5 جولائی1977ء کو جنرل ضیاء الحق نے بھٹو حکومت کا تختہ اُلٹ کر ملک میں مارشل لاء نافذ کر دیا۔ یہ ملکی تاریخ کا تیسرا مارشل لاء تھا۔ قبل ازیں ایوب خان اور یحییٰ خان بھی یہ ”خدمت” سرانجام دے چکے تھے۔
اب پیپلز پارٹی سمیت کچھ دیگر جماعتیں بھی 5جولائی کو ہر سال یوم سیاہ مناتی ہیں۔ ان میں چند وہ جماعتیں بھی شامل ہیں جو پہلے بھٹو مخالف اتحادوں’ یو ڈی ایف اور پھر پی این اے (پاکستان قومی اتحاد) میں شامل رہی تھیں۔
مارشل لاء کی فوجی کابینہ میں بھی بھرتی ہوئیں، بعد ازاں مارشل لاء مخالف اتحاد ایم آر ڈی کا حصہ بنیں۔
پی این اے کی چند سابق جماعتوں کی ایم آر ڈی میں شمولیت پر کراچی میں سردار شیرباز خان مزاری کی رہائش گاہ پر ایک صحافی نے محترمہ نصرت بھٹو سے سوال کیا ”کیا آپ ان جماعتوں کیساتھ ملکر مارشل لاء کیخلاف جدوجہد کریں گی جو مارشل لاء لگوانے اور ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی میں جنرل ضیاء الحق کی معاون ومددگار رہیں؟
بیگم نصرت بھٹو کے چہرے پر گہرے دکھ کے سائے لہرائے مگر انہوں نے سنبھلنے میں لمحہ بھر کی تاخیر نہ کی اور پراعتماد انداز میں بولیں۔
”سیاست میں ذاتی دشمنیاں نہیں ملک اور عوام کے مفادات دیکھے جاتے ہیں، پی این اے کی چند سابق جماعتیں اگر ایم آر ڈی میں شامل ہوکر مارشل لاء کیخلاف جدوجہد پر راضی ہیں تو اس کا مطلب بہت واضح ہے کہ وہ اپنی سیاسی غلطیوں کا کفارہ ادا کرنا چاہتی ہیں”
اس شام یا اگلے دن یہی سوال بنوری ٹاؤن یا غالباً مرحوم مولانا رشید لدھیانوی کے گھر جے یو آئی مفتی گروپ کے سربراہ مولانا مفتی محمود سے کیا گیا۔ (سوال کے الفاظ میں کچھ رد وبدل ضرور تھا) جواباً مولانا مفتی محمود مرحوم کا کہنا تھا
”سیاسی عمل آگے بڑھنے کا نام ہے، میری جماعت ذوالفقار علی بھٹو سے سیاسی اختلاف رکھتی تھی ذاتی دشمنی نہیں۔ ہم سمجھتے ہیں کہ مارشل لاء سے ملکی وحدت بکھر رہی ہے، ایک منصوبے کے تحت پاکستان کو سامراجی قوتوں کا اتحادی بنا دیا گیا ہے۔ ایم آر ڈی کے قیام کا مقصد ملک میں جمہوریت کی بحالی اور سامراجی اتحادوں سے باہر آنا ہے”
ہر دو شخصیات سے سوال کرنے والے صحافی علی نصیر میمن تھے۔ (میمن ہفت روزہ جدوجہد نکالتے تھے) اللہ ان کی مغفرت فرمائے۔
1980ء کی دہائی میں ہوئی یہ باتیں یوں یاد آئیں کہ امسال 5جولائی کے یوم سیاہ کے موقع پر ایک منظم انداز میں بھٹو مخالف اور پی این اے وجنرل ضیاء الحق کے حق میں مضامین لکھے لکھوائے اور شائع کروائے گئے۔
بھٹو صاحب کے حامیوں پر ایک عزیز نے پھبتی کسی کہ وہ بھٹو کو مقدس شخصیت بناکر پیش کر رہے ہیں۔
لگتا ہے انہوں نے خود اپنی اور اپنے ہم خیالوں کی تحریریں نہیں پڑھیں۔
ان سب نے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ اگر ملک میں 5جولائی کو مارشل لاء نہ لگتا تو خانہ جنگی شروع ہوجاتی۔
ایک بچہ سقہ ہائے سول سپرمیسی نے تو پچھلے معلوم پانچ ہزار سال کے جرائم ذوالفقار علی بھٹو کے کھاتے میں ڈال دئیے، اس بچہ سقہ ہائے سول سپرمیسی کے مضامین ”ردبھٹو” کا سلسلہ جاری ہے اور ظاہر ہے جس کوچے میں ان کی تربیت ہوئی ہے اس کوچے کا مقصد حیات بھٹو دشمنی ہے۔
سیاسی اختلاف اور دشمنی الگ الگ چیزیں ہیں، بھٹو (ذوالفقار علی بھٹو) آسمانی اوتار’ ولی یا دوسری طرح کی مقدس شخصیت بالکل بھی نہیں تھے’ انسان تھے ہمارے ہی سماج کے جیتے جاگتے انسان۔
انڈس ویلی سے ہی ان کا خمیر اُٹھا، خوبیاں بھی تھیں اور چند خامیاں بھی۔
یہاں پچھلے 43برسوں سے ان کے مخالفین خصوصاً انجمن متاثرین منصورہ شریف و سول سپرمیسی ہر دو ان کی کردارکشی میں مصروف ہیں اور ان کے حامی ومحبان تصویر کا دوسرا رخ سامنے لاتے ہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ کبھی کبھی دونوں عدم توازن کا شکار بھی ہو جاتے ہیں۔ مگرکڑوا سچ یہ ہے کہ بھٹو کے مخالفین تو عدم توازن کاشکار رہتے ہیں۔
ذوالفقار علی بھٹو سکندر مرزا کے دورحکومت میں سیاسی وحکومتی عمل میں شریک ہوئے، اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں بھیجے گئے پاکستانی وفد میں ان کی کارکردگی مثالی تھی، اسی کارکردگی نے انہیں وفاقی وزارت تک پہنچایا۔
ایوب خان اسی کابینہ میں وزیردفاع تھے، مارشل لاء لگنے کے کچھ عرصہ بعد ایوب خان کی دعوت پر وہ ان کی حکومت میں شامل ہوئے، مختلف وزارتوں سے ہوتے ہوئے وزیرخارجہ کے منصب تک پہنچے، یہی وزارت ان کی عالمی شہرت اور مقامی مقبولیت کا ذریعہ بنی۔
بھٹو ایوب خان کی کنونشن مسلم لیگ کے سیکرٹری جنرل بھی رہے مگر کیا کنونشن لیگ میں فقط بھٹو ہی تھے؟
بھٹو نے ایوب خان کی حکومت سے الگ ہوکر کونسل مسلم لیگ اور نیشنل عوامی پارٹی کے قائدین سے ملاقاتیں کیں اور پھر غور وفکر اور دوستوں کے مشورے پر پاکستان پیپلز پارٹی کے نام سے اپنی سیاسی جماعت قائم کی۔
اس نئی نویلی سیاسی جماعت کو حکومت اور دیگر پارٹیوں کی مخالفت اور 26رکنی مولوی صاحبان کے فتوے کے باوجود عوامی پذیرائی ملی۔
اس عوامی پذیرائی نے بہت سوں کو سیخ پا کیا اور سب سے زیادہ کرائے کے لوگوں کے ذریعے یوم شوکت الاسلام کا جلوس نکالنے والوں کو، یہی وجہ ہے کہ وہ اور اس کے تربیت یافتہ آج بھی بھٹو کا نام سن کر دروغ گوئی کے ریکارڈ بنانے لگتے ہیں۔
عجیب بات یہ ہے کہ جس اصول پر وہ بھٹو کو اقلیت کا نمائندہ (ڈالے گئے ووٹوں میں سے ملنے والے ووٹوں کی بنیاد پر) قرار دیتے ہیں اس اصول پر دیگر معاملات میں عمل نہیں کرتے۔
اڑھائی دہائیوں تک بھٹو مخالفت سے عبارت پروپیگنڈے سے رزق پانے والے آج بھی اسی پروپیگنڈے کو آگے بڑھاتے ہیں، عجیب بات یہ ہے کہ ہمارے یہ دوست گوئبلز بن کر بھی صحافی رہتے ہیں، دوسرا کوئی جواب آں غزل پیش کرے تو جیالہ قرار پاتا ہے، یہ صاف سیدھی منافقت ہے۔
اگر کسی کو اپنی فہم کے مطابق مخالفت کا حق ہے تو دوسرے کو حمایت کا حق بھی حاصل ہے۔
ہمیں اس امر کو مدنظر رکھنا ہوگا کہ بھلے ہم اپنے فہم کے مطابق کسی کی حمایت یا مخالفت کریں لیکن تاریخی حقائق کو مسخ نہ کریں، خصوصاً اس صورت میں تو بالکل نہیں جب دوسرے لوگ بھی زندہ ہوں۔
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر