گریٹر تھل کینال مختلف ناموں سے بار بار بنانے کی کوشش کی جاتی رہی ہے-
برطانوی سامراج کے زمانے میں پنجاب نے جب یہ کینال بنانے کی کوشش کی تو اُس وقت سندھ نے اس کینال کو بنانے کی مخالفت کی جس کے سبب اس کی تعمیر روکنا پڑی-
جب پاکستان بنا تو پہلے ممتاز دولتانہ کی وزرات اعلیٰ کے دوران اسے بنانے کی کوشش ہوئی، ایک بار پھر سندھ نے مخالفت کی اور یہ منصوبہ ترک کرنا پڑا-
ایوب خان کے زمانے میں بھی اس کینال کو بنانے کی کوشش ہوئی لیکن ایوب خان کی کابینہ میں موجود سندھی نمائندوں نے اس کی مخالفت کردی تو اس منصوبے کو پھر ترک کرنا پڑا-
اس کے بعد پھر جنرل ضیاء الحق کے زمانے میں سیلابی نہر کے طور پر گریٹر تھل کینال کا منصوبہ سامنے لایا گیا- کہا یہ جارہا تھا کہ اس کینال کو سیلاب اور کچھ پنجاب کے حصے کا پانی دے کر بھرا جائے گا لیکن جب سندھ کے نمائندوں نے اعداد و شمار کے ساتھ بتایا کہ سیلاب اور پنجاب کے حصے کے پانی سے اسے بھرنے کا خیال احمقانہ ہے تو ایک دفعہ پھر اس منصوبے کو ترک کرنا پڑا-
1991ء میں پانی کی تقسیم کا ایک معاہدہ ہوا اور اس معاہدے کے بعد نواز کے آخری دور میں اور پھر جنرل مشرف کے دور میں تھل گریٹر کینال کا منصوبہ ایک بار پھر سامنے لایا گیا- اس مرتبہ اس کینال کی تعمیر کی مخالفت صرف سندھ سے ہی نہیں ہوئی بلکہ اس کی مخالفت سرائیکی خطے کے لوگوں نے بھی کی جبکہ خود تھل کے قدیم باشندوں نے اسے مسترد کردیا-
پنجاب کے وسط میں رہنے والے اکثر شہریوں کا مائینڈ سیٹ کالونیل طرز کی پنجابی وردی بے وردی نوکر شاہی اور ان کے تابع دار سیاست دانوں، قلم فروش صحافیوں کے جھوٹے پروپیگنڈے سے تشکیل پایا ہے اور اُن میں سے اکثریت کو نہ تو مقامی لوگوں کے حقوق کے عالمگیر تصور سے واقفیت ہے اور نہ ہی وہ دریاؤں کی زیریں سطح پر رہنے والوں کے حقوق کو تسلیم کرتے ہیں اور جھوٹی ترقی و خوشحالی کے نام ہر سرائیکی، سندھی،بلوچ اور پشتونوں کی بربادی کے منصوبوں کی حمایت جاری رکھتے ہیں-
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر