نومبر 15, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

بلوچستان یونیورسٹی ویڈیو سکینڈل: سابق وائس چانسلر سمیت پانچ ملازمین کو سزائیں

سیاسی جماعتوں اور طلباء تنظیموں نے طالبات کو ہراساں کرنے کے ذمہ دار افراد کے خلاف کاروائی کا مطالبہ بھی کیا تھا۔

رپورٹ: محمد کاظم

بلوچستان کے سب سے بڑے تعلیمی ادارے یونیورسٹی آف بلوچستان میں خفیہ ویڈیوز بنانے اور طالبات کو ہراساں کرنے کے الزام میں یونیورسٹی سنڈیکیٹ نے سابق وائس چانسلر جاوید اقبال سمیت پانچ ملازمین کو مختلف نوعیت کی سزائیں دی ہیں۔

خفیہ کیمروں کے ذریعے ویڈیوز بنانے اور پھر طالبات کو ہراساں کرنے سے متعلق یونیورسٹی کی انکوائری کمیٹی نے جن اہلکاروں کے خلاف کاروائی کی سفارش کی تھی ان کا جائزہ لینے اور ان کے خلاف سزاﺅں کا تعین کرنے کے لیے یونیورسٹی کے سینڈیکیٹ بورڈ کا اجلاس وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹرشفیق الرحمن کی زیرصدارت ہوا۔

اجلاس میں یونیورسٹی کے چیف سکیورٹی آفیسر محمد نعیم اور سکیورٹی گارڈ سیف اللہ کو ملازمت سے برطرف کرنے کا فیصلہ کیا گیا جبکہ سینڈیکیٹ نے یونیورسٹی کے سابق رجسٹرار طارق جوگیزئی اور سابق ٹرانسپورٹ آفیسر شریف شاہوانی کی تنخواہ میں دو،دو سال کے لیے سالانہ اضافہ روکنے کا فیصلہ کیا ہے۔

چونکہ سابق وائس چانسلر جاوید اقبال کو کوئی سزا دینے کا اختیار سنڈیکیٹ کے پاس نہ ہونے کے باعث یونیورسٹی سینڈیکیٹ نے گورنر بلوچستان جو کہ یونیورسٹی کے چانسلر بھی ہیں کو سابق وائس چانسلر کے خلاف جوڈیشل کارروائی اور ان سے ایوارڈز اور ٹائٹلز واپس لینے کی سفارش کی ہے۔

یاد رہے کہ بلوچستان یونیورسٹی میں طالبات کو ہراساں کرنے کا معاملہ گذشتہ برس ستمبر میں منظر عام پر آیا تھا۔ اس واقعے کا نہ صرف بلوچستان ہائی کورٹ نے نوٹس لیا تھا بلکہ بلوچستان کی طلباء تنظیموں اور سیاسی جماعتوں نے اس واقعے کے خلاف بڑے پیمانے پر احتجاج بھی کیا تھا۔

سیاسی جماعتوں اور طلباء تنظیموں نے طالبات کو ہراساں کرنے کے ذمہ دار افراد کے خلاف کاروائی کا مطالبہ بھی کیا تھا۔

سابق وائس چانسلر جاوید اقبال کا موقف؟

سابق وائس چانسلر جاوید اقبال نے اس سکینڈل میں ملوث ہونے کے حوالے سے الزامات کو سختی سے مسترد کرتے ہوئے کہا کہ انھیں یونیورسٹی سیاست کا نشانہ بناتے ہوئے یہ مسئلہ پیدا کیا گیا۔

’یونیورسٹی کی اندرونی سیاست کی وجہ سے اس معاملے کو میرے خلاف اچھالا گیا۔‘

یونیورسٹی میں طالبات کو ہراساں کرنے کے الزامات منطر عام پر آنے کے بعد جب اس حوالے سے احتجاج نے زور پکڑ لیا تھا تو سابق وائس چانسلر جاوید اقبال نے اپنے عہدے سے تحقیقات مکمل ہونے تک علیحدگی اختیار کی تھی۔

لیکن بعد میں ان کو ہٹا کر پہلے یونیورسٹی میں ایک قائمقام وائس چانسلر اور بعد میں پروفیسر ڈاکٹر شفیق الرحمان کی مستقل وائس چانسلر کی حیثیت سے تقرری کی گئی۔

سنڈیکیٹ کے فیصلے پر پروفیسر جاوید اقبال نے ردعمل دیتے ہوئے کہا کہ تاحال سنڈیکیٹ کے اجلاس کے نکات سامنے نہیں آئے ہیں اور کسی بھی طالب علم کو ہراساں کرنا بری بات ہے لیکن جہاں تک یونیورسٹی میں طالبات کو ہراساں کرنے کی بات ہے تو اس حوالے سے بے بنیاد الزامات لگائے گئے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ ’اس حوالے سے میرے خلاف کچھ بھی نہیں تھا یہی وجہ ہے کہ یونیورسٹی کے رجسٹرار اور ٹرانسپورٹ آفیسر کو سالانہ تنخواہ میں اضافہ روکنے کی معمولی سزا دی گئی ہے۔‘

طالبات کو ہراساں کرنے کا معاملہ ہائیکورٹ کے نوٹس میں کیسے آیا ؟

بلوچستان یونیورسٹی میں بعض ملازمین کو نہ صرف آﺅٹ آف ٹرن ترقیاں دی گئی تھیں بلکہ حیرت انگیز طور پر ان میں سے بعض کو بہت زیادہ ترقی دی گئی تھی۔

ان آﺅٹ ٹرن ترقی پانے والوں میں برطرف کیا جانے والا ملازم سیف اللہ بھی شامل تھا جو کہ ابتدائی طور پر معمولی سکیورٹی گارڈ بھرتی ہوا تھا تاہم بعد میں ان کو زیادہ ترقی دینے کے علاوہ یونیورسٹی میں لگے سی سی ٹی وی کیمروں تک بھی رسائی دی گئی تھی۔

ہائی کورٹ

ان آﺅٹ آف ٹرن ترقیوں سے متاثر ہونے والے ملازمین نے ان ترقیوں کو بلوچستان ہائی کورٹ میں چیلنج کیا تھا۔ اور ان درخواستوں کی سماعت کے دوران یہ بات سامنے آئی تھی کہ یونیورسٹی میں لگے سی سی ٹی وی کیمروں کا غلط استعمال کیا گیا۔

یہ بات سامنے آنے پر عدالت نے ایف آئی اے کو تحقیقات کا حکم دیا تھا جبکہ خواتین طلبا کو ہراساں کرنے کے بارے میں ایک درخواست بھی ایف آئی اے کو دی گئی تھی۔

بلوچستان ہائی کورٹ نے درخواستوں کی سماعت کے دوران بعض شواہد سامنے آنے پر یہ کہا تھا کہ سکیورٹی کے مقاصد کے لیے لگے سی سی ٹی وی کیمروں کے ڈیٹا کو غلط استعمال کیا گیا۔ عدالت نے کہا تھا کہ یونیورسٹی میں سکیورٹی کے لیے لگے ان کیمروں کے ڈیٹا پر نہ صرف بعض اہلکاروں کو غیر مجاز رسائی دی گئی تھی بلکہ بعض ڈیٹا غیر متعلقہ افراد سے بھی برآمد ہوا تھا۔

عدالت نے یہ بھی کہا تھا کہ یونیورسٹی میں جو خفیہ کیمرے لگے ہیں وہ صرف سکیورٹی کے مقاصد کے لیے تھے لیکن ان کے ڈیٹا پر غیر مجاز افراد کی رسائی کے علاوہ بعض مقامات پر غیر مجاز خفیہ کیمرے بھی لگائے گئے تھے۔

بلوچستان یونیورسٹی اپنے قیام سے ہی بلوچستان میں طلباء سیاست کا اہم مرکز رہی ہے اور سنہ 2000 کے بعد امن و امان کی صورتحال کی خرابی باعث یونیورسٹی طلباء کے احتجاج کا ایک اہم مرکز بن گئی تھی۔

جس کے روک تھام اور سکیورٹی کے پیش نظر بلوچستان یونیورسٹی میں سیکورٹی کے حوالے سے اقدامات کا سلسلہ شروع کیا گیا۔ پہلے مرحلے میں یونیورسٹی میں کیمپس پیس کور کے نام سے الگ پولیس کی نفری کی تعیناتی کی گئی تاہم طلباء احتجاج میں شدت آنے کے بعد یونیورسٹی میں فرنٹیئر کور کی تعیناتی بھی کی گئی۔

یونیورسٹی میں سکیورٹی اہلکاروں کی بھاری نفری کی تعیناتی کے علاوہ بڑی تعداد میں خفیہ کیمرے بھینصب کیے گئے ہیں۔


بشکریہ بی بی سی اردو

About The Author