کل تک جو نوجوان خاموش تھے انہوں نے کپتان کو وعدے یاد دلانا شروع کردئیے ہیں۔ایک بہتر مستقبل کی امید لیئے کوئی کب تک وعدوں کے سہارے وقت گذار سکتا ہے۔اس لیئے صبر کا پیمانہ لبریز ہورہا ہے۔
کپتان کو اپنے وعدے پورے کرنے ہوں گے اور جلد کرنے ہوں گے۔نوجوان نسل کو ایک محفوظ معاشی مستقبل دینا ہوگا۔اپنے کیے گئے وعدوں کا بھرم رکھنا ہوگا۔بے گھروں کو اپنی چھت بھی دینی ہوگی۔تعلیم بھی یکساں اور مفت دینی ہوگی۔علاج جیسی بنیادی سہولیات کی فراہمی کے وعدے کی تکمیل کرنی ہوگی۔اگریہ سب نا کیا گیا تو ایک بارپھر مجمع بنتے دیر نہیں لگے گی اور اس بار کوئی اور اس مجمع کو اپنی جذباتی تقریروں سے سحرزدہ کرلے گا۔اگر نوجوان مایوس ہوکر نظریاتی طورپر کسی اور سمت کو چل پڑے تو نئے پاکستان کا کیابنے گا۔
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر