نومبر 15, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

اُن کو ہر حال میں صابر و شاکر پایا۔۔۔عامر حسینی

اپنی مادرِ نسبتی اور پدرِ نسبتی کا اس اعتبار سے بہت مرہون منت ہوں کہ انھوں نے ہر مشکل گام پر میرا ساتھ دیا اور مجھے آزادی سے سانس لینے دی

میں نے اُن کو ہر حال میں صابر و شاکر پایا-

اپنی چھ بیٹیوں اور تین بیٹوں کو انہوں نے پال پوس کر بڑا کیا-

سب کو محدود وسائل کے باوجود اچھی تعلیم سے آراستہ کیا-

سب سے بڑی میری اھلیہ ہیں، ڈویلپمنٹ اکنامکس میں تخصص کی حامل –

باقی میں تین کے پاس بھی ماسٹرز ڈگری(میتھ، انگریزی اور سوشیالوجی ، دو کے پاس گریجویشن کی اسناد ہیں( بی ایس سی، بی اے) – دو بیٹیاں ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ میں 16ویں اور پندرھویں گریڈ میں ملازم ہیں، سب سے چھوٹا بیٹا بی ایس کمپیوٹر سائنس کرنے کے بعد محکمہ ہیلتھ میں 16 ویں گریڈ میں ملازم ہے- اور ساتھ ساتھ وہ ایم ایس کی تیاری بھی کررہا ہے-

دو بیٹے اپنا ذاتی کاروبار کرتے ہیں-

میری یادوں کے دریچے میں اُن کی قدرے دھندلی سی پہلی تصویر اُس وقت کی بن پاتی ہے جب میں مشکل سے چھے سال کا تھا اور وہ ہمارے گھر آئی تھیں- اُن سے میرے کئی رشتے بنتے تھے-میرے ددھیال اور ننھیال دونوں طرف سے اُن سے رشتے بنتے تھے- اُن کی والدہ کی اولین یادیں میرے زہن پر نقش تھیں، حیدرآباد میں، میں اُن کے گھر آیا جایا کرتا تھا- اُن سے میرے بیک وقت کئی رشتے بنتے تھے- اور آخر میں وہ میری خوشدامن بنیں اور ہمیشہ میں نے اُن کو ممتا کے بھرپور جذبات و احساسات سے مملو پایا- میری تھوڑی سی تکلیف اور بیماری، دکھ میں وہ تیمارداری میں آگے آگے دکھائی دیتیں اور یہ صرف مجھ سے اُن کا معاملہ نہیں تھا بلکہ وہ ہر کسی کا خیال رکھا کرتی تھیں- میں نے اُن کو کبھی حالات کا شکوہ کرتے نہیں پایا بلکہ وہ ناسازگار حالات میں بھی آگے بڑھنے کا راستا تلاش کرنے پر زور دیا کرتی تھیں-

میری اھلیہ اُن کی سب سے بڑی بیٹی اور پہلی اولاد ہیں، باقی سب بہنوں اور بھائیوں کی پرورش اور اُن کی پڑھائی لکھائی میں میری اھلیہ کا بھی بڑا ہاتھ ہے اور وہ اپنی والدہ کی بیٹی سے کہیں زیادہ دوست تھیں-

میں نے اپنے اکثر رشتے داروں، اڑوس پڑوس میں رہنے والو‌ں، برادری اور وسیب میں لوگوں کو یہ کہتے پایا کہ "حسینی نے لکھنے پڑھنے کے بعد مواقع ضایع کردیے اور جتنی پی آر اس کی ہے اگر استعمال کی ہوتی تو آج کہیں کا کہیں ہوتا” یہ "کہیں کا کہیں ہونے” کا جو تصور ہے اس سے مراد نہ تو نظریاتی وابستگی میں مخلص ہونا مراد ہے، نہ ہی اخلاق میں اچھا ہونا ہے اور نہ ہی بہتر انسان ہونا ہے بلکہ اس سے مراد تو بس کسی نہ کسی طرح مالدار ہونا، شہرت یافتہ کوئی اینکر ہونا یا کوئی سرکاری وردی یا بے وردی بابو ہوکر رشوت کے پیسوں سے جائے داد کے ڈھیر لگادینا ہے- لیکن میں نے اپنی خوشدامن کو کبھی بھی ایسے کسی خیال کی حوصلہ افزائی کرتے نہیں دیکھا اور نہ ہی میری اھلیہ نے مجھے کوئی ایسی مَت دینے کی کوشش کی-

ہم سب ایک ایسے سماج میں رہتے ہیں جس میں لگے بندھے ایسے ضابطے جو اسٹیٹس کُو کو برقرار رکھتے ہیں سے قولی و عملی طور پر انحراف کو بہت بُرا خیال کیا جاتا ہے بلکہ عملی انحراف کے مرتکب کو زبردست تنہائی کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور اس تجربے سے ہم سب کسی نہ کسی سطح پر گزرتے ہیں، عام طور پر ایسا کم ہوتا ہے کہ آپ کی "انحراف مائل زندگی” کو as such آپ کے نہایت قریبی رشتوں کی طرف سے سَندِ قبولیت مل جائے- وگرنہ اکثر و بیشتر یا تو آپ کو مصنوعی طور پر اپنی انحراف پسند روش بارے تقیہ کرنا پڑتا ہے یا قریبی رشتوں سے محروم ہونا پڑتا ہے- لیکن میں اس باب میں تھوڑا خوش قسمت واقع ہوا، میری لگے بندھے ضابطوں سے الگ تھلگ طرز زندگی اور میرے اینٹی سٹیٹس کُو خیالات کو لیکر نہ تو میری خوش دامن نے کبھی کوئی بات کی اور نہ میری اھلیہ نے، مجھے اپنے والد اور والدہ کی طرف سے بھی "ڈھیل” سے کہیں زیادہ "آڑ اور ڈھال” میسر آئی اور زمانے کی "ناموافق ہواؤں” کے سمے انہوں نے مجھے دستبرداری پر مجبور نہیں کیا-

میں اپنی مادرِ نسبتی اور پدرِ نسبتی کا اس اعتبار سے بہت مرہون منت ہوں کہ انھوں نے ہر مشکل گام پر میرا ساتھ دیا اور مجھے کم سے کم آزادی سے سانس لینے دی-

وہ جب تک مجبور نہ ہوجاتیں اپنی طبعی تکلیف کا زکر نہیں کیا کرتی تھیں- کم فشارِ خون کا مرض اُن کو لاحق تھا اور اکثر وہ اپنی اس تکلیف کو بھی چھپالیتی تھیں- وہ اپنے حوالے سے دوسروں کے سکون اور آرام کو غارت کرنا کبھی نہیں چاہتی تھیں- جس دن اُن کی موت کا سانحہ ہم سب کو برداشت کرنا پڑا، اُس شاید صبح سے اُن کو کم فشار خون کا سامنا تھا لیکن انھوں نے سارا دن کسی کو نہیں بتایا، مغرب کے وقت بھی صرف اتنا کہا کہ شاید انقباض کے سبب اُن کو جسم میں درد ہے اور عشاء کی نماز کے بعد انھوں نے بیٹے شعبان کو کہا کہ جسم میں درد ہے تو پین کلر لے آؤ، وہ پین کِلر لیکر آیا، انہوں نے کھالی اور اُس کے قریب قریب آدھے گھنٹے بعد اچانک سے اُن کی سانس میں روکاوٹ ہوئی اور تین سے چار منٹ میں سانس کی یہ ڈوری ہمیشہ کے لیے ٹوٹ گئی- ون ون ٹو ٹو ریسکیو سروس بلائی گئی اور ہسپتال میں باقاعدہ اُن کے راہی عدم ہونے کی تصدیق ہوگئی یہ ساڑھے دس بجے رات کا وقت تھا- شدید ترین ہارٹ اٹیک تھا جس نے اُن کو کہیں جانے کا موقعہ ہی نہیں دیا اور شاید صبح سے وہ سینے کی تکلیف میں مبتلا تھیں لیکن انہوں نے کسی کو نہیں بتایا، یہاں تک کہ موت سے پونے گھنٹے پہلے وہ اپنے بھائی سے فون پر بات کرتی رہیں تھیں-وہ چھے بھائیوں کی اکلوتی بہن تھیں، دھان پان سی تھیں- میرے تین بیٹوں میں اُن کی جان اٹکی رہتی تھی اور اُن کے حوالے سے بے حد حساس تھیں اور کسی کو اُن کو ڈانٹنے تک نہیں دیا کرتی تھیں-

گزشتہ جمعرات وہ ہمارے گھر آئیں اور نماز عشاء کے بعد یہاں سے گئی تھیں-

اُن کو حضرت خدیجۃ الکبریٰ کی ذات گرامی سے نہایت پائے کی عقیدت تھی، ویسے تو وہ سوائے قرآن پاک کے اور کوئی کتاب نہیں پڑھتی تھیں لیکن جناب سیدہ خدیجۃ الکبریٰ کے تذکرے سے اُن کی دلچسپی کبھی ختم نہیں ہوا کرتی تھی- محرم الحرام، ربیع الاول سمیت اہم ایام ہائے وفات و ولادت پر خصوصی نذر و نیاز کا حسب استطاعت اہتمام کیا کرتی تھیں- وہ ایسی ہستی تھیں جن کی زبان نے کبھی کسی کو ایذا نہیں پہنچائی، اُن کی ناگہانی موت پر اُن کے ہر جاننے والے کی آنکھ اَشک بار تھی-

خدا رحمت کند این عاشقان پاک طینت را

About The Author