مئی 11, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

رحیم یار خان میں مسلم لیگ ن کی تنظیمِ نو اور سیاسی چیلنج ۔۔۔ جام ایم ڈی گانگا

بلاشبہ ضلع رحیم یار خان پیپلز پارٹی میں تنظیمی تبدیلیاں مسلم لیگ ن میں تبدیلیاں لانے کے جواز میں شامل ہوں گی.

پاکستان مسلم لیگ ن کی ضلع رحیم یار خان میں تنظیم نو سے مقامی میڈیا اور سوشل میڈیا پر خاصی ہلچل دیکھی جا رہی ہے. ورکر ٹائپ اور اپر مڈل کلاسیے میاں خالد شاہین کی جگہ ضلع کے ایک جاگیردار اور سابق ضلع ناظم و سابق ہیٹرک ایم پی اے سردار محمد اظہر خان لغاری کو مسلم لیگ ن کا ضلعی صدر بنا دیا گیا ہے. میاں خالد شاہین کی استقامت اور کارکردگی کے مقابلے میں سردار اظہر خان لغاری کی استقامت اور کارکردگی کا فیصلہ تو آنے والا وقت کرے گا. مسلم ن کی قیادت نے ورکر کا ورقہ پھاڑ کر اچھا کیا ہے یا نہیں. ویسے یہ ایک حقیقت ہے کہ وطن عزیز میں جماعت اسلامی کے علاوہ کسی جماعت میں تنظیم کے نظریاتی ورکر کو وہ اہمیت اور عزت و مقام نہیں دیا جاتا جس کا وہ حقدار اور مستحق ہوتا ہے. میرے دیس میں سیاسی ورکروں کی بھی کئی قسمیں ہیں. نظریاتی ورکر، فصلی ورکر، جماعتی ورکر، شخصیاتی ورکر وغیرہ. مزید قسموں اور ان کی خصوصیات بارے پھر کسی وقت تفصیل کے ساتھ بات ہوگی. جماعتی ورکروں کے مقابلے میں فصلی ورکر لش پش اور خوشامد کرکے فائدے میں رہتے ہیں. اقتدار کے دنوں میں بہت کم نظریاتی ورکروں کی عزت اور کام ہوتے دیکھے ہیں.ہاں البتہ منافق صفت ضرور فائدہ اٹھانے میں کامیاب ہو جاتے ہیں. سچے مخلص اور سادہ سادگی کی سزا پاتے ہیں.سیاست دانوں کی غالب اکثریت جماعتی ورکروں کی بجائے اپنے شخصی اور ذاتی ورکروں کو اہمیت دیتے ہیں. یہاں بھی خوشامد کے خاصے اضافی نمبر ملتے ہیں. خوشامد کو اکثر سیاست دانوں کی غذا کا حصہ کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا. 

محترم قارئین کرام،، آج ہمارا موضوع ضلع رحیم میں مسلم لیگ ن کی تنظیمی تبدیلیاں اور اس کے سیاسی اثرات ہیں. اگر غیر جانبدارانہ طور پر دیکھا جائے تو وطن عزیز میں نظریات کی سیاست کو کب کی نظر لگ چکی ہے. اب یہاں منڈی کی سیاست اور ہُنڈی کی سیاست چلتی ہے. انویسٹرز کام دیکھاتے ہیں. ضرورت کے وقت ورکروں کا دیہاڑی دار مزدوروں سے باآسانی اور بہتر لے لیا جاتا ہے.خدمت کی بجائے سیاست کیونکہ مکمل کاروبار اور بزنس بن چکی ہے اس لیے نفع و نقصان ماہانہ حساب کتاب رکھا اور دیکھا جاتا ہے. لیگی میاں خالد شاہین ہو یا تحریک انصاف کے رانا راحیل احمد خان ہوں یا پیپلز پارٹی کےچاچا سردار محمد عظیم سولنگی، نذیر احمد کاڑ ایڈووکیٹ. ان کے ساتھ کیا کب اور کیسی کیسی بیتی یہ ایک لمبا اور علیحدہ ٹاپک ہے. بہرحال جماعتوں اور قائدین کی سوچ و عمل میں آنے والی تبدیلی سے ورکر اور لوگ بھی تبدیل ہوتے جا رہے ہیں.جس طرح مختلف کمپنیاں اپنی اپنی پراڈکٹ بیچنے کے لیے مختلف قسم کی اشتہاری مہم اور انعامی سیکمیں لانچ کرتی ہیں. اسی طرح سیاستدانوں بھی لوگوں کواپنی طرف مائل کرنے اور قائل کرنے کے لیے کئی نئے ہرانے حربے اور طریقہ ہائے کار استعمال کرتے ہیں.گذشتہ الیکشن میں ضلع رحیم یار خان میں سرائیکی صوبہ کارڈ بڑا کامیاب رہا. یہ علیحدہ بات ہے کہ لوگ اب ان سیاسی حضرات کی زیارت سے بھی محروم ہیں. سیاسی کرتب بازی وقت کے ساتھ ساتھ بڑھتی جا رہی ہے.سیاست دان ٹھگ ہیں تو لوگ بھی انتہا کے لالچی ہیں. البتہ منافقت دونوں میں ماضی کی نسبت خاصی زیادہ ہے. 

ہم مسلم لیگ ن کی حالیہ تنظیمی تبدیلیوں کے حوالے سے اہنی بات کو کچھ آگے بڑھاتے ہیں. بلاشبہ سردار محمد اظہر خان لغاری جرات مند، عوامی اور ملنسار سیاست دان ہیں. ضلع کونسل کے چیئرمین رہ چکے ہیں اس لیے وہ گراس روٹ لیول کی ضلعی سیاست کو اچھی طرح سمجھتے ہیں. نئے سینئر نائب صدر چودھری محمود الحسن چیمہ سابق پارلیمانی سیکرٹری برائے آبپاشی و ایم پی اے رہ چکے ہیں. یہ سرمایہ دار کاروباری طبقے سے تعلق رکھتے ہیں. اپنے حلقے کی حد تک نیٹ ورک کے حامل ہیں. مسلم لیگ ن کے نئے جنرل سیکرٹری میاں امتیاز احمد آپ سابق ایم پی اے، سابق وفاقی پارلیمانی سیکرٹری و ایم این اے رہ چکے ہیں. بلاشبہ عوامی سیاست دان ہیں. ان کے دائیں بائیں موجود بڑے بھائی معروف بزنس مین حاجی محمد ابراہیم اور چھوٹے بھائی سابق تحصیل ناظم میاں اعجاز عامر ان کی طاقت اور عوامی رابطے میں وسعت کا باعث ہیں. یہ بھی ضلع کا سرمایہ دار سیاسی گھرانہ ہے. اگر ہم مذکورہ بالا تین تقرریوں کو بغور دیکھیں اور فیصلے کو پرکھیں تو یہ بات بڑی واضح ہو کر سامنے آتی ہے کہ مسلم لیگ ن نے ایک بار پھر بھرپور تیاری کے ساتھ بلدیاتی اور قومی الیکشن میں اترنے کی ابھی سے تیاری شروع کر دی ہے. بالائی سطح پر ہونے والے سیاسی فیصلے، سمجھوتے اور معاہدوں وغیرہ کی کہانی ایک علیحدہ چیز ہے. یقینا اس کے اثرات نیچے تک منتقل ہوتے ہیں. لیکن مقامی سطح پر عوامی نیٹ ورک رکھنے اور سرمائے والی شخصیت کا ہونا بھی کامیابی کے لیے ضروری سمجھا جاتا ہے.رحیم یار خان کی رائل برادری میرا مطلب ہے کہ آرائیں صاحبان میں ماضی کی سی مثالی یکجہتی اب موجود نہیں ہے.ہم دیکھ رہے ہیں کہ آنے والے الیکشن میں گروپوں کے اندر سے کچھ مزید نئے گروپ وجود میں آئیں گے.چودھری آصف مجید اور چودھری مولوی محمد شفیق کے ایم پی اے بننے کے بعد تین چار لوگ بہت جلد ایم پی اے بننا چاہتے ہیں.خالی باتوں سے تو مشکل ہے اس کے لیے ایڈوانس انوسٹمنٹ کرنی پڑتی ہے.ابتداء میں نقصان برداشت کرنا پڑتا ہے. جرات کا مظاہرہ اور سامنا کرنا پڑتا ہے.ہمت نہ ہارے والے بلاخر ایم پی اے اور ایم این اے بن ہی جاتے ہیں. اس کے بعد کیا ہوتا ہے مجھے کچھ کہنے کی ضرورت نہیں ہے وطن عزیز کی سیاست میں ریٹرن بارے ہر کوئی جانتا ہے. 

بلاشبہ ضلع رحیم یار خان پیپلز پارٹی میں تنظیمی تبدیلیاں مسلم لیگ ن میں تبدیلیاں لانے کے جواز میں شامل ہوں گی. میاں خالد شاہین پکا اور سچا ورکر ضرور ہے مگر مقابلے کے لیے جوڑ بھی دیکھے جاتے ہیں.میرا یہ مشاہدہ ہے کہ جاگیردار اور سرمایہ دار تنظیمی سوچ کے حامل بہت ہی کم ہوتے ہیں. خاص طور پر خطہ سرائیکستان میں یہ ایک کھلی حقیقت ہے. یہی وجہ ہے کہ اکثر جاگیردار وڈیرے سیاستدانوں کی تنظیمی کارکردگی مایوس کن ہوتی ہے. یہاں تو بڑے بڑے ناموں والے سیاست دان اپنی پارٹیاں بنا کر بھی انہیں کامیاب نہیں کر سکے. یہاں میں کسی کی مثال نہیں دینا چاہتا.سیاست سے ٹھرک رکھنے والے اور سیاسی تاریخ سے شغف رکھنے والے سب ناموں اور چہروں کو اچھی طرح جانتے ہیں.یہ ایک کڑوا سچ ہے کہ اکثر جاگیردار سیاست دان لفظ تنظیم سے خوف کھاتے ہیں اور اسے اپنے خلاف سمجھتے ہیں.اسی لیے تو وہ تنظیم میں حقیقی فعال کردار ادا نہیں کرتے. تنظیم میں ڈمی ٹائپ لوگوں اور اپنے منشی موشدیوں کو بھرتی کرکے کام چلاتے ہیں. 

مسلم لیگ ن کی نئی تنظیم موجودہ سرد اور سخت سیاسی حالات میں اپنے اپنے کو فعال کرکے عوام میں کیسے اور کہاں تک کھوئی ہوئی پذیرائی حاصل کرنے میں کامیاب ہوتی ہے.یہ سردار محمد اظہر خان لغاری اور میاں امتیاز احمد کے لیے ایک بڑا چیلینج ہے. سرائیکی بولنے والے لوگوں کی اکثریت مسلم لیگ ن کو سرائیکیوں اور سرائیکی وسیب کی دشمن پارٹی سمجھتی ہے. خطہ سرائیکستان کے عوام مسلم لیگ ن کو سرائیکی صوبے کا مخالف اور صوبے کی راہ میں بڑی رکاوٹ قرار دیتی ہے. کسی بھی جماعت کے لیے ماضی کی طرح لوگوں کو قائل کرنا اب اتنا آسان بھی نہیں رہا. اپنی شناخت اور اپنے علیحدہ سرائیکی صوبے کے بارے میں لوگ بڑے حساس ہو چکے ہیں.

%d bloggers like this: