جولائی 5, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

صحافی مطیع اللہ جان بازیاب ، گھر پہنچ گئے

سماجی رابطوں کی ویب سائٹ ٹویٹر پر ٹویٹ کرتے ہوئے صحافی اعزاز سید نے بتایا ہے کہ سینئر صحافی مطیع اللہ جان مسنگ ہیں ،

سینئر صحافی مطیع اللہ جان بازیاب ہوگئے ہیں ۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ نامعلوم افراد نے مطیع اللہ جان کو اغوا کرنے کے بعد آنکھوں پر پٹیاں باندھی اور انہیں فتح جنگ کے قریب  کچے کے علاقے میں چھوڑ دیا۔

آج دوپہر مطیع اللہ جان کی اہلیہ نے تصدیق کی تھی کہ ان کے شوہر کو نامعلوم افراد نے اٹھا لیا ہے، اور وہ مسنگ ہیں۔

سماجی رابطوں کی ویب سائٹ ٹویٹر پر ٹویٹ کرتے ہوئے صحافی اعزاز سید نے بتایا ہے کہ سینئر صحافی مطیع اللہ جان مسنگ ہیں ، نامعلوم افراد نے انہیں اٹھا لیا ہے، اور ان کی اہلیہ نے اس خبر کی تصدیق کی ہے۔

مطیع اللہ جان کے بھائی شاہد عباسی نے صحافیوں بتایا کہ انہیں 10بج کر انتالیس منٹ پر کال آئی اور انکی بھابھی یعنی مطیع اللہ جان کی  اہلیہ کا فون آیا اور انہوں نے کہا کہ مطیع کی گاڑی اسکول کے باہر کھڑی ہے اور شیشے کھلے ہیں۔

صحافی مطیع اللہ جان کے مبینہ اغوا سے متعلق ایک سی سی ٹی وی فوٹیج بھی سامنے آئی ہے.

 سکول میں نصب سی سی ٹی وی کیمروں کی فوٹیج میں دیکھا جا سکتا ہے کہ تین گاڑیوں میں سوار نصف درجن سے زیادہ افراد مطیع اللہ کو زبردستی ایک گاڑی میں بٹھا رہے ہیں اور اس دوران مطیع اللہ جان اپنا فون بھی سکول کے اندر اچھال دیتے ہیں جسے ایک باوردی مسلح شخص سکول کے اندر موجود افراد سے حاصل کر لیتا ہے۔

خیال رہے کہ صحافی مطیع اللہ کی طرف سے جسٹس قاضی فائز عیسی کیس کے سپریم کورٹ کے فیصلے پر تبصرہ کرنے پر سپریم کورٹ نے از خود نوٹس بھی لے رکھا ہے جس کی سماعت کل مقرر ہے ۔ 

مطیع اللہ جان نے قائد اعظم یونیورسٹی سے ڈیفنس اینڈ سٹریٹیجک سٹڈیز میں ماسٹرز کیا تھا اور وہ گذشتہ تین دہائیوں سے صحافت کر رہے ہیں۔

وہ پاکستان کے مختلف ٹی وی چینلز سے منسلک رہ چکے ہیں تاہم آج کل وہ یو ٹیوب پر اپنا چینل چلا رہے تھے۔

ان کے والد فوج میں لیفٹیننٹ کرنل کے عہدے پر فائز تھے اور خود انھوں نے بھی فوج میں کمیشن حاصل کیا تھا تاہم کچھ عرصے بعد انھوں نے یہ ملازمت چھوڑ دی تھی۔

ماضی میں بھی مطیع اللہ جان کو ہراساں کرنے کے واقعات پیش آتے رہے ہیں۔

ستمبر2017 میں بھی مطیع اللہ جان کی گاڑی پر حملہ کیا گیا تھا۔ یہ واقعہ اسلام آباد میں بارہ کہو کے مقام پر پیش آیا تھا جب موٹر سائیکل پر سوار افراد نے مطیع اللہ کی گاڑی کی ونڈ سکرین پر اینٹ دے ماری تھی جس سے ونڈ سکرین پر دراڑیں پڑی تھیں۔

حملے کے وقت گاڑی میں مطیع اللہ جان کے بچے بھی ان کے ساتھ گاڑی میں موجود تھے۔

اس کے علاوہ جون 2018 میں اس وقت کے فوجی ترجمان میجر جنرل آصف غفور نے جب سوشل میڈیا کے بعض اکاؤنٹس پر ریاست مخالف پراپیگنڈے پر مبنی ٹویٹس کا الزام لگایا تھا اور ایسے اکاؤنٹس کا ایک چارٹ دکھایا تھا تو اس میں بھی مطیع اللہ جان کا اکاؤنٹ نمایاں کر کے دکھایا گیا تھا۔

%d bloggers like this: