محترم قارئین کرام،،میرے ضلع رحیم یار خان کی خواجہ فرید یونیورسٹی ٹڈی دل کے شدید حملوں کی زد میں ہے. ٹڈی دل صرف فصلات کا نقصان نہیں کرتی بلکہ وطن عزیز میں ہر جگہ موجود ہے. شروع سے لیکر اب تک یہ ٹڈی دل مختلف اداروں میں پھیل کر ایک خوف ناک صورت حال اختیار کر چکی ہے.تدارک کے لیے مناسب اور ٹھوس اقدامات نہ ہونے کی وجہ سے اس کی افزائش میں وقت کے ساتھ ساتھ اضافہ ہو رہا ہے.میرے ضلع رحیم یار خان کی خواجہ فرید انجینئرنگ آف اینڈ انفارمیشن ٹیکنالوجی اپنے قیام کے ایام سے لے کر مسلسل مختلف قسم کی نقصان دہ ٹڈی دل کا کھاج بنی ہوئی ہے. ایسے لگتا ہے کہ شاید کوئی یونیورسٹی کو ناکام کرنے کی باقاعدہ کوششوں میں مصروف ہیں. بلڈنگز کی تعمیر کرنے والے ٹھیکیداروں اور سب ٹھییکیداروں کے گھپلے، جعلی ٹرانسپورٹ کا فراڈ، کنٹین کا رولا، ملازمین کی بوگس اور ناجائز بھرتیاں، انتظامی نااہلی اور مالی کرپشن وغیرہ سمیت کئی اور معاملات بھی ہیں جنھیں یہاں زیر بحث نہیں لایا جا سکتا. یہ ہمارے تعلیمی اداروں کا بہت بڑا المیہ ہے.یونیورسٹی سے نکالے گئے ملازمین کا احتجاج یونیورسٹی گیٹ سے پریس کلب رحیم یار خان اور وہاں سے لاہور تک جا پہنچا ہے.اس احتتجاج کے پیچھے کون ہے. یہ صرف نکالے گئے چند ملازمین کام نہیں ہے. یہ کھپ اور کرپشن چھپاؤ مہم دوسرے مہینے میں داخل ہو چکی ہے. احتجاجیوں کا کہنا ہے کہ ایک سو سے زائد ملازمین کو بلا وجہ نکالا گیا ہے. دوسری جانب یونیورسٹی انتظامیہ کا کہنا کہ اختیارات کے غلط استعمال اور کرپشن ثابت ہونے پر صرف تین ملازمین کو نکالا گیا ہے. باقی رولا رپا ٹھیکیداروں اور انویسٹرز حضرات کی وجہ سے ہے. اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر یونیورسٹی نے صرف تین ملازمین کو نکالا ہے تو احتجاج کرنے والے درجنوں دوسرے لوگ کون ہیں.دوسری بات یہ ہے کہ کنٹریکٹ ملازمین اور ڈیلی ویجرز ملازمین کو کرپشن کی وجہ سے نکالنا یا کنٹریکٹ ختم ہونے پر دوبارہ نہ رکھنا یونیورسٹی کا استحقاق اور حق ہے. قانونا کوئی احتجاج کرکے کنٹریکٹ میں توسیع نہیں کروا سکتا. نہ ہی احتجاج کے ذریعے اپنے آپ کو کچے سے پکا کروایا جا سکتا ہے. کسی سابقہ نااہل نے رشوت وصول کرکے یا سیاسی دباؤ کے نتیجے میں ضرورت سے زیادہ ملازمین بھرتی کر لیے ہیں. جو اب یونیورسٹی پر خوامخواہ کا مالی بوجھ ہیں تو کنٹریکٹ ختم ہونے پر یونیورسٹی کو دوربارہ رکھنے مجبور نہیں کیا جا سکتا. کوئی کام تو کسی سیاست دان کے ڈیرے اور دفتر پر کرے ڈیوٹی تو کسی پرائیویٹ آدمی کے گھر پر دے اور تنخواہ یونیورسٹی سے لے یہ بھی کوئی اچھا اور دیانتدار منتظم برداشت نہیں کر سکتا. ویسے ضلع کے بہت سارے کئی دوسرے اداروں میں سال ہا سال سے یہ روش اور روٹین کامیابی سے جاری و ساری ہے. بلدیہ، ایجوکیشن اور محکمہ انہار شاید اس معاملے میں سب سے آگے ہوں.بعض ایسے سیزنل ملازمین بھی ہوتے ہیں جنھیں اپنے ملازم ہونے کا بھی علم نہیں ہوتا.لیکن ان کے نام کی تنخواہیں باقاعدہ وصول ہو رہی ہوتی ہیں.جعلی سازی اور بوگس پن کا دھندہ ایک مخصوص طبقہ کرتا ہے لیکن اس سے متاثر بہت سارے لوگ ہوتے ہیں. جب سے چھیچھڑا صحافت شروع ہوئی ہے یقین کریں جرائم پر پردہ داری سے بڑھ کر تحفظ کی خدمات تک کے ماحول کی وجہ سے سب کچھ ٹھیک اور اوکے یو جاتا ہے. خیر چھوڑیں اس پر پھر کبھی بات ہو گی
ہم واپس خواجہ فرید یونیورسٹی کے معاملے کی طرف آتے ہیں. مختلف نوعیت کے شدید مسائل اور فنڈز کی کمی کا شکار یہ یونیورسٹی جو مزید نقصان پہنچانے والے ٹڈی دل کے نرغے میں ہے. مافیاز ٹائپ لوگ اور گروہ اس کے پیچھے پڑھے ہوئے ہیں. نقصان کے علاوہ اس کی ساکھ کو متاثر کر رہے ہیں.شہر اور ضلع کے علم دوست شہری آگے بڑھیں اور ان ٹڈی دل پرسپرے کرکے یونیورسٹی کو چھٹکارا دلائیں. بلیک میلرز کے نرغے سے اسے نکالنے میں یونیورسٹی انتظامیہ کا ساتھ دیں. باہر سے آنے والا کوئی وائس چانسلر یا کوئی اور ملازم اگر مقامی ملازمین کے ساتھ زیادتی کرے تو بھی لوگوں کا حق بنتا ہے کہ اس کے خلاف بھی آواز اٹھائی جائے.اگر یونیورسٹی انتظامیہ پرانے ملازمین کو نکال کر نئے سیاسی و فرمائشی لوگوں کو بھرتی کرتی ہے تو یہ بھی زیادتی ہوگی. مجھے ایک کامریڈ دوست نے بتایا ہے کہ یونیورسٹی بعض معاملات میں زیادتی کر رہی ہے. نکالے گئے ملازمین میں بہت سارے پنجابی بولنے والوں کو واپس لے لیا گیا جبکہ لاوارث سرائیکی بولنے والے دھکے کھاتے پھر رہے ہیں.اس بات کی تحقیق کرنا بہت ضروری ہے. اگر ایسا ہوا ہے تو یہ بہت بڑی زیادتی اور شرارت ہے. اس کا فورا سدباب ہونا چاہئیے. رحیم یار خان کی دھرتی اس حوالے بڑی حساس ہے. یہ کامریڈ بندہ بڑا نظریاتی، بااصول اور کھرا انسان ہے. نکالے گئے ملازمین کے ساتھ اظہار یکجہتی کے لیے رحیم یار خان میں ہونے احتجاج میں تو شریک ہوا ہے.لیکن انویسٹر کی فراہم کردہ بس پر بیٹھ کر لاہور کے احتجاج میں نہیں گیا.اس کا مطلب ہے کہ کہیں نہ کہیں دال میں اسے کچھ کالا کالا دکھائی دیا ہے ورنہ یہ مجاہد شخص وہاں بھی ضرور جاتا. مزید باتیں اور تفصیلات سے قبل میں آپ کے ساتھ ایک رپورٹ شیئر کرنا چاہتا ہوں. بہرحال ہم نے خواجہ فرید انجینئرنگ یونیورسٹی کو ٹڈی دل کے حملوں سے بچانا ہے. تین صوبوں کے سنگھم پر واقع ضلع رحیم یار خان کی یہ یونیورسٹی سرائیکی وسیب اور دیگر صوبوں سے تعلق رکھنے والے ہمارے نوجوانوں کے روشن مستقبل کی تربیت گاہ ہے. اس تربیت گاہ کو گند سے صاف کرنا از حد ضروری اور ہم سب کی ذمہ داری ہے. رپورٹ ملاحظہ فرمائیں.
ُ ُ خواجہ فرید یونیورسٹی آف انجینئرنگ ایند انفارمیشن ٹیکنالوجی میں تعینات ایڈیشنل رجسٹرار بلال ارشاد کے خلاف ہائیر ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ کی اعلی سطح انکوائری ٹیم نے کرپشن اور بدعنوانیوں پربنی انکوائریوں کی 13صفحات پر مشتمل انکوائری رپورٹ سنیڈیکیٹ میٹنگ میں پیش کر دی۔رپورٹ میں کہا گیا کہ خواجہ فرید یونیورسٹی آف انجینئرنگ ایند انفارمیشن ٹیکنالوجی(KFUEIT) کے ایڈیشنل رجسٹرار نے سابقہ ادوار میں سیکڑوں میرٹ کے خلاف غیرقانونی بھرتیاں‘ خود جاری کردہ اپنے لیٹر پر غیر قانونی پروموشن حاصل کرنا‘بغیر چھٹی لیئے ڈیوٹی سے غیرحاضر رہنا،نیب ملتان میں پیش نہ ہونا،غیرقانونی بھرتیوں کے آفر لیٹرز میں حقائق چھپانے اور سابقہ تاریخوں میں اندراج کرنا، میرٹ اور اہلیت کی خلاف ورزی‘ اشتہارات کے بغیر بھرتی‘ گریڈ 17اوراس سے اوپر گریڈ کی ملازمتوں کیلئے سلیکشن بورڈ کی بغیرمنظوری ترقی سمیت د یگر الزمات ثابت کرتے ہوئے ملازمت سے فارغ کرنے کا حکم جاری کر دیاجبکہ نیب ملتان کی طرف سے کرپشن اوربد عنوانیوں پرجاری انکوائریز میں سابق وائس چانسلر کے ساتھ مبینہ طور پر بدعنوانیوں اور غیرقانونی بھرتیوں میں شامل خزانچی عبدالمصد‘ ایڈیشنل رجسٹرار بلال ارشاد‘ پروجیکٹ ڈائریکٹر ڈاکٹر ظہیر احمد‘ پروجیکٹ منیجر چوہدری عرفان احمد اور سابقہ ڈین آل فیکلیٹیز ڈاکٹر چوہدری منیر شامل ہیں۔تفصیلات کے مطابق (KFUEIT)نائب تحصیلدار کی ملازمت چھوڑ کر بھرتی ہونے والا سابق وائس چانسلر (KFUEIT)پروفیسر ڈاکٹر اطہر محبوب کا پرنسپل سٹاف آفیسر بھرتی ہوکر ایڈیشنل رجسٹرار کے عہدے پر فائز ہونے والے بلال ارشاد کے خلاف ہائرایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ(HED)حکومت پنجاب نے اپنی انکوائری رپورٹ مکمل کرکے 16جولائی کو لاہور میں ہونے والی‘ سینڈیکیٹ کی میٹنگ میں بھی پیش کردی۔ اس کے ساتھ ساتھ گزشتہ روز (HED)کے نوٹی فکیشن نمبرSO(Univ.)30/4/2020کے مطابق ایک اعلی رکنی کمیٹی تشکیل دیدی گئی ہے جو کہ نیب ملتان میں دائر ریفرنس کے تحت(KFUEIT)کے سابق وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹراطہر محبوب اور دیگر اعلی افسران کے خلاف بدعنوانیوں اور غیرقانونی بھرتیوں کے خلاف انکوائری مکمل کرے گی۔یہ کمیٹی (HED)کے سپیشل سکرٹری‘ ایڈیشنل سیکرٹری(فنانس اینڈ پلاننگ) اور ڈپٹی سیکرٹری (UNIV.II)پرمشتمل ہوگی جو کہ ان تمام بدعنوانیوں کی انکوائری کرے گی۔ذرائع کے مطابق سابق وائس چانسلر کے ساتھ مبینہ طور پر بدعنوانیوں اور غیرقانونی بھرتیوں میں شامل خزانچی عبدالمصد‘ ایڈیشنل رجسٹرار بلال ارشاد‘ پروجیکٹ ڈائریکٹر ڈاکٹر ظہیر احمد‘ پروجیکٹ منیجر چوہدری عرفان احمد اور سابقہ ڈین آل فیکلیٹیز ڈاکٹر چوہدری منیر شامل ہیں۔ایڈیشنل رجسٹرار بلال ارشاد کے خلاف انکوائریوں کی 13صفحات پر مشتمل رپورٹ جو کہ 25جون2020ء کو مکمل کی گئی اس کی تحقیقات (HED)کے ایڈیشنل سیکرٹری یونیورسٹریز عثمان خالد خان نے (KFUEIT)سینڈیکیٹ کی درخواست پر انکوائری کی۔ اس انکوائری میں الزامات کے بارے میں ثبوت تلاش کرنے کے بعد ایڈیشنل رجسٹرار (KFUEIT)بلال ارشاد کو بھی آزادانہ طور پر اپنی صفائی کے لئے پیش ہوکر یہ تحریری طور پر جواب فراہم کرنے کا کھلا موقع فراہم کیا گیا۔ بلال ارشاد کے خلاف بدعنوانیوں کے8مختلف الزامات تھے جن میں یونیورسٹی حکام کی جانب سے نیب ملتان میں پیش نہ ہونے‘ 4اور6دسمبر 2019ء کو ارادی طور پر ڈیوٹی پر حاضر نہ ہونے‘ مختلف غیرقانونی بھرتیوں اورتعیناتی کے نوٹی فکیشن آفر لیٹرز میں حقائق چھپانے اور سابقہ تاریخوں کااندراج کرنے‘ میرٹ اور اہلیت کی خلاف ورزی‘ اشتہارات دیے بغیر بھرتی‘ BPS/17اوراس سے اوپر گریڈ کی ملازمتوں کے لئے سلیکشن بورڈ کی بلامنظوری‘ لیٹر نمبر SO(Univ.)6/3/2018 28جون 2019ء کو جاری شدہ لیٹر کی خلاف ورزی جس میں بلال ارشاد کی سٹاف آفیسر کو بھرتی ہونے کا ذکر ہے‘ ڈپٹی رجسٹرار اور ایڈیشنل رجسٹرار کی سیٹوں پر ترقی‘ ستمبر2020ء تک 112ایڈوانس کنٹریکٹ ملازمین بھرتی جاری کرناکے الزامات شامل ہیں۔ان تمام معاملات کو میرٹ پر تحقیق کرنے کے بعد ایڈیشنل سیکرٹری عثمان خالد خان نے بلال ارشاد کو مکمل طور پر قصور وارٹھرایا جو کہ اپنی صفائی میں کسی قسم کی زبانی یاتحریری جواب پیش نہ کرسکا۔ایڈیشنل سیکرٹری نے (KFUEIT) سینڈیکیٹ کو سفارش کی کہ بلال ارشاد کے خلاف پیڈا ایکٹ کے سیکشن (5) 2006ء کے تحت اس کو فوری طور پر عہدے سے ہٹایاجائے اوراس کے اصل محکمہ کو اطلاع کرتے ہوئے واپس بھیجاجائے مزیدبرآں ذرائع نے بتایا بلال ارشاد نے 2018ء کے وسط میں سابق وی سی (KFUEIT)کے حکم پر ملائیشیا(UTM) بیرون ملک سرکاری خرچہ پر سفر کیا جہاں اس نے یونیورسٹی آف ٹیکنالوجی ملائیشیا(UTM) کے ساتھ ایک (Mou)طے کیا لیکن اس دورے کااصل مقصد یہ تھا کہ بلال ارشاد نے اپنی اعلیٰ تعلیم کے لئے وہاں ایک اور یونیورسٹی میں داخلہ لے لیا۔بلال ارشاد پر مزید الزام یہ ہیں کہ اس نے آس ٹرایٹی(کفایت شعاری) قوانین کو پورا کئے بغیر یہ دورہ کیا۔اسی طرح سابق وائس چانسلر کے دور میں آس ٹرایٹی کمیٹی (کفایت شعاری) کے قوانین کوپورا کئیے بغیر 60لاکھ روپے سے زائد مالیت کی ایک فور بائی فور لگژری ٹیوٹا فارچیونر گاڑی خریدی گئی حالانکہ وائس چانسلر کے لئے 1300سی سی گاڑی استعمال کرنے کااختیار ہے۔واضح رہے کہ ڈیڑھ سال قبل سابق وائس چانسلر اطہر محبوب کے دور میں ٹھیکیداروں نے نیب میں ریفرنس دائر کیا تھا جس پر نیب نے ایکشن لیتے ہوئے ایک ماہ قبل ہائیر ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ کو اعلیٰ سطحی انکوائری ٹیم بناکر رپورٹ پیش کرنے کاکہا تھا۔اس سلسلہ میں یونیورسٹی کے فوکل پرسن انورفاروق سے رابطہ کیا گیا تو انہوں نے ہونے والی ان تمام اقدامات اورکارروائیوں کی تصدیق کی‘اورکہا کہ ہائیر ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ نے اعلی سطح ٹیم نے انکوائری کی اوراپنی سفارشات 16جولائی 2020ء کوہونیوالی سنیڈیکیٹ میٹنگ میں پیش کی۔ٗ ٗ
محترم قارئین کرام،، مجھے تو حیرت ہو رہی ہے حرام خوری کے حوالے سے شہرت یافتہ محکمہ مال کے اس شخص پر. جو نائب تحصیل دار کی پرکشش اور رعب راب والی ملازمت سے استعفی دے کر یونیورسٹی میں رجسٹرار بھرتی ہوا لیکن موصوف نے حرام خوری ہیرا پھیرا اور کرپشن کو خیر باد کہنے کی بجائے یہاں آ کر اس نہ صرف جاری رکھا بلکہ اتنی ات مچا دی کہ اب ہر طرف یونیورسٹی میں ہونے والی کرپشن کی دھمیں ہیں.جی او شیرا، شیراں دے پتر شیر.
محترم قارئین کرام،، بہت سارے اورمعاملات اور باتیں بھی ہیں جن پر پھر بات کریں گے لیکن آپ سب میرے ساتھ آج یہ عہد کریں کہ ہم سب نے مل کر اپنے ضلع اور وسیب کے تعلیمی اداروں کے ماحول کو خراب ہونے سے بچانا ہے. علم، تعلیم و تربیت کی ترویج و ترقی اور بہتری میں تعلیمی اداروں کا ساتھ دینا اور تحفظ کرنا ہے. انہیں مسائل کی دلدل سے نکالنے میں اپنا عوامی کردار ادا کرنا ہے.خواجہ فرید یونیورسٹی ہو یا خواجہ فرید کالج دونوں کو فنڈز کی فراہمی میں مسلسل نظر انداز کیا جا رہا ہے حالیہ بجٹ میں بھی ان اداروں کے لیے کوئی قابل ذکر منصوبے پاس نہیں کیے گئے. ذرا سو چئے ان کی آواز آخر کون اٹھائے گا. میاں امتیاز یا چودھری جاوید اقبال وڑائچ، آصف مجید یا عبدالجلیل بندیشہ. ضلع سے تعلق رکھنے والے صوبائی وزیر خزانہ کا نام اس لیے نہیں لے رہا کہ مخدوم لوگ خوامخواہ اور جلدی ناراض ہو جاتے ہیں.رحیم یار خان والو آؤ خواجہ فرید یونیورسٹی کی خبر گیری کریں.وہاں کیا ہو رہا ہے. پریس کلب کے صدر ڈاکٹر ممتاز مونس نے بتایا ہے کہ یونیورسٹی کے پہلے والا صاحب ایک ارب روپے کی کرپشن کرکے بھاگ گیا ہے. یہ نہیں بتایا کہ اس ارب روپے کی کرپشن میں کس کس نے کتنا حصہ پایا.کون محروم رہا. چلو باقی باتیں پھر سہی
پریس کلب کے صدر ڈاکٹر ممتاز مونس نے بتایا ہے کہ یونیورسٹی کے پہلے والا صاحب ایک ارب روپے کی کرپشن کرکے بھاگ گیا ہے.
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر