مئی 12, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

پانچ پچھتاوے، ڈاکٹر پاشا،قیوم خوگانی اور اداس ملتان۔۔۔رانا محبوب اختر

ان کو پرسا ہو اور ڈاکٹر پاشا کے خاندان ، دوستوں، شاگردوں اور سول سیکرٹریٹ کے تضادات سے اداس ملتان پہ رحمتوں کا نزول ہو

پچھتاوے مار دیتے ہیں۔ذات کی تشکیل سماج کرتا ہے، ذات کی دنیا کے باہر سماج کی کائنات ہے.انفس و آفاق کے غموں کا علاج محبت کے علاوہ کچھ نہیں کہ محبت حقیقی انقلاب ہے، ماہیتِ قلب کرتی ہے۔ تمام مذاہب، فلسفے اور شاعری محبت میں گندھے ہیں۔کورونا کی وحشت میں ہمارے عشق ادھورے ہیں۔ایک پچھتاوا یہ ہے کہ دوستوں سے ملاقاتوں کو ہم ملتوی کرتے ہیں ،ملنے سے ڈرتے ہیں اور یہ درست رویہ ہے مگر دل کا کیا کریں!!ہمارے دوست مرتے جا رہے ہیں ، ہم تنہا ہو رہے ہیں اور کورونا کے محاصرے میں زندگی تنہائی کے عذاب میں ہے!!

سوشل میڈیا پر ایک دوست نے آسٹریلوی نرس،”برونی وئیر "(Bronnie Ware)کی کتاب”Five Top Regrets of Dying” شیئر کی ہے۔تلخیص کی تلخیص دیکھتے ہیں اور زندگی جینے کا سوچتے ہیں:

1- "I wish Id had the courage to live a lifetrue to myself, not the life others expected of me.”

2- "I wish I hadntworked so hard.”
3- "I wish Id had the courage to express my feelings.”
4- "I wish I had stayed in touch with my friends.”
5- "I wish that I had let myself be happier”

برونی، قریب المرگ لوگوں کی دیکھ بھال کرتی تھی۔اس نے نوٹ کیا کہ مرنے والوں کے پچھتاوے ایک سے تھے!مرنے والوں نے کہا کہ ان میں اتنی ہمت نہیں تھی کہ زندگی کو اپنی مرضی سے جی سکتے!پوری زندگی اپنے ارد گرد کے لوگوں کو خوش کرنے میں گزار دی اور اپنی ذات پر توجہ نہ دے سکے۔ برونی کے مطابق مرنے والوں کا پہلا پچھتاوا یہی تھا۔دوسرا پچھتاوا یہ تھا کہ گھر کے اخراجات پورے کرنے کی محنت میں وہ مارے گئے۔ وہ جن بچوں کی پرورش کرتے تھے ان کا بچپن پوری طرح نہ دیکھ سکے!وہ کہتے تھے کہ انھیں زندگی میں اتنے کام کی ضرورت نہ تھی کہ وہ تنہا رہ جاتے!تیسرا پچھتاوا یہ تھا کہ ان میں اتنی ہمت نہ تھی کہ اپنے اصل خیالات اورجذبات سے دوسروں کو آگاہ کر سکیں۔ بیشتر لوگ صرف اس لیے اپنے جذبات کا اظہار نہ کر پائے تھے کہ دوسروں کو ناراض نہیں کرنا چاہتے تھے۔ وہ اپنی حسرتیں دل میں لئے مر رہے تھے اور اس وجہ سے تلخی کا شکار ہوئے اور کڑھتے رہے۔ انھیں اپنے نقصان کاعلم تب ہوا جب وہ بستر سے لگے موت کا انتظار کرتے تھے!یہی مخمصے مار دیتے ہیں۔شاعر نے کہا:
چپ رہوں گر تو رات جاتی ہے
اور بولوں تو بات جاتی ہے
چوتھا پچھتاوا بڑا دلگیر تھا۔اکثر لوگ افسوس کرتے تھے کہ وہ اپنے پرانے دوستوں سے رابطے میں نہ رہ پائے۔ نوکری، کام، روزگار اور کاروبار ان سے دوست چھینتے رہے۔اچھے دوست بے نیاز محبت کی پرورش کرتے ہیں۔ زندگی مرنے والوں کو قریب ترین دوستوں سے جدا کرکے مارتی ہے ۔برونی کے مطابق سب لوگوں کی خواہش تھی کہ آخری وقت میں ان کے دوست ان کے ساتھ ہوں۔ مگرکسی کے ساتھ آخری وقت دوست موجود نہ تھے۔وہ برونی کو اپنے پرانے دوستوں کے نام بتاتے اور خوشگوار لمحوں کو دہراتے تھے جو وقت کی گرد میں گم ہوچکے تھے۔وہ اپنے دوستوں کے سنائے لطیفے ، عادات اور ان کی شرارتیں یاد کرتے تھے۔مہربان برونی ان کو دلاسہ دیتی کہ فکر نہ کریں، ان کے دوست آتے ہوں گے۔مگر کسی کے پاس بھی مرنے والوں کے لیے وقت نہ تھا!پانچویں پچھتاوا یہ تھا کہ تمام مرنے والے کہتے تھے کہ انھوں نے اپنے من کو خوش رکھنے کے لیے کچھ نہیں کیا۔ وہ دوسروں کو خوش رکھنے کی جدو جہد میں مرگئے اور ان کی زندگی سے خوشی کا دھنک رنگ پرندہ اڑ گیا تھا۔وہ قہقہوں کو مصلوب کرتے رہے۔ خوب صورت جذبوں کو مارنے کے بعد ان کے پاس پچھتاوے کے علاوہ کچھ نہ تھا! عمر کے ساتھ اپنے اوپر سنجیدگی کا خول چڑھائے وہ ہنسنا بھول گئے تھے۔ اپنے قہقہوں کی بھر پور آواز سنے انھیں زمانہ بیت گیا تھا۔وہ حماقتیں کرنا بھول گئے تھے۔ اور مغائرت یا (alienation)کی زندگی گزار کر موت کی وادی میں اتر رہے تھے۔
"امید ہے آپ کی زندگی میں یہ پانچ پچھتاوے نہیں ہوں گے۔

اپنے بچوں اور خاندان کو وقت دیتے ہوں گے۔پرانے دوستوں کے ساتھ خوش گپیاں کرتے ہوں گے اور دوسروں کو تکلیف پہنچائے بغیر اپنی خوشیاں سمیٹ رہے ہوں گے۔”کہ آپ کے دکھوں کا حل کسی سفاک مسیحا کے پاس نہیں، آپ کے ہاتھ میں ہے۔ اپنے آپ سے محبت کرنا سیکھیں اور اپنے دوستوں، خاندان ، سماج اور ریاست کو سمجھیں اور انھیں گود میں بٹھا کر اساطیری کہانیاں سنائیں۔کہانیاں جو ہماری جبلت سے جڑی ہوئی ہیں، ہمیں آشکار کرتی ہیں۔سرمایہ دارانہ نظام اور منڈی کی اخلاقیات نے ہم سے محبت چھین لی ہے۔ماضی آلودہ ہے اور مستقبل مخدوش ہے۔محبت کی مثبت سالمیت کے ساتھ جئیں ۔ خاندانی، سماجی اور ریاستی negative solidarityکو بدلنے کی کوشش کریں۔سامراجی ماضی نفرت اور تعصب سے بھرا ہے اور محبت کی بجائے نفرت اور جنگ، اور تعاون کی جگہ منفی مسابقت پر انحصار کرتا ہے۔ اسے بھلا دیں اور عوامی ماضی سے کچھ منتخب موتی چن لیں!کہ forgiving and forgetting ایک فن ہے جسے شاعر استعمال کرتے ہیں کہ صرف منتخب ماضی کو بازیافت کی ضرورت ہوتی ہے۔ماضی کا احیاء نا ممکن ہے اسے بس ماضی کی مثبت بازیافت سے بدلا جا سکتا ہے۔ حال سے محبت کریں کہ یہی ماضی اور یہی مستقبل ہے۔اپنے آپ کو اور اپنے پیاروں کو وقت دیں اور خدا کی دی ہوئی زندگی سے لطف اٹھائیں کہ کورونا بھری دنیا پرانے پیراڈائم پر غور کی دعوت دے رہی ہے!

امریکہ کا گائیک Bob Dylan شاعر بھی ہے۔2016 میں ادب کا نوبل انعام جیتنے پر نوبل کمیٹی نے اس کے بارے میں کہا تھا کہ اس نے ایک نیا پیرایہء اظہار تخلیق کیا ہے۔ہم سب کو زندگی گزارنے کے نئے پیرائے درکار ہیں۔ باب کی ایک نظم کا ٹکڑا دیکھئے:

تیز بارش سے پہلے مجھے جانا ہے
میں سیاہ جنگل کے دل تک جاوں گا
جہاں بہت تہی دست لوگ رہتے ہیں
تہی دست لوگوں کی خوشحالی کے بغیر اور اپنے من کو خوش کئے بغیر قبر کے اندھیرے میں اترنے کے پچھتاوے سے بچنا ہی زندگی کا ست ہے!!
نشتر ہسپتال کے وائس چانسلر ، ڈاکٹر مصطفے کمال پاشا زندگی کی زلفوں کو سنوارنے والے آدمی تھے۔ ان کی ناگہانی موت پر ملتان دکھی ہے!ہمارے یار ڈاکٹر خالد بخاری ایک قابل ڈاکٹر اور خوب صورت انسان ہیں۔ ان کا دست_ شفا،میرے تین بچوں کے لئے دستِ نمو تھا۔ڈاکٹر ہونے کے علاوہ وہ ایک جوہری ہیں جو دوستوں کی صورت ہیرے موتی جمع کرتے ہیں۔ان کا ایک ہیرا ، ڈاکٹر پاشا اندھیرے کے دل میں اتر گیا ہے۔

ان کو پرسا ہو اور ڈاکٹر پاشا کے خاندان ، دوستوں، شاگردوں اور سول سیکرٹریٹ کے تضادات سے اداس ملتان پہ رحمتوں کا نزول ہو۔ شاہ بلوط جیسے ڈاکٹر اسد اریب پہ بجلی گری ہے کہ ان کی شریکِ حیات ماہ طلعت زیدی جیسی ادیب اور شاعر شریکِ حیات ان سے جدا ہو گئیں۔ نوجوان اور متحمل مزاج سیاستدان ،ملک عامر ڈوگر کے بزرگ چچا اپنے خالقِ حقیقی سے جا ملے ہیں۔وہ سارے شہر کے چچا تھے۔کالم تمام ہوا، موت کی گرم بازاری مگرنا تمام تھی !خوب رو، جواں سال اور مرنجاں مرنج عبدالقیوم خاں خوگانی کی رحلت کی خبر نے اداس تر کر دیا ہے۔ایمرسن کالج میں وہ میرے شاگرد تھے۔ڈاکٹر فرید ظفر، خالد اشرف اور محمود اشرف کالج میں ان کے ہم زمانہ تھے، روشن چہرے جو حافظے میں زندہ ہیں۔پھر ان سے کم کم ملاقات رہی۔

عرصہ بعد ملتان پوسٹنگ ہوئی تو وہ شاگرد سے دوست ہو گئے تھے۔قیوم خان سے آخری ملاقات ان کے ملتان سے لاہور تبادلے کے بعد شنگریلا کے بانی اور یارِمہرباں ، ملک ابراہیم کے دفتر میں ہوئی تھی۔پروفیسر نعیم اشرف اور ڈاکٹر ممتاز کلیانی ساتھ تھے۔ایک یادگار محفل جس میں بڑی دیر قہقہوں کی برسات رہی تھی۔تبادلہ ملازمت کا حصہ ہوتا ہے مگر قیوم خان اپنے ٹرانسفر پر دل گرفتہ تھے۔انھیں کیا معلوم تھا کہ کچھ دنوں میں ان کا تبادلہ اک ایسے جہان میں ہونے والا ہے جہاں پوسٹنگ مستقل ہے!جہاں ایک جواں مرگ کی حسرتیں مرحوم اور پچھتاوے خاک ہونے کا غم ہے وہاں ہمارا پچھتاوا یہ ہے کہ عیادت کے لئے ان کو فون کیا تو وہ ventilatorپر تھے۔قیوم خان سے بات کرنے کا باب بند ہونے سے پہلے بات نہیں ہو سکی تھی!
ہاں اے فلکِ پیر جواں تھا ابھی ”قیوم ”
کیا تیرا بگڑتا جو نہ مرتا کوئی دن اور

%d bloggers like this: