نومبر 8, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

بلوچستان کا احساس محرومی اور وزیراعظم کا وعدہ ۔۔۔ حیدر جاوید سید

یہ سوال اس لئے اہم ہے کہ اگر اعتماد سازی کی بحالی کےلئے مئوثر اقدامات نہ اُٹھائے گئے تو باقی کے اقدامات کا فائدہ نہیں ہوگا۔

صد شکر کہ کسی کو بلوچستان کی عمومی صورتحال‘ مسائل ومشکلات کا احساس تو ہوا‘ تاخیر سے سہی لیکن اگر وفاقی سطح اور خصوصاً جناب وزیراعظم کو یہ احساس ہو ہی گیا ہے کہ بلوچستان کا احساس محرومی دور کرنے کی ضرورت ہے تو ہمیں اُمید رکھنی چاہئے کہ یہ احساس محض بیانات وتقاریر تک ہی محدود نہیں رہے گا بلکہ عملی اقدامات پر توجہ دی جائے گی۔
ان تمہیدی سطور کی وجہ قومی ترقیاتی کونسل کے اجلاس میں جناب وزیراعظم کی تقریر ہے۔
انہوں نے کہا ہے کہ
”بلوچستان کا احساس محرومی دور کریں گے، ترقیاتی اہداف کے حصول اور روزگار کی فراہمی پر توجہ دی جائے گی، امن وامان کے قیام کو یقینی بنائیں گے، سماجی واقتصادی ترقی اولین ترجیح ہوگی“۔
روایتی انداز میں انہوں نے پچھلے ادوار کے حوالے سے چند باتیں کہیں ان کا روایتی جواب یہی ہے کہ حضور!
وہ جن پر ماضی میں تعمیر وترقی کےلئے فراہم کردہ وسائل ہڑپ کرنے کے الزامات ہیں ان میں سے اکثر اس وقت بلوچستان کی صوبائی حکومت کا حصہ ہیں۔
یہاں درست یا غلط الزامات پر بحث مقصود نہیں بلکہ یہ عرض کرنا ہے کہ جب 500ووٹ لینے والا سپیکر‘ پھر وزیراعلیٰ اور اب پھر اہم منصب پر ہو تو سیاسی محرومیاں بڑھتی ہیں۔
بلوچستان کے بنیادی طور پر تین اہم مسئلے ہیں‘ اولاً صوبے کے لوگوں کا حکومت پر اعتماد کا نہ ہونا‘ ثانیاً ترقیاتی پروگراموں سے زیادہ سردار و سردار زادگان پروری کی پالیسی‘ ثالثاً مقامی وسائل پر مقامی لوگوں کے حق ملکیت سے انکار۔
جناب عمران خان یا کوئی بھی جو ان مسئلوں کے حل کےلئے پیش قدمی کرے گا وہ حقیقت میں بلوچستان کے لوگوں کا دل جیتنے میں کامیاب ہوگا۔
اب سوال یہ ہے کہ کیا بلوچستان کے حوالے سے پالیسی سازی واقدامات ہر دو کےلئے منتخب حکومت میں دم خم ہے؟
یہ سوال اس لئے اہم ہے کہ اگر اعتماد سازی کی بحالی کےلئے مئوثر اقدامات نہ اُٹھائے گئے تو باقی کے اقدامات کا فائدہ نہیں ہوگا۔
اعتماد سازی کےلئے دو اہم کام کرنا ہوں گے،
اولاً لاپتہ افراد میں سے جو ریاستی محکموں کی تحویل میں ہیں انہیں عدالتوں میں پیش کیا جائے۔
ثانیاً مقامی وسائل پر مقامی لوگوں کا حق فائق تسلیم کیا جائے۔
پچھلے 20سال کے دوران جعلی ڈومیسائل اور دیگر طریقوں سے بلوچستان کے لوگوں کو ان کے حق سے محروم کرنے کےلئے جو گھٹالے ہوئے ان کی تحقیقات کروائی جائے، جعلسازوں کو کیفرکردار تک پہنچایا جائے اور حق داروں کو حق دیا جائے۔
زیادہ مناسب ترین بات یہ ہوگی کہ حکومت ایک بااختیار پارلیمانی کمیشن قائم کرے، جس میں حکومت اور اپوزیشن کی مساوی نمائندگی کےساتھ قانون دانوں اور اہل دانش کی بھی نمائندگی ہو۔
یہ قومی پارلیمانی کمیشن بلوچستان میں بلاامتیاز سب سے بات چیت کرے، ان کی شکایات سنے، بات چیت کا دروازہ کسی فرد یا فریق پر بند نہ کیا جائے۔
البتہ یہ ضروری ہے کہ اگر حکومت ایسا کوئی کمیشن بنانے پر تیار ہوتی ہے تو پھر لاپتہ افراد کے حوالے سے ابتدائی کام کرلیا جائے تاکہ یہ اعتماد قائم ہو کہ معاملات آگے بڑھیں گے۔

اسی طرح گوادر میں زمینوں کی خرید وفروخت کے حوالے سے موجود الزامات اور تحفظات کو دور کرنا حکومت کا کام ہے۔
قدرتی وسائل سے مالامال مگر بدحال صوبہ بلوچستان میں انقلابی خطوط پر اصلاحات کی ضرورت ہے، یہ اصلاحات حقیقی فریقوں کو نظرانداز کرکے نہیں ہوسکتیں۔
ہم اگر ازلی دشمن بتائے جانے والے بھارت سے مذاکرات کرسکتے ہیں تو ناراض بلوچوں سے مذاکرات میں امر مانع نہیں ہونا چاہئے۔
البتہ یہ ضروری ہے کہ چند سرداروں یا سردار زادوں کی نازبرداری ترک کرکے اب مجموعی وسائل بلوچستان کے لوگوں کے حالات بدلنے کےلئے استعمال کئے جائیں۔
انتخابی نتائج کے حصول کےلئے ماضی میں اپنائی گئی حکمت عملیاں مستقبل میں ترک کرنے کا اعلان کیا جائے اور کچھ نہیں تو پچھلے 20سالوں کے ترقیاتی بجٹ کا آڈٹ کروا لیا جائے تاکہ لوگ حقیقت حال جان سکیں۔
بلوچستان کا احساس محرومی دور کرنے کی یہ بات محض اخباری سرخی تک ہی نہ رہ جائے اس کےلئے عملی اقدامات اُٹھانے ہوں گے۔
کیا ہم اُمید کریں کہ بلوچستان کے حوالے سے وہ سب اقدامات ہوں گے جن کے بارے میں وزیراعظم نے قومی ترقیاتی کونسل میں اظہار خیال کیا ہے؟۔
تلخ ترین حقیقت یہ ہے کہ بلوچستان میں جو حالات آج ہیں ان کا دروازہ نواب اکبر بگٹی کے قتل سے کھلا چند دیگر شخصیات کا پراسرار انداز میں قتل اور پھر بھونڈی وجوہات ان سب نے مل کر بلوچوں میں احساس محرومی بڑھایا۔
اس لئے جب تک وفاقی اور صوبائی حکومتیں اپنی اپنی ذمہ داریاں خود ادا کرنے کی اہلیت کا مظاہرہ نہیں کرتیں اور ریاست درریاست والی پالیسیوں پر عمل ختم نہیں ہوتا بہت مشکل ہے کہ احساس محرومی دور ہو۔
ہمیں یہ یاد رکھنا ہوگا کہ جو بھی شخص یا حکومت بلوچوں کا دل جیتنے‘ اعتمادسازی کی بحالی کےلئے مئوثر اقدامات اُٹھانے اور دیگر حقائق کو کھلے دل سے تسلیم کرے گی وہ پاکستان کےلئے نیک نامی حاصل کرے گی،
ثانیاً یہ کہ غداری وحب الوطنی کے سرکاری معیار ترک کرکے یہ تسلیم کرنا ہوگا کہ زمین زادے اپنی دھرتی ماں کے وفادار ہوتے ہیں، ریاستی پالیسیوں سے اختلاف یا ان پر تنقید سے حب الوطنی مشکوک نہیں ہوجاتی۔
بلوچستان کے لوگ اس ملک کے مساوی شہری اور حق ملکیت کے مالک ہیں۔
اگر ہم کم ازکم پچھلے 20سال میں ہوئی ناانصافیوں اور دیگر منفی اقدامات سے پھیلے تاثر کو ختم کرکے اعتمادسازی کی بحالی کو یقینی بنا لیتے ہیں تو کوئی وجہ نہیں کہ ناراض لوگ پھر سے قومی دھارے میں شامل نہ ہوں۔
شرط فقط اخلاص‘ وعدوں کی پاسداری اور مسائل کا سنجیدگی سے حل تلاش کرنا ہے۔
یہی وفاق پاکستان اور خود بلوچستان کے مفاد میں ہے۔ اُمید ہے کہ اب آگے بڑھنے کےلئے کوئی کسر نہیں اُٹھا رکھی جائے گی۔

About The Author