بلاول بھٹو کے اجرک والے ماسک کو الیکٹرونک میڈیا اور سوشل میڈیا پر بہت مشق ستم بنایا گیا۔ اس کا بہت ہی بھونڈے طریقے سے مذاق اڑایا گیا۔ اس کا تمسخر کا اڑاتے ہمیں یہ احساس بھی نہیں رہا کہ ہم ایک سیاسی جماعت کے لیڈر کا مذاق اڑانے کے بہانے ایک صوبے کا مذاق اڑا رہے ہیں۔ ہزاروں سال پرانی ایک تہذیب کا مذاق اڑا رہے ہیں۔
عجیب معاملہ ہے کہ ہم اپنے بارے میں احساسِ کمتری میں مبتلا ہونے میں ذرا دیر نہیں لگاتے۔ اپنی زبان، رسومات، موسیقی، اپنے فنکار، گیت، اپنی تہذیب حتیٰ کہ ہم اپنی سوچ پر بھی شرمندہ رہتے ہیں۔ یہ احساسِ کمتری اس عہدِ غلامی میں پروان چڑھا جب ہم انگریز کے محکوم تھے۔ جب ہم غلامی کے شکنجوں میں قید تھے۔ جب ہمیں کم تر مخلوق سمجھا جاتا تھا۔
آج کہنے کو تو ہم آزاد ہیں مگر ہماری سوچ پر ابھی بھی زنجیریں پڑی ہیں، آزادی کا پہلا لمحہ وہ ہوتا ہے جب انسان اپنے وجود کو تسلیم کرے، خودی کو تسلیم کرے۔ اپنے آپ کو افضل جانے، اپنے آپ کو پہچانے لیکن ہمارا معاملہ بالکل مختلف ہے کہ ہم ایسے احساس کم مائیگی کا شکار ہیں کہ جس کی مثال دنیا میں کہیں نہیں ملتی۔
سندھ کی تہذیب ہزاروں سال پرانی ہے۔ یہ سندھو دریا کے پانی کی تاریخ ہے۔ یہ سچل سرمست اور شیخ ایاز کی تہذیب ہے۔ یہ صوفیوں کا ورثہ ہے۔ یہ دانشوروں کا اثاثہ ہے۔ سندھی اجرک اس ساری تاریخ کی گواہ ہے۔ اس عظمت رفتہ کی نشانی ہے۔ اس پر پھبتیاں کسنے سے مراد یہ ہے کہ ہم اپنے بزرگوں کا مذاق اڑا رہے ہیں۔ اپنے ورثے پر ہم نادم ہیں۔
بلاول بھٹو نے اب تک جتنی سیاست کی ہے اس میں کوئی لفظ غلط نہیں کہا۔ وہ بات کو ناپ تول کر کرتے ہیں۔ اہم موضوعات پر خطاب کرتے ہیں۔ نازک باتوں کو بیان کرتے ہیں۔ جمہوری سوچ انکو ورثے میں ملی ہے۔ ان کے نانا اور والدہ کی سوچ کا خمیر جمہوریت میں گندھا تھا۔
سندھ کی دھرتی نے بھٹو کو جنم دیا جس نے لوگوں کے دلوں پر راج کیا۔ بےنظیر پر بھی اسی دھرتی کی چھاپ تھی۔ بلاول اگر اسی وراثت کو لے کر آگے بڑھے ہیں تو یہ اعزاز کی بات ہے تضحیک کا مقام نہیں ۔
پنجاب ہو یا سندھ، بلوچستان ہو یا خیبر پختوخوا، گلگت ہو یا کشمیر ہر ایک علاقے کا رنگ جدا جدا ہے۔ ہر ایک علاقے کی بولی، رسم و رواج، لہجہ اور ثقافت الگ ہے۔ یہی خوش رنگی ہماری خوبصورتی ہے۔ ان میں سے کسی ایک کی تضحیک اس ’’کل‘‘ کی تضحیک ہے۔
بلاول بھٹو کی اس ذہین کاوش پر دو طرح کا ردعمل سامنے آیا ہے۔ ایک وہ ہیں جو اس پر پھبتی کسنے میں مصروف ہیں اور دوسری جانب وہ بھی لوگ ہیں جو ملک کے ہر صوبے سے اجرک والی تصاویر سوشل میڈیا پر پوسٹ کر رہے ہیں۔ آخر الذکر ہی مطمح نظر ہے۔ ہونا تو یہی چاہئے کہ سندھی، پنجاب کی ثقافت کا لطف اٹھائیں، پٹھان، بلوچوں کی تہذیب پر فخر کریں اور پنجابی اپنے رنگ پر فخر کریں۔ یہی شاید بلاول بھٹو کا مقصود تھا۔ اجرک والے ماسک سے یہی پیام دینے کی خواہش تھی۔ لیکن احساس کمتری میں مبتلا چند لوگوں نے ہمیشہ کی طرح اس صورتحال میں بھی لطیفہ تلاش کر لیا۔
گزشتہ دنوں سابق وزیر قانون ظفر اللہ خان گھر پر تشریف لائے۔ دھوتی کرتے میں ملبوس یہ عاقل شخص بہت علم والی باتیں کر رہا تھا۔ انکی گفتگو انکے ذہن رسا کا پتہ دیتی تھی۔ رومی سے لے کر اقبال تک سب زیر بحث آئے۔ نطشے سے لے کر مارکس تک تمام موضوعات پر بات ہوئی۔ اس گفتگو میں علم بھی تھا اور حلم بھی۔ سوچ بھی تھی اور فکر بھی۔
ہم انہیں بہت پہلے سے جانتے ہیں لیکن یقین مانیے اگر آج کے دور میں ہمیں کوئی شخص اسلام آباد میں دھوتی کرتے میں ملبوس نظر آئے تو ہم پر فورا احساس کمتری غالب آجائے گا ہم ایسے شخص کو مجہول کہیں گے، جاہل گردانیں گے یا گنوار کہیں گے۔ اس لئے کہ ہمیں اپنی تہذیب پر فخر نہ کرنے کی عادت میں مبتلا کیا گیا ہے۔ ہم مسلسل احساس کمتری میں رہنے والے لوگ ہیں۔ اپنے آپ کو کمتر محسوس کرنے میں آسودگی تلاش کرتے ہیں۔
بلاول بھٹو کا اجرک والا ماسک صرف ایک حفاظتی ماسک نہیں ہے۔ یہ اس بات کا عندیہ ہے کہ ہمیں اپنی تہذیب پر فخر کرنا چاہئے، اپنے رسم و رواج کی عزت کرنی چاہئے، اپنی سوچ پر فخر کرنا چاہئے۔
سیاست میں ذہانت درکار ہوتی ہے۔ ننھی ننھی کاوشوں سے ایک امیج بنتا ہے۔ اس امیج کو بنانے میں برس ہا برس لگ جاتے ہیں۔ میں بہت وثوق سے کہتا ہوں کہ بلاول بھٹو کی اس ننھی سی کاوش نے سندھیوں کا دل جیت لیا ہے۔ انہیں احساس تفاخر دیا ہے۔ یہ علاقائی سوچ نہیں ہے یہ عالمی حقیقت ہے کہ جو لوگ اپنی دھرتی کے اسلوب سے عشق نہیں کرتے انہیں دساور کی مٹی بھی قبول نہیں کرتی۔ جو لوگ اپنی دھرتی کا مذاق اڑاتے ہیں ان کی سوچ سطحی اور پرواز محدود ہوتی ہے۔
میں خلوص نیت سے بلاول بھٹو کو اس کاوش کی مبارکباد دیتا ہوں۔ اس طرح کی کاوشوں کی اس سماج کو ازحد ضرورت ہے۔ ہمیں خود شناسی کے مرحلے سے گزرنے کی ضرورت ہے۔ ہمیں اپنے آپ پر فخر کی ضرورت ہے۔ ہر بات پرپھبتی کسنے والوں کو جانے سندھی میں کیا کہتے ہیں مگر پنجاب میں یہ کوئی ایسی نیک نام خصوصیت نہیں ہے۔ اس طرح کے لوگ ہر سماج میں ہوتے ہیں ۔ یہ لوگ عارضی ہوتے ہیں۔ بس ایک قہقہے کے مستحق ہوتے ہیں۔ ان سے زیادہ انکی حیثیت نہیں ہوتی۔
بس یہ کہہ کر بات ختم کرتا ہوں کہ تبدیلی باہر سے مشیر اور وزیر امپورٹ کر کے نہیں آ سکتی۔ اصل تبدیلی اپنی پہچان سے آتی ہے۔ اپنے آپ پر فخر کرنے سے آتی ہے۔ اجرک والا ماسک ہماری ثقافت کی پہچان ہے۔ ہمارااپنا رنگ ہے۔ ہماری اپنی سوچ ہے۔
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر