نومبر 14, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

پینشن اور گریجویٹی کی رقم پر تنازعہ۔۔۔شرافت رانا

میڈیا کا مسئلہ یہی ہے کہ یہ پرسیپشن زیادہ پیدا کرتے ہیں ۔ پروپیگنڈا کرتے ہیں ، حقیقت سے کبھی آگاہ نہیں کرتے۔

پینشن ۔ گریجویٹی کی رقم کی بابت ہر سال ایک نیا تنازعہ جنم لیتا ہے ۔ میڈیا میں اسے کچھ یوں دکھایا جاتا ہے کہ گویا یہ کوئی حکومتی سطح پر دی جانے والی خیرات ہوتی ہے ۔ اور اس خیرات کی وجہ سے حکومت ڈوب رہی ہے ۔ عام لوگ جو سرکاری ملازمت میں نہیں ہوتے وہ سمجھتے ہیں کہ حکومت ان کے حقوق میں ڈاکہ زنی کر کے سرکاری ملازمین کے لیے ناجائز مراعات کا اہتمام کرتی ہے۔

میڈیا کا مسئلہ یہی ہے کہ یہ پرسیپشن زیادہ پیدا کرتے ہیں ۔ پروپیگنڈا کرتے ہیں ، حقیقت سے کبھی آگاہ نہیں کرتے۔

پہلی بات یہ سمجھنے کی ہے کہ پنشن یا گریجویٹی کی رقم کا ایک روپیہ بھی کم ازکم غیر فوجی یعنی سول سرکاری ملازمین کی حد تک حکومت اپنی جیب سے ادا نہیں کرتی ۔ یہ محض پروپیگنڈہ ہے کہ حکومت کسی بھی طرح کی اس طرح ادائیگیوں کا انتظام کرتی ہے۔ پینشن گریجویٹی کی تمام رقوم ایک فنڈ سے حاصل کی جاتی ہیں۔ اس فنڈ کا اہتمام سرکاری سطح پر کیا گیا ہے۔ تمام سرکاری ملازم اپنی مدت ملازمت جو 25 سے 30 سال یا اس سے زیادہ ہوسکتی ہے کہ دوران کمیٹی ڈالنے کی طرح ایک مخصوص رقم گریجویٹی اور پینشن وغیرہ کے فنڈ میں جمع کرواتے ہیں ۔

جو بعد ازاں ریٹائرمنٹ کے بعد وہ سرکاری ملازم کی پنشن کی مد میں حاصل کرتے ہیں۔ اب اس فنڈ کو سمجھ لیں ۔ کہ یہ فنڈ مختلف جگہ پر انویسٹمنٹ کرتا ہے ۔ اس کے منافع میں سے ایک حقیر شرح حصہ داروں میں بانٹ دیتا ہے۔ اب یہ فنڈ ایک مستقل چیز ہے ۔ یہ کہنا غلط ہوگا کہ اگر کوئی ملازم ریٹائرمنٹ کے بعد مزید 50 سال زندہ رہا تو حکومت کو کوئی نقصان ہوا۔ بلکہ جو لوگ ریٹائرمنٹ کے چند سال کے اندر فوت ہو جاتے ہیں اس معاملہ میں حکومت کو یہ فائدہ ہو جاتا ہے کہ ان کی مراعات ختم ہونے کی وجہ سے حکومت کو بے پناہ مفادات ملتے ہیں ۔ پوری دنیا میں پنشن گریجویٹی کے لیے قائم کردہ فنڈز نجی شعبہ کو دیے جا چکے ہیں یا دیے جا رہے ہیں۔

حکومت پاکستان کو بھی گزشتہ 25 سال سے آئی ایم ایف اور دوسرے بین الاقوامی مالیاتی ادارے اس نظام کو نجی شعبہ کو دینے کی حمایت کر رہے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ کسی بھی فنڈ میں میں نجی شعبہ کی انتظامیہ کی صورت میں حصہ داروں کے مفادات کا اہتمام آسان ہے اور اسے قانونی شکل دینا نسبتاً زیادہ ممکن ہے۔ حکومت پاکستان اس فنڈ کو نجی شعبہ کونہیں دینا چاہتی ہے۔

اس کی وجہ یہ ہے کہ حکومت بوقت ضرورت ایک خطیر رقم اس فنڈ میں سے اپنی ضروریات کے لیے بلا سود استعمال کرتی رہتی ہے۔

وہی رقم اگر حکومت کو کسی بینک سے قرض لینا پڑے تو اس پر مارک اپ زیادہ دینا پڑتا ہے۔ اس لیے حکومت کبھی بھی نہیں چاہتی کہ کہ یہ فنڈ نجی شعبہ کو دیا جائے ۔

موجودہ دور میں بھی یہ پروپیگنڈا اسی طرح کا ہے ۔ میں سمجھتا ہوں کہ حکومت شور مچائے گی مگر کسی بھی صورت میں اس فنڈ کو نجی شعبہ کو نہیں دے گی ۔میں اس بات کا مکمل طور پر حامی ہوں کہ پنشن اور گریجویٹی وغیرہ کے تمام فنڈز نجی شعبہ کی تحویل میں دیے جائیں تاکہ حصہ داران کو زیادہ سے زیادہ منافع مل سکے۔ اسی طرح طرح سوشل سیکورٹی کا فنڈ بھی نجی شعبہ کے اہتمام میں دیا جائے۔

اب یہ تاثر پھیلانا کہ حکومت ملازمین کو بغیر پینشن یا گریجویٹی دیئے بغیر فارغ کی کرسکتی ہے میرے خیال میں یہ ایک غلط پروپیگنڈا ہے۔ مروجہ قوانین کی روشنی میں دوسری صورت گولڈن شیک ہینڈ کی ہے ۔ اگر حکومت گولڈن شیک ہینڈ کی مد میں ایک معقول رقم دیتی ہے ۔ تو وصول کنندہ اگر باشعور انسان ہے ۔ تو وہ اسے کسی بڑی انشورنس کمپنی کی گریجویٹی پینشن فنڈ میں ڈال کر زیادہ منافع اور زیادہ زیادہ پینشن حاصل کرنے کا بندوبست کر سکتا ہے ۔ نئے ملازمین کے لیے بلاتوقف روز اول سے ہی انہیں اپنا انتظام سپرد کرنے کی آپشن دی جانا بہت ضروری ہے

About The Author