آپ سے کیا پردہ۔ امریکی صدر کے نظریات،طرزِ زندگی اور اندازِ حکمرانی سے میں قطعاََ متفق نہیں۔اس کی شخصیت مگر بہت ہی مزے دار اور کئی حوالوں سے بہت ہی ’’وکھری‘‘ نوعیت کی ہے۔ میں اس کے بارے میں شائع ہوئے مضامین اور کتابوں کو بہت چائو سے ڈھونڈ کر نہایت توجہ سے پڑھتا ہوں۔ٹی وی کے روبرو ہوئی اس کی گفتگو کو بارہا دیکھتے ہوئے جاننے کی کوشش کرتا ہوں کہ اس کے ’’جادو‘‘ کی کلید کیا ہے۔
ٹرمپ کی شخصیت پر مسلسل توجہ کی بدولت میں 2019کی جولائی میں اس دن بہت حیران ہوا جب وزیر اعظم عمران خان اس کی دعوت پر وائٹ ہائوس گئے۔ امریکی صدر نے ہمارے وزیر اعظم کو وائٹ ہائوس کی ’’سیر‘‘ کروائی۔اس کی اہلیہ نے Fansکی طرح عمران خان صاحب کے ہمراہ ’’سیلفی‘‘بھی بنائی۔عمران صاحب کے گرم جوش خیرمقدم کے علاوہ اہم ترین اور ایک حوالے سے تاریخ ساز واقعہ یہ بھی ہوا کہ پاکستان کے وزیر اعظم کو اپنے دائیں ہاتھ بٹھاکر ٹرمپ نے ازخود یہ اعلان کیا کہ وہ مسئلہ کشمیر کے دائمی حل کے لئے ثالثی کا کردار ادا کرنے کو تیار ہے۔آج بھی اس موقعہ کی کلپ کو دیکھیں تو بآسانی اندازہ ہوجاتا ہے کہ ٹرمپ کی اس پیش کش نے عمران خان صاحب کو خوش گوار حیرت میں مبتلا کردیا۔دوگنی مسرت انہیں ٹرمپ کا یہ دعویٰ سن کر بھی ہوئی کہ جاپان کے شہر اوساکا میں ہوئی ایک ملاقات کے دوران بھارتی وزیر اعظم مودی نے اس سے اس ضمن میں ثالثی کا کردارا دا کرنے کی استدعا کی تھی۔پاک-بھارت تعلقات کا دیرینہ طالب علم ہوتے ہوئے میں خود بھی حیرت میں مبتلا ہوگیا۔میرے ضرورت سے زیادہ جھکی ذہن میں اگرچہ ’’ساقی نے کچھ ملا نہ دیا ہو…‘‘ والا وسوسہ بھی گردش کرنا شروع ہوگیا۔مزید پریشانی اس وجہ سے بھی لاحق ہوئی کہ مودی نے ٹرمپ کے دعوے کی براہِ راست تردید نہ کی۔اپنے وزیر خارجہ کے ذریعے فقط ایک محتاط بیان دلوایا۔انتہائی خاموشی اور مکاری سے مگر نریندر مودی 5اگست 2019والا قدم اٹھانے کی تیاریوں میں مصروف ہوگیا۔ 80لاکھ کشمیری مسلمانوں کی زندگی اس دن سے آج تک شدید عذاب کی زد میں آچکی ہے۔اس کے ازالے کے امکانات نظر نہیں آرہے۔ عمران-ٹرمپ ملاقات کے علاوہ ایک ملاقات ہمارے وزیر اعظم کے ایک بہت ہی بااختیار اور قابل اعتماد مشیر جناب زلفی بخاری صاحب کی بھی ہوئی۔بخاری صاحب ٹرمپ کی بیٹی اور داماد سے ملے۔ یہ دونوں وائٹ ہائوس کی پالیسی سازی میں کلیدی کردار ادا کرتے ہیں۔ ٹرمپ کا داماد یہودی النسل ہے۔امریکی صدر نے اسے مشرق وسطیٰ کے حوالے سے اپنے ملک کی پالیسیوں کا غیر رسمی انداز میں حتمی نگہبان مقرر کررکھا ہے۔اس کی بدولت ہی امریکہ نے اب یروشلم کو اسرائیل کادارالحکومت سرکاری طورپر تسلیم کرلیا ہے۔ سفارتی اثرورسوخ کا ذکر چلے تو خواہ مخواہ کی ’’نظریاتی‘‘ بحث میں اُلجھنے سے گریز کرتا ہوں۔معلومات کو ہمیشہ ٹھوس حقائق کے تناظر میں رکھ کر جانچنے کی کوشش کی۔ زلفی بخاری کی ٹرمپ کی بیٹی اور داماد کے ساتھ تصویر دیکھنے کے بعد فوری طورپر یہ جانتے ہوئے واقعتا طمانیت محسوس کی کہ وائٹ ہائوس کے مؤثر ترین کرداروں کو بھی زلفی بخاری صاحب کے توسط سے ہم نے Cultivateکرلیا ہے۔ ’’ساقی نے کچھ ملا نہ دیا ہو…‘‘والا وسوسہ مگر اپنی جگہ برقرار رہا۔ اس وسوسے کی مستقل کھدبد نے مجھے یاد دلایا کہ نیویارک میں ’’ہوٹل روزویلٹ‘‘ بھی ہوتا ہے۔ یہ پی آئی اے کی ملکیت ہے۔اقوام متحدہ کی عمارت تک اس ہوٹل سے آپ دس منٹ تک پیدل چلنے کے بعد پہنچ جاتے ہیں۔اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے سالانہ اجلاس کے دوران پاکستان سے گئے صدور اور وزرائے اعظم اپنے وفود سمیت اس ہوٹل میں ٹھہرتے رہے ہیں۔میں 1986سے 2003تک کئی بار ان وفود کے ہمراہ گیا۔ 2004کے بعد سے مگر سرکاری وفود کے ہمراہ غیر ملکی دوروں پر جانے سے اجتناب برتنے کا فیصلہ کیا۔ ربّ کا صد شکر کہ اس نے اس فیصلے پر قائم رہنے کی قوت عطا فرمائی۔
بہرحال اس ہوٹل کو یاد کرتے ہوئے اس حقیقت پر بھی توجہ دینا پڑی کہ ٹرمپ بنیادی طورپر Real Estateکا کھلاڑی ہے۔ ’’ٹرمپ ٹاور‘‘ کے نام سے اس نے ایک مہنگا ہوٹل بھی بنارکھا ہے۔اس ہوٹل کی ایک برانچ ترکی کے شہر استنبول میں بھی موجود ہے۔بھارت میں اس ’’برانڈ‘‘ کے تحت ممبئی،پونا اورگڑگائوںکے ’’نوئیڈا‘‘ میں بہت ہی جدید مگر مہنگے فلیٹوں کی ایک Chainبھی بنائی جارہی ہے۔
ٹرمپ کی کاروباری جبلت کو ذہن میں لاتے ہوئے خود سے یہ سوال اٹھانے کو مجبور ہوگیا کہ ترکی اور بھارت میں اپنے ’’برانڈ‘‘ کو فروغ دینے کے جنون میں مبتلا امریکی صدر اور اس کا خاندان ’’ہوٹل روز ویلٹ‘‘ پر بھی نگاہ رکھے گا۔ گزشتہ کئی برسوں سے پاکستان کی ہر حکومت اس ہوٹل کو بیچنا چاہ رہی ہے۔فقط عمران حکومت ہی کو اس ضمن میں قصوروار نہیں ٹھہرایا جاسکتا۔پاکستان کی معاشی مشکلات پر ٹھنڈے دل سے غور کریں تو شاید اس ہوٹل کو بیچنے کی حمایت میں کئی ٹھوس دلائل پیش کئے جاسکتے ہیں۔اصل سوالات مگر اسی صورت کھڑے ہوں گے اگر مذکورہ ہوٹل کو مارکیٹ سے ممکنہ طورپر حاصل ہونے والی رقوم کے مقابلے میں کہیں ’’سستے داموں‘‘ بیچ کر گویا اس سے ’’جند‘‘چھڑانے کی کوشش ہوتی نظر آئے۔ایسا ہوا تو سوال یہ بھی اٹھیں گے کہ خریدنے اور بیچنے والوں کے مابین ’’مک مکا‘‘ کروانے والا سہولت کار کون ہے۔ایسی سہولت کاری مفت میں فراہم نہیں ہوتی۔ ’’خدمات‘‘ مہیا کرنے والا سرمایہ دارانہ نظام کی ’’اخلاقیات‘‘ کے تحت بھاری بھر کم کمیشن کا حق دار بھی ہوتا ہے۔چند صورتوں میں وہ خریدنے والے کا ’’شریک کار‘‘ بھی بن جاتا ہے۔ بدھ کے دن بات کھل گئی ہے۔ اس دن قومی اسمبلی کی وہ کمیٹی جو سرکاری اداروں کو نجی سرمایہ کاروں کے سپرد کرنے والے معاملات پر نگاہ رکھتی ہے اپنی روایتی کارروائی میں مصروف تھی۔ اس کے اجلاس میں پاکستان مسلم لیگ (نون) کے بلند آہنگ رہ نما خواجہ آصف بھی موجود تھے۔ موصوف نواز شریف کی دوسری حکومت میں نج کاری کے وزیر بھی رہے ہیں۔ نیویارک میں ریستوران کے کاروبار اور رئیل اسٹیٹ کے دھندے سے متعلق انہیں اپنے چند بہت ہی قریبی رشتوں کے توسط سے تازہ ترین معلومات بھی میسر رہی ہیں۔
خواجہ آصف نے ’’ہوٹل روز ویلٹ‘‘ کی فروخت سے متعلق سوال اٹھائے تو نج کاری کمیشن کے ایک اہم افسر نجیب سمیع یہ اعتراف کرنے کو مجبور ہوگئے کہ امریکی صدر ٹرمپ (یا اس کا خاندان) بھی یہ ہوٹل خریدنے کی خواہش کا اظہار کررہا ہے۔
حکومت کا یہ دعویٰ ہے کہ وہ یہ ہوٹل بیچنا نہیں چاہ رہی۔اس کی بنیادی خواہش یہ ہے کہ ’’قومی خزانے پر بوجھ‘‘ ہوئے اس ہوٹل کو کسی نجی کمپنی کے اشتراک کے ساتھ جدید تر بنایا جائے۔اس ضمن میں کسی سرمایہ کار کی بطور ’’شریک کار‘‘ تلاش ہورہی ہے۔ ذاتی طورپر مجھ دو ٹکے کے رپورٹر کو معاشی ’’کھانچوں‘‘ کے ضمن میں خاطر خواہ علم اور معلومات میسر نہیں ہیں۔امریکی اخبارات کا باقاعدہ قاری ہوتے ہوئے لیکن یہ دعویٰ کرسکتاہوں کہ کرونانے ہوٹل اور ریستوران سے جڑے کاروبار کا اس ملک میں طویل المدتی بنیادوں پر ’’بھٹہ‘‘بٹھادیا ہے۔وائرس کے خوف نے کثیر المنزلہ عمارت میں موجود فلیٹس میں گزاری زندگی پر سوالات اٹھادئیے ہیں۔”Work from Home”والی عادت بڑے کاروباری اداروں کو اب یہ سوچنے پر بھی مجبور کررہی ہے کہ وہ اپنے دفاتر کثیر المنزلہ عمارتوں میں قائم نہ کریں۔چھوٹی عمارتوں میں نسبتاََ چھوٹے دفاتر بناکر کام چلایا جائے۔ ایسے حالات میں ’’ہوٹل روز ویلٹ‘‘ تقریباََ ’’مفت‘‘ ہی کسی اور کے حوالے کرنا ہوگا۔بہتر یہی ہوگا کہ رئیل اسٹیٹ کے حوالے سے ’’اچھے دنوں‘‘ کا انتظار کیا جائے ۔ سفارتی حوالوں سے مگر Pragmatic انداز اپنایا جائے تو ایمان داری سے اس خواہش کا اظہار کرتا ہوں کہ اگر ٹرمپ کا آئندہ صدارتی انتخاب جیتنا یقینی نظر آئے تو اسے یا اس کے خاندان کو سستے ترین داموں پر ’’ہوٹل روز ویلٹ‘‘ تقریباََ ’’تحفے‘‘ میں دینے سے بھی گریز نہ کیا جائے۔میں اس ضمن میں لیکن فی الوقت پر امید نہیں۔خدشہ اگرچہ یہ بھی لاحق رہتا ہے کہ ٹرمپ بہت ہی خودغرض اور پنجابی محاورے والا ’’بدید‘‘ ہے۔
ضروری نہیں کہ ہم سے چکنی چپڑی باتوں کے ذریعے وہ نیویارک کے مشہوراور مہنگے ترین علاقے میں قائم ’’روز ویلٹ‘‘حاصل کرلے تو پاکستان کے قومی مفادات کو تقویت پہنچانے والا رویہ اختیار کئے رکھے گا۔وہ یقینا من مانی کا عادی ہے مگر امریکہ میں ایک بہت ہی طاقت ورDeep Stateبھی ہے۔ وہ اس کی ترجیحات کو یکسرنظر انداز نہیں کرسکتا۔ اصل خدشہ اب مجھے یہ بھی لاحق ہوگیا ہے کہ ’’ہوٹل روز ویلٹ‘‘ بکے یا نہیں۔ٹرمپ کی جانب سے اسے خریدنے کی خواہش البتہ اس کے مخالفین کو امریکی میڈیا میں ایک ’’سکینڈل‘‘ اچھالنے میں بہت مدد گار ثابت ہوگی۔
بشکریہ روزنامہ نوائے وقت
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر