اللہ تعالیٰ کی تخلیقات میں سے زبان کو بہترین تخلیق کا درجہ حاصل ہے ، انسان کو جس بناء پر اشرف المخلوق کہا گیا اس میں ایک زبان بھی ہے ۔ سائنس کی دنیا میں زبان کا نام انسان اور انسان کا نام زبان ہے ۔ زبان ایک طرز حیات ، ایک اسلوب زیست اور ایک ایسا لافانی نظریہ ہے جو انسان کو جینے کا سلیقہ سکھاتا ہے ۔ زبان تعصب نہیں محبت کا نام ہے ، لیکن اس فلسفے کو نہیں سمجھا گیا ۔
قیام پاکستان کے وقت سے ہی زبان کے مسئلے کو متنازعہ بنایا گیا ، حالانکہ ہندوستان اور پاکستان نے ایک ہی وقت میں آزادی حاصل کی ، ہندوستان میں اس مسئلے کا حل فطری اصولوں کے مطابق یہ نکالا کہ صرف ہندی کی بجائے ہندوستان مین بولی جانیوالی بڑی زبانوں کو قومی زبانوں کا درجہ دیا اور بچوں کو ان کی ماں بولی میں تعلیم کا حق بھی دے دیا ۔
البتہ اعلیٰ تعلیم کیلئے انگریزی کو برقرار رکھا گیا ۔ پاکستان میں ہندی زبان کے بطن سے پیدا ہونے والی اردو کو قومی زبان کا درجہ دیا گیا تو مشرقی پاکستان کے بنگالیوں نے اعتراض کیا اور وہی تنازعہ پاکستان کے دو لخت کرنے کا باعث بن گیا اور 21 فروری جو کہ اقوام متحدہ کی طرف سے ماں بولی کا عالمی دن قرار دیا گیا کی ملامت پاکستان کے حصے میں آئی ۔ تعلیم کے معاملے میں ہم آگے کیوں نہیں بڑھ سکے ؟ اس معاملے پر سنجیدگی سے غور کی ضرورت ہے ۔ ایک سوال ہے کہ پاکستانی زبانوں کو قومی زبانوں کا درجہ کیوں نہیں دیا جاتا ؟ جو حق سندھی زبان کو حاصل ہے ، کیا اس کا استحقاق پاکستان کی دیگر زبانیں نہیں رکھتیں؟ پاکستان میں مادری زبانوں کی حالت ناگفتہ بہ کیوں ہے؟
کیا پاکستان میں بولی جانیوالی زبانیں کمتر ہیں یا ان کے بولنے و الوں میں کوئی کمی ہے؟ پہلے سوال کا جواب تو یہ ہے کہ پاکستان میں بولی جانیوالی زبانیں کسی بھی لحاظ سے کمتر نہیں۔ یہ دھرتی کی زبانیں ہیں اور ان کی جڑیں دھرتی میں پیوست ہیں، ان کے توانا اور مضبوط ہونے کا ایک ثبوت یہ بھی ہے کہ حملہ آور اور بدیسی حکمران صدیوں سے ان زبانوں کو مٹانے کے در پے ہیں، اس کے باوجود یہ زندہ ہیں تو ان کی مضبوطی اور توانائی ان کو زندہ رکھے ہوئے ہے، جہاں تک بولنے والوں کی بات ہے تو بولنے والے تو مجبور ہیں ، ریاست تعلیمی اداروں میں جو زبان رائج کرے گی وہ پڑھنے پر مجبور ہوں گے۔
حکمرانوں کو یہ تو یاد ہے کہ اردو پڑھائی جائے کہ یہ قومی زبان ہے، انگریزی پڑھائی جائے کہ اردو اعلیٰ تعلیم اور دفتری امور کے تقاضے پورے نہیں کر سکتی ، عربی پڑھائی جائے کہ یہ مسلمانوں کی مذہبی زبان ہے، فارسی کو بھی ختم نہ ہونے دیا جائے کہ اس نے برصغیر پر ہزار سال حکومت کی۔
اگر حکمرانوں کو یاد نہیں تو یہ کہ ماں دھرتی کی بولیاں اور زبانیں جو اس دھرتی کی اصل وارث ہیں۔یہ کہاں کا انصاف ہے جو دیس کی زبانیں ہیں ان کو آپ کچل کر رکھ دیں۔ اس سے بڑھ کر لسانی دہشت گردی کیا ہوگی؟ اس سے بڑھ کر لسانی تعصب کیا ہوگا؟ حقیقت یہ ہے کہ پاکستان کی مادری زبانیں پاکستانی زبانیں ہیں، ان زبانوں کو علاقائی زبانیں کہنا انکی توہین ہے۔ انگریزوں نے اپنی ماں بولی کو تو ترقی دی اور پوری دنیا میں انگریزی کا راج ہے لیکن جن علاقوں پر قبضہ کیا تو وہاں کی مقامی زبان اور ثقافت کا گلا گھونٹ دیا ۔ یہی وجہ ہے کہ ماں بولیاں ترقی نہ کر سکیں ۔
یہ بات اب ڈھکی چھپی نہیں رہی کہ انگریز نے جب ہندوستان پر قبضہ مکمل کیا تو اس نیم مقامی زبانوں کی بجائے بدیسی زبانوں کو پروان چڑھایا کہ اس کو دھرتی کی اصل زبانوں کی طاقت کا علم تھا، انگریز نے یہ بھی کیا کہ مختلف قوموں کو مختلف صوبوں میں ایک دوسرے کے ساتھ گڈ مڈ کر دیا تاکہ وہ متحدہ طاقت کی شکل میں سامنے نہ آ سکیں، اس نے صوبائی حد بندیاں اپنی استعماری ضرورتوں کے تحت مقرر کیں، اردو کو پروان چڑھانے کا ایک مقصد مغلوں کی فارسی کو رخصت کرنا دوسرا دھرتی کی اصل زبانوں کو نیست و نابود کرنا تھا، انگریزوں کو پتہ تھا کہ اردو مصنوعی زبان ہے، اس کا اپنا کوئی خطہ یا اپنا کوئی جغرافیہ نہیں، اس زبان سے کوئی ایسی قوم وجود میں نہ آ سکے گی جس سے اسے خطرہ ہو، انگریزوںنے ہی اپنے مذموم مقاصد کے تحت اردو ہندی تنازع پیدا کرایا اور ایک غلط نظریہ پلانٹ کیا کہ اردو مسلمانوں کی زبان ہے ، حالانکہ پوری دنیا میں زبان کا مذہب نہیں ہوتا۔
عرب میں حضور پاکؐ بھی عربی بولتے تھے اور ابوجہل بھی عربی بولتا تھا ۔ اسی طرح پنجابی زبان کو غیر مسلم سکھ بھی بولتے ہیںاور مسلمان بھی ۔ انگریز کے اپنے مقاصد تھے ، اب انگریز چلا گیا ہے ، پاکستان کے حکمرانوں کو اپنی پالیسیاں اپنی ترجیحات کے مطابق بنانی چاہئیں ۔ اردو زبان کو اس کے حصے سے کہیں زیادہ مقام مرتبہ ملا ہوا ہے ، یہ بھی برقرار رہنا چاہئے مگر پاکستانی زبانوں کو بھی ان کا حق ملنا ضروری ہے ۔ ایک حقیقت یہ بھی ہے کہ اردو علمی زبان نہیں ہے ، اسی بناء پر بابائے اردو کے قائم مقام سر سید احمد خان نے مسلمانوں کو انگریزی تعلیم حاصل کرنے کا مشورہ دیا ۔
یہ ٹھیک ہے کہ جن زبانوںکے بولنے والوں کی تعداد قلیل ہو ، ریاستی امور میں بھی وہ زبان شامل نہ ہو، تعلیمی اداروںمیں بھی نہ پڑھائی جاتی ہو، وہ مٹ جاتی ہے اور ختم ہو جاتی ہے، لیکن دنیا میں ایسے ادارے بھی متحرک ہو چکے ہیں جن کی کوشش اور مقصد یہ ہے کہ کوئی ایسی زبان جن کے بولنے والے چند ہزار یا چندسو ہی کیوںنہ ہوں کو زندہ رکھنے کے لئے اقدامات کئے جائیں۔
لیکن ہمارے ہاں یہ ہے کہ باوجود اس کے کہ پاکستانی زبانوں کو بولنے والے کروڑوں کی تعداد میں ہیں اس کے باوجود پاکستان کے حکمران ان زبانوں کو ختم کرنے کے در پے ہیں، کسی بھی زبان اور ثقافت کے ختم ہونے کا مقصد خطے کی تاریخ و تہذب کا اختتام اور موت سمجھا جاتاہے لیکن ہمارے حکمرانوں کو اس کی پرواہ نہیں۔
حالانکہ اقوام متحدہ کے چارٹر میں یہ واضح لکھا ہے کہ ماں بولیوں کا نہ صرف یہ کہ تحفظ کیا جائے بلکہ ان کو پھلنے پھولنے کے مواقع مہیا کئے جائیں، پاکستان نے اقوام متحدہ کے چارٹر پر دستخط کر رکھے ہیں مگر عمل اس کے برعکس ہو رہا ہے۔حرف آخرکے طور پر بارِ دیگر گزارش کروں گا کہ پاکستان کے ارباب اختیار کو مصنوعی پالیسیاں ترک کر کے فطری اور حقیقی پالیسیوں کو اختیار کرنا ہو گا اور پاکستان کو تہذیب و ثقافت کا گلدستہ اس صورت میں بنانا ہوگا کہ اس گلدستے میں پاکستان کی تمام زبانیں اور تمام ثقافتیں پھولوں کی شکل میں اپنی رنگوں اور اپنی خوشبوؤں کے ساتھ موجود ہوں ۔
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر