محترم ناظرین وسامعین !ہماری آج کی گفتگو کا موضوع ہے :ناول اور اس کے اجزائے ترکیبی ۔
اس میں شک نہیں کہ ناول کی صنف مغرب میں پروان چڑھی اور مغرب ہی کے توسط سے ہمارے ادب کا حصہ بنی ۔ اگر اس کے آغاز وارتقا کی بات کی جائے تو مغرب کے نقاد وں نے اسے اپنے ہاں کی نیم افسانوی اور نیم اساطیری طویل کہانیوں کی ارتقائی صورت قرار دیا ہے ۔ خود ہمارے ہاں کے نقادوں نے بھی اسے قدیم حکایتوں اور کہانیوں سے ماخوذ قرار دیا ہے لیکن اصل میں اس کی ابتدا کا سراغ ہماری داستانوں میں تلاش کیا جاسکتا ہے ۔
دیکھا جائے تو میرا من دہلوی کی باغ وبہار ، یا قصہ چہار درویش میں پلاٹ، کردار نگاری اور مکالمات کے اجزا واضح طور پر نظر آتے ہیں ۔ البتہ رتن ناتھ سرشار کے ناول فسانہ آزاد کو داستان اور ناول کے درمیان کی چیز قرار دیا جاسکتا ہے ۔
ناول کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ مغرب کی جدید ترین تنقید اسے ادب کے تین بڑے اجزا میں شمار کرتی ہے : یعنی ڈرما، شاعری اور ناول ۔ اگر اس میں افسانہ بھی شامل کردیا جائے تو یہ ادب کے عناصر اربعہ ہوجائیں گے ۔ مغرب میں چونکہ ڈراما ایک زندہ اور متحرک صنف ہے اور ڈراما وہاں ہر حال میں لکھا جاتا ہے اور اسٹیج پر پیش کیا جاتا ہے اسلیے ڈرامے کو وہاں ادب کی بڑی اصناف میں شمار کیا جاتا ہے جبکہ ہمارے ہاں ڈراما وجود میں آتے ہی زوال کا شکار ہوگیا ۔
دوسرے یہ کہ ہمارا یک بابی ڈراما ون ایکٹ پلے ہر اعتبار سے مغربی ڈراموں کا چربہ تھا اسلیے ڈراما ہمارے ہاں سماجی ارتقا یا سماجی تغیرات سے مربوط نہ ہوسکا، یہ کمی بہرحال ناول نے پوری کی ۔ ناول نے ہمارے ہاں ہی نہیں ،دنیا بھر کی زبانوں کے ادب کو ثروت مند بنایا ۔ ناول کی کشش کا اصل سبب یہ ہے کہ اس میں زندگی کے تجربات اور مشاہدات کو براہ راست پیش کیا جاسکتا ہے ۔
یوں تو عام فنونِ لطیفہ کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ اپنا مواد زندگی سے حاصل کرتے ہیں لیکن ناول کی خوبی یہ ہے کہ اس میں زندگی کی وسعتوں کو با آسانی سمویا جاسکتا ہے ۔ اُردو میں ناول کا آغاز ڈپٹی نذیر احمد کے اصلاحی قصوں سے ہوتا ہے جن میں مراۃ العروس اور بنات النعش خاص طور پر مشہور ہیں ۔ اگرچہ یہ اصلاحی کہانیاں ناول کے فن کی تمام شرائط کو پورا نہیں کرتیں تاہم ان کو ناول کا نقشِ اول ضرور کہا جاسکتا ہے ۔ اُردو کے وہ ابتدائی ناول جن کو صحیح معنوں میں ناول کہا جا سکتا ہے دو ہیں :مرزا محمد ہادی رسوا کا ناول’امراءو جان ادا ‘اورمرزا محمد سعید دہلوی کا ناول ’خوابِ ہستی ‘ ۔
ان دونوں ناولوں میں زندگی کا مشاہدہ تیز بینی سے کیا گیا ہے ۔ ان کے ساتھ ہی مولانا عبدالحلیم شرر کے تاریخی ناول نے بھی مقبولیت حاصل کی اور علامہ راشد الخیری کے غم انگیز ناول بھی نمودار ہوئے جن میں طبقہَ نسواں یعنی عورتوں کے دکھ درد کو پیش کیا گیا تھا،اسیلیے وہ ’مصورِ غم ‘ بھی کہلائے ۔ ناول کی صنف کی ابتدائی تشکیل میں منشی پریم چند کا بھی بہت اہم کردار ہے ۔ ان کے ناول ’میدانِ عمل ‘اور ’گءودان ‘کو فنی طور پر مکمل ناول قرار دیا جاتا ہے ۔
ناول کے اجزائے ترکیبی میں سب سے پہلا جزو پلاٹ ہے ، جو اگرچہ کرداروں اور واقعات کی طرح نظر نہیں آتاتاہم ناول کے ہر جزو میں جاری وساری ہوتا ہے ۔ پلاٹ سے مراد ہے واقعات کی خاص ترتیب جسے ناول نگار قائم کرتا ہے ۔ داستانوں میں ہر بات زمانی ترتیب سے کہی جاتی ہے لیکن ناول میں کون سی بات کس وقت کی جائے گی ۔ کون سا راز کب کھولا جائے گا ۔
کس کردار کو کب متعارف کرایا جائے گا; یہ سب باتیں پلاٹ کا حصہ ہوتی ہیں ۔ پلاٹ کے بعد کردار اہم سمجھے جاتے ہیں جو دراصل کہانی کی روح رواں ہوتے ہیں ۔ کرداروں ہی کے حوالے سے واقعات اور مناظر کی دنیا آباد کی جاتی ہے ۔ کردار چونکہ اکثر گفتگو بھی کرتے ہیں اور ان کی گفتگو کہانی کو آگے بڑھانے کے کام بھی آتی ہے ۔
اس لئے مکالمات ناول کا ناگزیر جزو قرار پاتے ہیں ۔ واقعہ نگاری اور منظر نگاری بھی ناول کے اہم اجزا ہیں جن کے بغیر ناول ویران اور سونا رہتا ہے ۔ ان سب کے علاوہ ایک اور چیز بھی اہم ہے ۔ یعنی لکھنے والے کا اسلوب یا اسٹائل ۔ ایک اچھا ناول، لکھنے والی تخلیقی شخصیت کا پر تو بھی ہوتا ہے جس کا سب سے لطیف اظہار اس کے اسلوب میں ہوتا ہے لیکن کہانی کی فضا کو قائم کرنے کےلیے بہت سے ایسے اجزا کو بھی کام میں لایا جاتا ہے جو کہانی کی تکمیل کرتے ہوں یا پلاٹ کی ضرورتوں کو پورا کرتے ہوں ۔ مثلاً خطوط ، روزنامچے یعنی ڈائریاں ، اخباری تراشے ، اخباری رپورٹیں وغیرہ ۔
ناول نگار عام طور پر خود کو کہانی سے الگ رکھ کر کہانی بیان کرتا ہے ۔ داستان گو کی طرح ناول نگار کو بھی ایک ہمہ دان ذہن فرض کرلیا جاتا ہے جسے ہر بات کا علم ہوتا ہے حتیٰ کہ وہ کرداروں کی اندرونی دنیا کو بھی اچھی طرح جانتا ہے اور کرداروں کے جذبات وخیالات کو بیان کرسکتا ہے ۔ بعض اوقات کہانی واحد متکلم یعنی ’ میں ‘کے ذریعے بیان کی جاتی ہے ۔ اس صورت میں یہ ’ میں ‘ کرداروں کا حصہ ہوتا ہے ۔
جدید اُردو ناول کا آغاز سجادظہیر کے ناول ’لندن کی ایک رات ‘ اور عزیز احمد کے ناولوں سے ہوتا ہے جن میں ’گریز ‘، ’ایسی بلندی ایسی پستی‘ وغیرہ شامل ہیں ۔ ۰۵۹۱ء کی دہائی میں اردو کا اہم ترین ناول ’آگ کا دریا ‘لکھا گیا جسے اردو کے نثری ادب میں land markکا درجہ دیا گیا
۔ یہ ناول قرۃ العین حیدر نے پاکستان ہی میں لکھا لیکن اس کی اشاعت کے ساتھ ہی وہ پاکستان کی سکونت ترک کرکے ہندوستان چلی گئیں ۔ گزشتہ ساٹھ ستر سال میں بہت سے ناول لکھے گئے جن میں کچھ کو پذیرائی ملی ، کچھ کو فراموش کردیا گیا ۔ جمیلہ ہاشمی کا ناول ’تلاشِ بہاراں ‘، بانو قدسیہ کا ناول ’راجہ گدھ‘ ، کرشن چندر کا ناول ’شکست‘ اور عصمت چغتائی کا ناول ’ٹیڑھی لکیر‘کو خاص اہمیت حاصل ہوئی ۔
عصر ِ حاضر میں ارون دھتی رائے کے ناول دی گاڈ آف سمال تھنگز اورگیبرئیل گارشیا مارکیز کے ناول تنہائی کے سو سال کو بین الاقوامی پذیرائی ملی ۔ ماضی قریب میں لکھے گئے اُردو کے ناول میں مستنصر حسین تارڑ کا ناول ’بہاءو‘ ، انتظار حسین کا ناول’ بستی‘، شمس الرحمن فاروقی کا ناول ’کئی چاند تھے سرِ آسماں ‘اور مرزا اطہر بیگ کا ناول ’غلام باغ ‘ کو اہم سمجھا گیا ہے ۔
نوٹ :جناب اسلم انصاری کے صاحبزادے محمد قاسم انصاری آج کل یوٹیوب پر بجا طور پر انصاری صاحب کے لیکچر آویزاں کررہے ہیں ۔ ہم اُن کا تیسرا لیکچر ’پیلھوں ‘ کے قارئین سامعین کےلیے پیش کررہے ہیں ۔ (ادارہ)
الیاس میراں پوری اور پیلھوں کے شکریہ کے ساتھ
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر