گذشتہ روز پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے سرائیکی اجرک کا تیار کردہ سپیشل ماسک پہن کر میڈیا سے گفتگو کی. صحافیوں اور متعصب صحافیوں کے سوالات اپنی جگہ وہ ہمارا آج کا موضوع نہیں ہیں. بلاول بھٹو زرداری کے باپ دادا کے سرائیکی ہونے اور ان کے نانا شہید جمہوریت ذوالفقار علی بھٹو کی سرائیکی سے محبت کی باتیں کوئی نئی اور انوکھی چیز نہیں ہیں.بلاول زرداری کا سرائیکی ماسک پہننا سیاسی شعبدے بازی ہے یا خطہ سرائیکستان اور پاکستان کے عوام کو سیاسی پیغام. اگر شعبدے بازی ہے تو بس ہو چکی ہے سرائیکی وسیب میں بلاول کی بھل بھل کی ایک نئی ہوا کی ہیل اورمحسور کن خوشبو ہر طرف پھیل چکی ہے. بلاول زرداری اور سرائیکی اجرک والا ماسک مختلف انداز اور زاویوں سے ڈسکس ہو رہے ہیں. غالب امکان ہے یہ یہ کافی وقت تک زیر بحث رہیں گے. سیاسی و ثقافتی حوالے سے بیان بازی، تبصرے، مغالطے، خوش فہمیاں، تنقید وغیرہ کا سلسلہ جاری رہے گا.
بلاول بھٹو زرداری پاکستان کی ایک بڑی پارٹی کا چیئرمین،آگے پیچھے سے سیاست دان گھرانوں کا چشم و چراغ اور خود سیاست دان ہے شاید مستقبل میں وطن عزیز کی بڑی اور اہم ترین شخصیت. بلاول بھٹو زرداری اور ان کی جماعت کے دیگر تمام بڑے سیاستدانوں کو یہ بات، یہ حقیقت اور اس سچ کو اچھی طرح نوٹ کر لینا چاہئیے کہ بلاول کے صرف سرائیکی اجرک والے ماسک پہننے سے سرائیکی وسیب میں بلاول بلاول ہو گیا ہے یا ہوگئی ہے. سرائیکی اجرک ایک ثقافتی پہناوا اور شناخت ہے. وسیب کے لوگ اپنی زبان و ثقافت اور شناخت سے کس قدر محبت کرتے ہیں کہ چند لمحوں کے لیے ان کی شناخت اور حقوق کی بات کرنے والے پر وارے جا رہے ہیں.بلاول سئیں، خطہ سرائیکستان کے لوگوں میں اپنی شناخت کے حصول کی بھوک و پیاس کی شدت اور تڑپ کس قدر شدید ہے.اگر آپ اور آپ کی پیپلز پارٹی سرائیکی شناخت کو تسلیم کرتے ہیں تو پھر دیر نہ کیجئے اپر پنجاب کے خوف سے باہر نکلیں.اپنی پارٹی کے اندر فوری طور پر سرائیکی وسیب کو اس کی شناخت دیجئے. پیپلز پارٹی جنوبی پنجاب تنظیم کے نام کو درست کیجئے. سرائیکی لوگ گالیاں نہیں سننا چاہتے. تنظیم کا نام پاکستان پیپلز پارٹی سرائیکستان رکھ کر آگے بڑھیں.مستقبل میں وطن عزیز کی اقتداری سیاست کا دار و مدار خطہ سرائیکستان میں کامیابی پر ہی ہوگا.وہی پارٹی اقتدار میں آیا کرے گی جیسے مجوزہ صوبہ سرائیکستان میں کامیابی نصیب ہوا کرے گی.سرائیکستان کے نام میں اگر اسٹیبلشمنٹ رکاوٹ ہے یا اس کی ناراضگی کا ڈر ہے تو اندر کے اس ڈر کو ختم کریں.حقیقت کو زیادہ چھپایا اور دبایا نہیں جا سکتا.مجھے یقین ہے کہ تھل اور روہی چولستان کی باقی ماندہ زمینوں کی بندر بانٹ اور تقسیم کے بعد سرائیکی صوبے کی راہ میں حائل رکاوٹیں ریت کے ٹیلوں کی طرح اِدھر اُدھر ہو کر ازخود بکھر جائیں گی. یقین کر لیں وہی مخالف قوتیں خود صوبہ صوبہ کھیلتی نظر آئیں گی. علیحدہ صوبے کے حصول کی تحریک میں اپنی انویسٹمنٹ کی بدولت آگے آگے ہوں گی.
یاد رکھیں خطہ سرائیکستان وطن عزیز پاکستان کے وجود میں ریڑھ کی ہڈی ہے.اگر کسی آدمی کی ریڑھ کی کسی وجہ سے ہڈی ٹیڑھی ہو جائے، ٹوٹ جائے یا اس میں کوئی اور خرابی اور نقص پیدا ہو جائے تو اس آدمی کا کیا حال ہوتا ہے. اس کی کیسے گزرتی ہے. انسانی جسم میں اگر آپ ریڑھ کی ہڈی کی اہمیت و ضرورت اور مقام کو سمجھتے ہیں تو پھر ہم سب کو پاکستان کی خاطر اس کی صحت و تندرستی، طاقت و مضبوطی کے لیے اس کا ہمیشہ اور ہر حال میں خیال کرنا ہو گا. سرائیکی زبان و ثقافت اور سرائیکی خطہ ایک حقیقت اور سچ ہے.اس حقیقت اور سچ کو دل و جان سے مان کر، تسلیم کرکے آگے بڑھیں. یہ ہم سب کا پاکستان ہے. کسی مخصوص طبقے کے باپ کی جاگیر نہیں. نہ ہی آج اس کے مامے بننے والے اسے جہیز میں لائے ہیں. دھرتی واس اور سن آف سائل لوگوں اور قوموں کو مٹانے، کچلنے اور دبانے کی پالیسیاں ختم ہونی چاہئیں. ظلم و زیادتی، جبر،لوٹ مار، استحصال، ضصبر اور برادشت کی بھی اپنی اپنی ایک حد ہوتی ہے. اللہ تعالی اپنی پیدا کردہ چیزوں کی حفاظت کرنا خوب جانتا ہے وہ ذات بہت بڑی قادر ہے. خطہ سرائیکستان سے تعلق رکھنے والے سابق وزیر اعظم اور پیپلز پارٹی کے سینئر وائس چیئرمین سید یوسف رضا گیلانی، سابق وفاقی وزیر و ایگزیٹوسنٹرل کمیٹی کے رکن مخدوم شہاب الدین، سابق گورنر پنجاب و پیپلز پارٹی سرائیکستان کے صدر مخدوم احمد اور اس کلاس کے دیگر حضرات کو چاہئیے کہ وہ سابق صدر پاکستان آصف علی زرداری اور بلاول بھٹو زرداری پر واضح کریں انہیں دو ٹوک اور سچے کھرے لفظوں میں بتائیں کہ سرکار اب بات سرائیکی اجرک یا سرائیکی اجرک والے ماسک پہننے سے ہرگز نہیں بنے گی.جلسوں میں سرائیکی زبان میں تقریر کرنے کا ٹوٹکا بھی بااثر سے بے اثر ہو چکا ہے.لوگ ایک نہیں کئی بار فریب اور دھوکے کھا چکے ہیں.مرید بے فیض پیروں اور راج بے فیض جاگیراروں سے عاجز آگے چکا ہے. لمبے عرصے سے محکوم لوگوں کی اولادیں نہ صرف جاگ چکی ہیں بلکہ وہ بولنا چلنا پھرنا اور اپنے حقوق کے لیے احتجاج کرنا بھی سیکھ چکی ہیں. نوجوان تبدیلی اور انقلاب کے راستے کی طرف چلنے کی تیاری کر چکے ہیں. اپنا صوبہ اپنا اختیار کا نعرہ اور لارا لگا کر ووٹ حاصل کرکے اقتدار حاصل کرنے والے جو اب پنجاب کا ملتان اور بہاول پور میں سب سول سیکرٹریٹ بنا کر قانون کی دفعہ62,63کی خلاف ورزی کر رہے ہیں. وسیب واسیوں میں انہیں بھی بیک گیئر لگ چکا ہے. وسیب کے لوگ برتر یا کمتر نہیں پاکستان کے دوسرے صوبوں کی طرح اپنا قومی شناختی صوبہ چاہتے ہیں. میرے سرائیکی وسیب کے مخادیم صاحبانوں اگر آپ اپنی قیادت سے ابھی یہ بات نہیں کر سکتے. اپنی جماعت کے اندر سرائیکی وسیب کو اس کی شناخت نہیں دلا سکتے. تو آپ اپنی تمام تر خوبیوں اور صلاحیتوں کے باوجود سرائیکی وسیب کے عوام کے لیے ماں دھرتی کے لیے کارآمد نہیں. نوجوان آپ کو اور آپ کی پارٹی کو قبول نہیں کریں گے.حالات یہ پہلے ہی بتا چکے ہیں اور لوگ دیکھ بھی چکے ہیں کہ اقتدار میں آکر پارٹی اور قیادت فیصلے کرنے کے حوالے سے بعض دوسری قوتوں کی محتاج ہو جاتی ہے. اپنے دور صدارت میں ملتان میں سید یوسف رضا گیلانی کے گھر پر آصف علی زرادری کی سرائیکی صوبہ اور سرائیکی شناخت کے حوالے کی گئی باتیں لفظ بہ لفظ یاد ہیں. وہ اپنے دور میں صرف سرائیکی بنک کا وعدہ بھی پورا نہ سکے. خطہ سرائیکستان، پیپلز پارٹی اور سندھ کی باہم سانجھ بنتی ہے. لیکن اس وقت سانجھ ٹوٹی ہوئی اور کمزور ہے.اسے جوڑنے اور مضبوط کرنے کی ضرورت ہے. اعتماد اور بھروسے کا فقدان ہے. اعتماد کی بحالی بھروسے، یقین اور امید کے لیے آپ کو خطہ سرائیکستان کو پارٹی کے اندر اس کی شناخت دینی پڑے گی. تنظیم کا نام پیپلز پارٹی سرائیکستان رکھ کر آگے بڑھنا ہوگا.
پیپلز پارٹی سے وابستہ مخادیم صاحبان چاہے ملتان کے ہوں یا ضلع رحیم یار خان کی والیوں والے ہوں. باہم اندرونی سیاسی لگ پولنگ سے اب انہیں اجتناب کرنا ہوگا. بیرونی، زیادہ اندرونی منافقت کی وجہ سے پارٹی کو ماضی میں بھی خاصی نقصان پہنچ چکا ہے. وسیب کے حقوق کے حصول کے لیے آپ کو باہم شیر و شکر اور متحد ہو کر قومی سیاست میں اپنا کردار ادا کرنا ہوگا
پاکستان تحریک انصاف کے حکمرانوں کی جانب سے بنایا جانے والا پنجاب کا سول سیکرٹریٹ. جنوبی پنجاب عوام میں پذیرائی کے حوالے سے بلاول بھٹو زرادری کے ایک سرائیکی اجرک ماسک کی مار ثابت ہوا ہے.سرائیکی وسیب میں سول سیکرٹریٹ کو اتنی پژیرائی نہیں ملی جتنی بلاول کے سرائیکی ماسک کو مل چکی ہے حالانکہ سول سیکرٹریٹ کے مقابلے میں بلاول بھٹو کے ماسک پہننے سے عوام کو ایک ٹکے کا بھی فائدہ نہیں ہوا اور ہو بھی کیا سکتا ہے. لوگ کیا چاہتے ہیں حکمرانوں کو یہ دل و دماغ سے سوچنا اور اندرونی و بیرونی آنکھوں سے دیکھنا ہوگا.یاد رکھیں پیٹ کی طرح دل و دماغ کو بھی غذا کی ضرورت ہوتی ہے.انسان کی روح کو بھی غذا چاہئیے ہوتی ہے. شناخت کوئی عام چیز اور عام مسئلہ ہرگز نہیں ہے. دینی اور دنیاوی جس لحاظ سے بھی آپ ٹھنڈے دل و دماغ کے ساتھ جائزہ لیں.دنیا اور اس کے معاملات کو دیکھیں گے آپ کو شناخت ہر جگہ اور ہر وقت نمایاں اور واضح نظر آئے گی. آپ اپنی شخصیت، گھر،خاندان، محلے، شہر، ملک، کاروبار سے سیاست تک جدھر بھی دیکھیں گے.شناخت کی حقیقت اور سچ موجود ہوگا.وزیر اعظم پاکستان عمران خان ہوں یا بلاول بھٹو زرادری یا دوسرے لوگ وہ سب نوٹ کر لیں
. خطہ سرائیکستان کے لوگ پنجاب سے اور پانچ لفظوں والے جنوبی سے چھٹکارا اور نجات چاہتے ہیں. وہ اپنی شناخت صوبہ سرائیکیستان چاہتے ہیں. باقی فیصلے کرنے اور فیصلے مسلط کرنے والی قوتیں جہاں تک اور جو کچھ دیکھنا چاہتی ہیں دیکھ لیں.مفکر و مصور سرائیکستان ریاض ہاشمی ایڈووکیٹ مرحوم و مغفور کی1955کی رٹ پیٹیشن، 1972کے سیاسی عمل مجوزہ نقشہ سرائیکی صوبہ سے لے کر اب تک کے حالات و واقعات ہم سب کے سامنے ہیں.
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر