رواں ہفتہ کے دوران تحریک طالبان کے سابق ترجمان احسان اللہ احسان کی جانب سے پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کو ان کی والدہ جیسے انجام سے دو چار کرنے والی دھمکی نے طالبان حمایتی اور طالبان مخالف جماعتوں کے درمیان موجود سوچ اور نظریات کے فرق کو مزید نمایاں کر دیا ہے۔ جہاں پیپلزپارٹی کی جانب سے اس دھمکی پر شدید ردعمل سامنے آیا ہے وہاں حکومتی جانب سے اس پر مکمل خاموشی نے عمران خان اور ان کی جماعت کے طالبان کے بارے میں ہمیشہ سے موجود سافٹ کارنر کو مزید بے نقاب کیا ہے۔
احسان اللہ احسان کی دھمکی پر حکومت کی جانب سے اختیار کی جانے والی مجرمانہ خاموشی پر عوام بخوبی اندازہ کر سکتے کہ کون دہشت گردی کے خلاف جنگ میں اپنی عظیم قائد محترمہ بے نظیر بھٹو اور سینکڑوں کارکنوں کی شہادت کے باوجود آج بھی دہشت گردی کے خلاف اپنے مضبوط موقف پر اسی طرح قائم ہیں اور اسی واسطے آج بھی دہشت گردوں کی نظر میں کھٹک رہے ہیں۔ دوسری طرف کون مصلحت، ڈر یا اپنے دہشت پسندانہ نظریات کی وجہ سے دہشت گردوں کے خلاف موقف دینے یا مذمت کرنے سے بھی کتراتے ہیں۔
احسان اللہ احسان کی جانب سے دی جانے والی دھمکی کا وقت بھی بہت اہم ہے۔ یہ دھمکی بظاہر بلاول بھٹو زرداری کی جانب سے کی جانے والی پریس کانفرنس کا جواب معلوم ہوتی ہے جس میں بلاول بھٹو زرداری نے عمرانی حکومت کی کرپشن اور ناکامیوں پر کڑی تنقید کی تھی۔
یاد رہے کہ یہ وہی دہشت گرد ہے جو پاکستان کی حکومتی تحویل سے کچھ ماہ پہلے پراسرار طور پر فرار ہو کر ترکی پہنچ گیا تھا، ہزاروں افراد کے قاتل دہشت گرد کا ہائی سکیورٹی زون جہاں سے کسی چڑیا کا نکل جانا بھی ناممکن ہے پراسرار حالات میں فرار ہو جانا حکومت کی کارکردگی، نیت اور سوچ پر بہت بڑا سوالیہ نشان ہے۔ بہت سے سوالات ہیں جن کا جواب دیا جانا بہت ضروری ہے تاکہ معلوم کیا جا سکے کہ اصل سکیورٹی رسک کون ہے؟
کیا سکیورٹی کی اتنی بڑی ناکامی کے ذمہ داروں کا تعین کرنے کے لئے جے آئی ٹی یا آزادانہ کمیشن نہیں بننا چاہیے؟
بات بات پر ازخود نوٹس لینے والی اعلی ترین عدالتیں عالیہ اور عظمی اتنے بڑے دہشت گرد کے فرار پر خاموش کیوں ہیں؟
نام نہاد آزاد میڈیا جو سندھ حکومت کی ہر چھوٹی بڑی غلطی پر گھنٹوں پروگرام کرتا ہے اتنے بڑے واقعہ پر اپنا کردار کیوں ادا نہ کر سکا؟
کیا ہم واقعی بنانا سٹیٹ بن چکے ہیں جہاں کمزور کو تو چھوٹے سے الزام پر ہی انصاف کے نام پر دبوچ لیا جاتا ہے جبکہ طاقتور کے بڑے سے بڑے جرم پر حکومت سمیت تمام ادارے کبوتر کی طرح آنکھیں بند کر لیتے ہیں۔ دعوی البتہ مدینہ کی ریاست کا کیا جاتا ہے۔ کیا یہ کھلا تضاد نہیں؟ یہ سب وہ سوالات ہیں جو ہر محب وطن شہری کے ذہن میں اٹھتے ہیں لیکن کوئی ان کا جواب دینے کو تیار نہیں۔
چیئرمین پیپلزپارٹی بلاول بھٹو زرداری کو دی جانے والی دھمکی ایسے وقت میں سامنے آئی ہے جب بلاول بھٹو زرداری ایک موثر اپوزیشن رہنما کے طور پر حکومتی ناکامیوں، کرپشن اور نااہلی پر بھر پور آواز اٹھا رہے ہیں۔ حالیہ دنوں میں بلاول بھٹو زرداری کی جانب سے حکومتی کارکردگی پر وزیراعظم کو ٹیلیویژن پر یا اسمبلی میں آ کر مباحثہ کا چیلنج دیا گیا ہے جس کا ابھی تک وزیراعظم کی طرف سے کوئی جواب سامنے نہیں آیا۔ اٹھارویں ترمیم اور این ایف سی ایوارڈ پر پیپلزپارٹی کا دو ٹوک موقف بھی حکومت اور اسٹیبلشمنٹ کے لئے مسلسل درد سر بنا ہوا ہے۔ بلاول بھٹو زرداری کی جانب سے حکومتی کارکردگی اور نااہلی کے بارے میں اٹھائے جانے والے سوالات کا حکومت سیاسی طور پر جواب دینے میں ململ ناکام نظر آتی ہے۔ سیاسی میدان میں ناکامی کے بعد وفاقی وزرا اور حکومتی ترجمانوں کی جانب سے مسلسل اوچھے ہتھکنڈوں کا استعمال کیا جا رہا ہے۔ پہلے ایک امریکی خاتون سنتھیا رچی کے ذریعے پیپلزپارٹی کے رہنماؤں پر بے بنیاد الزام تراشی کی گئی جو بعد میں عدالت میں غلط ثابت ہوئی اور سنتھیا رچی جھوٹی ثابت ہوئی۔ اس کے بعد لیاری گینگ وار کے گھسے پٹے کردار عزیر بلوچ کی جے آئی ٹی رپورٹ کو لے کر پیپلزپارٹی کی قیادت کی کردار کشی کی گئی۔ یہ وار بھی جب کارگر نہ ہو سکا تو اب آخری حربے کے طور پر دہشت گرد کی دھمکی کا کارڈ کھیل دیا گیا ہے۔ جس کو تقویت اس بات سے بھی ملتی ہے کہ پانچ چھ دن گزر جانے کے باوجود حکومت کی جانب سے کوئی قدم اٹھایا جانا تو درکنار اس دھمکی کی مذمت میں کوئی ایک بیان بھی سامنے نہ آ سکا۔ اسامہ بن لادن جیسے عالمی دہشت گرد کو شہید قرار دینے والے وزیراعظم کی حکومت کی جانب سے اسی قسم کے رویے کی توقع ہی کی جا سکتی ہے۔ حسب توقع اعلی عدلیہ اور میڈیا کی جانب سے بھی پاکستان کی ایک بڑی پارٹی کے چیئرمین کو ایک دہشت گرد کی طرف سے دی جانے والی دھمکی پر خاموشی اختیار کرنا ہی مناسب سمجھا گیا ہے۔ اب اس خاموشی کو دہشت گردوں کے بارے نرم گوشہ سمجھا جائے، ڈر سمجھا جائے یا کسی کا حکم؟
چیئرمین پیپلزپارٹی بلاول بھٹو زرداری کو دی جانے والی دھمکی کے محرکات کچھ بھی ہوں ایک بات بالکل واضع ہے کہ ایسی دھمکیوں سے نہ تو پہلے پیپلزپارٹی کی قیادت کو ڈرایا جا سکا اور نہ اب پیپلزپارٹی کی قیادت کو کسی قسم کے دباو یا پریشر میں لا کر من پسند فیصلے کروائے جا سکتے ہیں۔ البتہ ہر قسم کے اچھے برے حالات میں پاکستان کھپے کا نعرہ لگانے والی پیپلزپارٹی اور اس کی قیادت کو دیوار سے لگانے سے ملک دشمن قوتوں کے حوصلے ضرور بلند ہوں گے اس کے ساتھ ساتھ عوام یہ پوچھنے میں بھی حق بجانب ہیں کہ ہزاروں انسانوں کے قاتل دہشت گرد کی جانب سے قومی قیادت کو دی جانے والی دھمکی پر ریاست اور ریاستی ادارے کیوں خاموش ہیں؟
پاکستان کھپے۔
نام نہاد آزاد میڈیا جو سندھ حکومت کی ہر چھوٹی بڑی غلطی پر گھنٹوں پروگرام کرتا ہے اتنے بڑے واقعہ پر اپنا کردار کیوں ادا نہ کر سکا؟
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر