آئیے دیکھتے ہیں مسلمان رہنماؤں نے انگریز حکومت کے بارے میں کیا کہا
22 جنوری 1901ء کو ملکہ وکٹوریہ کا انتقال ہوا اس دن مسلمان عید الفطر منا رہے تھے لیکن علامہ ڈاکٹر محمد اقبال نے ملکہ وکٹوریہ کے سوگ میں ایک مرثیہ لکھا جو کہ لاہور کے ایک ماتمی جلسہ میں بھی پڑھا گیا یہ مرثیہ مطبع خادم التعلیم میں بھی شائع کیا گیا تھا اس مرثیہ کے چند اشعار یہ ہیں
آئی ادھر نشاط ادھر غم بھی آگیا
کل عید تھی تو آج محرم بھی آگیا
صورت وہی ہے نام میں رکھا ہوا ہے کیا
دیتے ہیں نام ماہِ محرم کا ہم تجھے
کہتے ہیں آج عید ہوئی ہے ہوا کرے
اس عید سے تو موت ہی آئے خدا کرے
تو جس کی تخت گاہ تھی اے تخت گاہ دل
رخصت ہوئی جہاں سے وہ تاجدار آج
اے ہند تیرے سر سے اُٹھا سایہ خدا
اک غمگسار تیرے مکینوں کی تھی گئی
ہلتا تھا جس سے عرش یہ رونا اسی کا ہے
زینت تھی جس سے تجھ کو جنازہ اسی کا ہے
(باقیات اقبال صفحہ 92-74 طبع دوم 1966ء)
مولانا نذیر احمد دہلوی مجموعہ لیکچرز میں لکھتے ہیں
”سارے ہندوستان کی عافیت اسی میں ہے کہ کوئی اجنبی حاکم اس پر مسلط رہے جو نہ ہندو ہو نہ مسلمان ہو کوئی سلاطین یورپ میں سے ہو خدا کی بے انتہاء مہربانی اس کی مقتضی ہوئی کہ انگریز بادشاہ آئے۔“
(مجموعہ لیکچرز مولانا نذیراحمد دہلوی صفحہ4-5مطبوعہ 1890ء )
مولانا نذیر احمد دہلوی اسی کتاب صفحہ 19 پر لکھتے ہیں:
”کیا گورنمنٹ جابر اور سخت گیر ہے توبہ توبہ ماں باپ سے بڑھ کر شفیق۔“
(مجموعہ لیکچرز مولانا نذیر احمد دہلوی صفحہ19 مطبوعہ 1890ء)
مو لوی محمد حسین بٹالوی رسالہ اشاتہ السنہ جلد 6 میں لکھتے ہیں:
”اس امن و آزادی عام و حسن انتظام برٹش گورنمنٹ کی نظر سے اہل حدیث ہند اس سلطنت کو از بس غنیمت سمجھتے ہیں اور اس سلطنت کی رعایا ہونے کو اسلامی سلطنتوں کی رعایا ہونے سے بہتر جانتے ہیں۔“
(رسالہ اشاة السنة جلد6 نمبر10 صفحہ292-293 )
مولانا ظفر علی خان اخبار زمیندار میں فرماتے ہیں:
”مسلمان ایک لمحہ کے لیے بھی ایسی حکومت سے بدظن ہونے کا خیال نہیں کر سکتے اگر کوئی بد بخت مسلمان، گورنمنٹ سے سرکشی کرے تو ہم ڈنکے کی چوٹ سے کہتے ہیں کہ وہ مسلمان، مسلمان نہیں۔“
(اخبار زمیندار لاہور، 11 نومبر 1911ء)
سر سید احمد خان مقالات سرسید حصہ نہم میں لکھتے ہیں
"ہماری گورنمنٹ کی عملداری دفعةً ہندوستان میں نہیں آئی تھی بلکہ رفتہ رفتہ ہوئی تھی، جس کی ابتداء 1757ء کے وقت سراج الدولہ کے پلاسی شکست کھانے سے شمار ہوتی ہے اس زمانہ سے چند روز پیشتر تک تمام رعایا اور رئیسوں کے دل ہماری گورنمنٹ کی طرف کھنچتے تھے ہماری گورنمنٹ, اس کےحکامِ متعہد کے اخلاق اور اوصاف اور رحم اور استحکامِ عہود اور رعایا پروری اور امن و آسائش سن سن کر جو عملداریاں ہندو اورمسلمانوں کی ہماری گورنمنٹ کے ہمسائے میں تھیں وہ خواہش رکھتی تھیں اس بات کی کہ ہماری گورنمنٹ کے سایہ میں ہوں
(مقالاتِ سرسیدحصہ نہم صفحہ54)
سید اسماعیل شہید انگریز حکومت کے خلاف جہاد سے منع کرتے تھے آپ برٹش حکومت کی مذہبی آزادی کے قدر دان تھے آپ نے حیات طیبہ مرتبہ مرزا حیرت دہلوی میں فرمایا:
”ان (انگریزوں) پر جہاد کرنا کسی طرح واجب نہیں ایک تو ان کی رعیت ہیں دوسرے ہمارے مذہبی ارکان کے ادا کرنے میں وہ ذرا بھی دست اندازی نہیں کرتے ہمیں ان کی حکومت میں ہر طرح کی آزادی ہے بلکہ ان پر کوئی حملہ آور ہو تو مسلمانوں پر فرض ہے کہ وہ اس سے لڑیں اور اپنی گورنمنٹ پر آنچ نہ آنے دیں۔“
(حیات طیبہ مرتبہ مرزا حیرت دہلوی صفحہ 296 بحوالہ خون کے آنسو صفحہ32)
ہندوستان کے مسلمانوں نے اپنے سیاسی مفادات کی حفاظت کے لئے جو جماعت مسلم لیگ کے نام سے قائم کی تھی اس کے اغراض و مقاصد میں سب سے پہلا مقصد یہ طے کیا گیا تھا:
To promise among Indian Muslims feelings of loyalty towards the British Government and to remove any misconception that may arise as to the intentions of the Government with regard to any of its measures.
جس کا اردو میں ترجمہکچھ یوں بنتا ہے:
"ہندوستان کےمسلمانوں میں برٹش گورنمنٹ کی بابت وفاداری کےاحساس کو بڑھانا اور گورنمنٹ کے کسی قدم کے بارے میں اگر کوئی غلط فہمی پیدا ہو تو اسے دور کرنا”
یہ سب پڑھنے کے بعد ایسا نہیں لگتا کہ انگریزوں نے اپنے مقاصد کے لئے انڈیا تقسیم کرنا تھا اور انہوں نے اپنی مرضی سے تقسیم کیا جس کے نتیجے میں ہمیں آزادی مل گئی؟
اے وی پڑھو
تانگھ۔۔۔||فہیم قیصرانی
،،مجنون،،۔۔۔||فہیم قیصرانی
تخیلاتی فقیر ،،۔۔۔||فہیم قیصرانی