مولانا فضل الرحمن کے بھائی ضیاء الرحمن خیبر پختونخوا کی صوبائی سروس کے افسر ہیں۔ نون لیگ کے دور میں وہ پنجاب کے ضلع خوشاب میں ڈپٹی کمشنر رہے اور اب چند دن قبل انہیں سندھ میں ڈپٹی کمشنر (کراچی کے ایک ضلع میں) تعینات کر دیاگیا۔
صاف سیدھی بات یہ ہے کہ سندھ حکومت کا یہ فیصلہ اسی طرح غلط ہے جیسے پچھلے دور میں نون لیگ کی پنجاب حکومت کا اقدام نادرست تھا۔
ضیاء الرحمن پرویز مشرف کے آخری ایام میں پی ٹی سی ایل سے اس وقت کے گورنر کے پی کے حکم پر صوبائی کیڈر میں شامل کئے گئے اور افغان مہاجرین کے لیے قائم ادارے میں افسر مقرر ہوئے۔ لیکن اصل اور بنیادی سوال یہ ہے کہ صوبائی کیڈر کا افسر پہلے پنجاب اور اب سندھ میں کیسے تعینات ہوا؟
ضیاء الرحمن جب خوشاب پنجاب میں ڈپٹی کمشنر تھے تو خیبر پختونخوا میں تحریک انصاف پرویزخٹک کی قیادت میں اقتدار میں تھی۔ اب سندھ پہنچ گئے ہیں تو بھی کے پی کے میں تحریک انصاف ہی حکومت میں ہے۔
ایک صوبہ اپنے سروس کیڈر کے افسر کو دوسرے صوبے میں نہیں بھیج سکتا، ظاہر ہے دونوں بار وفاق اس کا واسطہ اور ذریعہ بنا۔
یہی وہ نکتہ ہے جو مجاہدین انصاف یکسر نظرانداز کرکے دو تین دن سے اپنے اپنے کلیجے کی آگ ٹھنڈی کرنے میں مصروف ہیں۔
ضیاء الرحمن کی خدمات وفاق کے حوالے صوبائی حکومت نے کی۔ پچھلے 6ماہ سے وہ تقرری کے منتظر تھے اب سندھ حکومت نے انہیں کراچی کے ایک ضلع کا ڈی سی لگا دیا۔
آغاز سے تازہ احکامات تک سارے اقدام واحکامات غیرقانونی ہیں۔
صوبوں میں تقرریوں کیلئے قانون میں ابہام نہیں اسی طرح صوبوں کے اندر تقرری بھی صوبائی حکومتوں کا ہر دو کیڈر (وفاقی اور صوبائی) کے حوالے سے قانون واضح ہے۔
قانون کیا اس امر کی اجازت دیتا ہے کہ صوبائی کیڈر کے افسر کی خدمات وفاق کے سپرد کردی جائیں؟
ان پر اگر کسی نوعیت کے الزامات تھے تو کارروائی میں صوبائی حکومت بے بس کیوں تھی۔
نہیں تھے تو او ایس ڈی بنائے رکھتی جیسے بہت سارے وہ دوسرے افسر ہیں جو صوبائی حکومت کو پسند نہیں۔
کھلے دل سے یہ مانا جانا چاہئے کہ سندھ حکومت نے اگر ان کی خدمات وفاق سے مانگی تھی تو غلط تھا۔ وفاق نے ازخود انہیں گلے سے اُتار کر سندھ بھجوایا یہ بھی غلط ( سندھ حکومت کے مطابق انہیں وفاق نے سندھ بھیجا ) مگر اس سے پہلے جو غلط ہوا یعنی خیبر پختونخوا کی حکومت کا وفاق کے سپرد کرنا وہ کیسے درست ہے؟
معاملہ اتنا سادہ نہیں وجہ اب اس کی یہ ہے کہ مولانا فضل الرحمن دو تین ہفتے قبل آصف علی زرداری سے ملے اور کچھ ایام کے وقفہ کے بعد 6ماہ سے تقرری کے منتظر ان کے بھائی کو سندھ حکومت نے کراچی کے ایک ضلع میں ڈپٹی کمشنر مقرر کر دیا۔
بظاہر اس تعیناتی کے سیاسی سفارشی ہونے پر دو آراء نہیں۔
سندھ حکومت ایک غلط کام میں حصہ ڈالنے کی بجائے انہیں تقرری کا منتظر رہنے دیتی یا وفاق کو واپس بھجوا دیتی۔ کم ازکم یہ دھول نہ اُڑتی جس سے حالیہ مہینوں میں محنت سے کمائی نیک نامی چھپ جائے۔
عرض کرنے کا مقصد یہ ہے کہ اس حوالے سے قوانین اور دیگر معاملات کی وضاحت خیبر پختونخوا حکومت کی ذمہ داری ہے اسے بتانا چاہئے کہ کن وجوہات اور قوانین کی بنیاد پر اس نے ان کی خدمات وفاق کے سپرد کیں۔
بہرطور یہ ایک ایسا فیصلہ ہے جس کی تحسین مشکل ہے، سوالات ہیں اور دو صوبائی وایک وفاقی حکومت کو ان کا جواب دینا چاہئے۔
پی پی پی کے چیئرمین بلاول بھٹو چند دن قبل مطیع اللہ جان کے گھر گئے، اس ملاقات کے بعد سے کہا جا رہا ہے کہ وہ سندھ میں قتل ہونے والے صحافی عزیز میمن کے گھر کیوں نہیں گئے، یہ سوال انصافی مجاہدین کیساتھ محبان جاتی امراء شریف شد ومد سے اُٹھا رہے ہیں۔
عزیز میمن نجی تنازعہ میں قتل ہوئے، ایک ٹی وی اینکر اور وفاقی وزیر فواد چوہدھری نے ابتدائی تحقیقات سامنے آنے کا انتظار کئے بغیر ٹی وی پروگرام اور قومی اسمبلی میں یہ تاثر دیا کہ عزیز میمن کو بلاول یا پیپلز پارٹی نے قتل کروایا ہے۔
دونوں مقتول صحافی کی ایک خبر کو بنیاد بنا کر الزام تراشی کر رہے تھے۔
اصولی طور پر پی پی پی کو دونوں کیخلاف قانونی کارروائی کرنی چاہئے تھی یا پھر عزیز میمن قتل کی انکوائری کیلئے بننے والی جے آئی ٹی اس ٹی وی اینکر اور وفاقی وزیر کو بلاتی اور الزام بارے سوال کرتی، دونوں کام نہیں ہوئے۔
اس سے بڑی بدقسمتی یہ ہے کہ جب یہ ثابت ہو گیا کہ عزیز میمن کا قتل ذاتی تنازعہ پر ہوا تو ٹی وی اینکر اور وفاقی وزیر نے معذرت کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کی۔
اب یہ بھونڈا الزام ہمارے حال کیساتھ تاریخ میں ناچتا رہے گا جیسے بعض دوسرے الزامات جو غلط ہونے کے باوجود ناچ رہے ہیں۔
گزشتہ روز 2018ء کے انتخابی عمل کے بعد بننے والی حکومت کے دو سال مکمل ہوگئے، دو برسوں کی کارکردگی اور ناکامیوں کے حوالے سے بیانات کا مقابلہ جاری ہے، وزراء صاحبان کہتے ہیں کہ 72 سال کا گند 2 سالوں میں صاف نہیں ہوسکتا 72 سال پر بات اور بحث طویل ہوجائے گی، فقط تین حکومتی شخصیات فواد چودھری‘ عمر ایوب اور خسرو بختیار کو لے لیجئے‘ پچھلے 20سال کے دوران کے ان کے سیاسی سفر اور ہجرتوں کو سامنے رکھ یہ دریافت تو کرنا بنتا ہے کہ حضور! آپ بھی یہ کہہ رہے ہیں؟
بدقسمتی یہ ہے کہ ہماری سیاسی جماعتیں کبھی اس پر آمادہ نہیں ہوئیں کہ پارٹی بدلنے والوں کو کم ازکم ایک الیکشن میں وہ اپنا اُمیدوار نہیں بنائیں گی۔
یہی وجہ ہے ایک حکومت کے خاتمہ پر پارٹی تبدیل کرکے اگلی حکومت میں شامل افراد پچھلی حکومت کے جرائم گنوا رہے ہوتے ہیں۔
ارے بھائی لوگو!
پچھلی حکومت کے جرائم میں تو آپ بھی شریک تھے اپنے حصے کا بوجھ اُٹھاؤ، کیوں نہیں اُٹھاتے؟
یہ سوچنے والی بات ہے۔
آئیں اس پر غور کرتے ہیں کہ کیا سیاسی لوگوں کی بیان کردہ کرپشن اور تاریخ دونوں قابل اعتبار ہیں؟۔
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر