وزیرِ اعظم عمران خان کی ہدایت پر جب اُن کے مشیروں اور معاونین خصوصی کی شہریت اور اثاثہ جات کی تفصیلات منظر عام پر لائی گئیں تو میڈیا اور سوشل میڈیا پر بحث و مباحثہ کا طویل سلسلہ چھڑ پڑا۔ جہاں جذباتی ریمارکس دیے جاتے رہے،وہاں بہت سنجیدہ نوعیت کے سوالات بھی اُٹھائے گئے،اس کے ساتھ ساتھ وزیرِ اعظم عمران خان کی پرانی تقریروں کے ٹکڑے بھی گردش کرنے لگے ،جس میں وہ دُہری شہریت رکھنے والوں پر تنقید کرتے پائے گئے۔
اس ضمن میں جو زیادہ سنجیدہ سوال سامنے آیا وہ یہ کہ بیرون ملک اپنی جائیدادیں رکھنے والوں کی اس ملک کے ساتھ جڑت کس حد تک ہو گی؟ بالخصوص ،اُن لوگوں کی جو غیر منتخب ارکان ہیں۔جماعت اسلامی کے اَمیر سراج الحق کا کہنا تھا کہ جس دِن حکومت ختم ہوئی یہ مشیر بیرون ملک نکل جائیں گے۔اسی طرح کے خدشات کا اظہار کئی دیگر سیاسی و غیر سیاسی افراد کرتے ہوئے پائے گئے ہیں۔ یہ خدشات دُرست ہیں کہ یہاں تو منتخب افراد بھی حکومت ختم ہوتے ہی بیرون ملک کا سفر باندھ لیتے ہیں۔دوسری طرف اثاثے ظاہر کرنے کے عمل کو پی ٹی آئی کے بعض رہنمائوںنے خوش آئند بھی قراردیا۔
اُن کے نزدیک ،اُن کی حکومت نے ایسا کرکے نئی روایت کی بنیاد ڈالی ہے۔اسد عمر،شیری مزاری اور عمران اسماعیل اس عمل کو سراہنے والوں میں پیش پیش ہیں۔یہ شخصیات ،اثاثوں پر تنقید کرنے والوں سے سوال کرتے ہیں کہ ’’اپنی قیادت سے پوچھیں کہ اُن کے پاس جو اثاثے ہیں،اُن کی مالیت کیا ہے؟‘‘اسد عمر تو اس عمل کو احتساب اور شفافیت کے نئے معیارسے تعبیر کررہے ہیں۔یہ پہلو ایک لحاظ سے قابلِ ستائش ہے کہ دُہری شہریت کے ایشو پر پی ٹی آئی کے بعض رہنما تنقید بھی کرتے پائے جارہے ہیں ۔
وزیرِ مملکت برائے پارلیمانی اُمور علی محمد خان اس بات کو تسلیم کرتے ہیں کہ دُہری شہریت والے کابینہ کا حصہ نہیں ہونے چاہئیں۔ یہاں ایک پہلو بہت ہی اہمیت رکھتا ہے اور اس پہلو کا بیان وزیرِ اعظم عمران خان اپنی تقریروں میں بارہا کر بھی چکے ہیں۔
وزیرِ اعظم عمران خان کی پرانی تقریروں کے مطابق ’’جو افراد بیرون ملک جائیدادیں رکھتے ہیں اور وہ یہاں سیاست کرنا چاہتے ہیں تو اپنی جائیدادیں فروخت کرکے پاکستان آئیں اور سیاست کریں‘‘ اگر یہ معیار مقرر کر دیا جائے تو پھر یہ نتیجہ اُبھر کر سامنے آئے گا کہ کون اس ملک سے سچی محبت کرتا ہے اور اس کی تقدیر بدلنے کا خواب دیکھتا ہے اور کون محض اقتدار اور طاقت کے نشے کا اسیر ہے؟مگر یہاں تو معاملہ سوا ہے۔یہاں تو کئی دہائیوں سے سیاست کرنے والے بعض سیاست دان اپنی جائیدادیں باہر رکھتے ہیں اور اقتدار کے دِنوں میں ملک میں رہتے ہیں اور جب اقتدار کا پرندہ اُڈاری مارجاتا ہے تو یہ بھی چلتے بنتے ہیں۔شریف خاندان اپنی قیمتی جائیدادیں باہر رکھتا ہے۔
میاں نواز شریف اور شہباز شریف کی اولادباہر کاروبار کرتی ہے۔بھٹو اور زرداری فیملی کی جائیدادیں بھی باہر ہیں ۔معاملہ محض سیاست دانوں تک مخصوص نہیں، سیاست دان و غیر سیاست دان طاقت و اقتدار کے دیگر تمام استعارے ،اس ملک کے ساتھ ساتھ بیرونی دُنیا میں جائیدادوں کے مالک ہیں ۔یہی لوگ اصل میں اس ملک کے مالک و مختار بنے ہوئے ہیں۔
اندازہ کریں کہ ایک نیم دیہاتی قسم کے بندے ندیم افضل چن بھی کینیڈا کے شہری نکلے ہیں۔ندیم افضل چَن جو اپنی یہاں Constituency رکھتے ہیں ،کی اس زمین سے جڑت کا نتیجہ سب کے سامنے ہے۔دُہری شہریت کے حوالے سے پاکستان کی سپریم کور ٹ دوہزار اَٹھارہ میں یہ فیصلہ دے چکی ہے کہ دُہری شہریت رکھنے والوں کو سرکاری عہدے دینے پر پابندی لگائی جائے۔ سپریم کورٹ نے پارلیمان سے کہا تھا کہ وہ اس ضمن میں فوری بنیادوں پر قانون سازی کرے مگر وزیرِاعظم کے معاونین خصوصی جو دُہری شہریت کے حامل نکلے ہیں ،کا تقرر،سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد کیا گیا ۔
اِن سات افراد میں ندیم افضل چَن Constituencyکے حامل ہیں ،یہ الیکشن لڑتے ہیں ،سیاسی عمل کا حصہ بنتے ہیں ،ان پر اخلاقی طورپر بھی فرض بنتا تھا کہ یہ سپریم کورٹ کے فیصلے کے سامنے سرتسلیم خم کرتے۔لیکن افسوس ناک پہلو یہ ہے کہ پاکستانی سیاست اخلاقیات کے معیارات طے کرنے سے ہمیشہ قاصر رہی ہے ۔اس کی بنیادی وجہ مفادات کی طرزِ سیاست ہے کہ یہاں سیاست ہمیشہ مفادات کو ملحوظ رکھ کر کی گئی ،جس کا سب سے بڑا نقصان یہ ہوا کہ جہاں سیاست دان صحیح معنوں میں زمین کے ساتھ نہ جڑ سکے وہاں جمہوری سیاسی کلچر پنپنے سے قاصر رہا۔آج بھی ایک سیاسی اُمیدوار جو Constituency رکھتا ہے، کے مقابلے میں غیر سیاسی اُمیدوار جیت جاتا ہے۔
غیر سیاسی اُمیدوار کو سیاسی وجمہوری اُمیدوار پر سبقت دلوانے کے لیے محض تھوڑے پراپیگنڈے کی ضرورت پیش آتی ہے اور عوام اپنا فیصلہ بدلنے میں دیر نہیں لگاتے۔ایک بات کا خیال رہے کہ یہاںسیاسی وغیرسیاسی ا فراد کی ملک و قوم سے جڑت کو مشکوک قراردنہیں دیا جارہا ،ایک روّیے کو زیرِ بحث لایا جارہا ہے۔محنت کرنا اور دوسروں کے حق کو محفوظ رکھ کر اثاثے بنانا قطعی جرم نہیں ،بلکہ باصلاحیت ہونے کا ثبوت ہے ۔وزیرِ اعظم کے معاونین خصوصی میں جو لوگ دُہری شہریت اور بھاری اثاثوں کے حامل ہیںاور اپنی اپنی Constituencyنہیں رکھتے اور سیاسی دھارے میں شامل نہیں ،اُن پر تنقید کرنے والوں میں زیادہ تر وہ لوگ ہیں ،جو سیاسی نظام کا حصہ چلے آرہے ہیں ،ایسے لوگوں سے ایک سوال ہے کہ آخر کیا وجہ ہے کہ عوام کے ایک منتخب وزیرِ اعظم کو اپنے معاونین خصوصی ایسے لوگ رکھنے پڑجاتے ہیں جو سیاسی دھارے میں شامل نہیں ہوتے؟سوال پر غور کرنے سے اس کا جواب مل جائے گا۔مگر جواب مل جانے کے بعد کا سفر کون شروع کرے گا؟
حالانکہ بعد کا سفر بہت ہی خوشگوار اور دلپذیر بھی ہوسکتا ہے۔ معاملہ بہت ہی سادہ ہے کہ عوام کی اکثریت اُس وقت تک غربت کی لکیر پر رینگ رینگ کر زندگی جیتے رہیں گے اور دُہری شہریت کے حامل افراد بڑے سرکاری عہدے سمیت بھاری اثاثوں کے حامل رہیں گے ،جب تک سیاسی اشرافیہ اپنے روّیے کو خالص جمہوری نہیں بناتی اورConstituency کو اپنا اصل اثاثہ نہیں سمجھتی۔
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر